مادر وطن کے فرزندان؛ شاہویز و آفتاب
تحریر: بدل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں زندہ قوموں پر جب جبراً قبضہ کیا جاتا ہے تو سامراج پوری طرح اپنی طاقت اس قوم پر ڈھا دیتا ہے، وہ اس قوم کے نقش کو دنیا سے مٹانے کی پوری کوشش کرتا ہے، چاہے وہ بندوق کے شکل میں ہو یا منشیات کے شکل میں ہو یا اٹھاؤ پھینکو کی شکل میں ہو، وہ پوری طرح اپنی بندوق کے زور پر اس قوم کو خوف و حراس میں مبتلا کر دیتا ہے، وہ اپنے ظالمانہ رویئے کو اس قوم پر مزید تیز کردیتا ہے، وہ اس قوم کی ماؤں بہنوں کے چادر کو تار تار کرنے لگ جاتا ہے، انکے عورتوں کو اٹھا کر زندانوں میں قید کرکے اذیت دیتا رہتا ہے، انکا تذلیل کرتا ہے تاکہ اس قوم کی دنیا میں کوئی نقش باقی نہ ہو۔
ان قوموں میں شمار ایک قوم بلوچ قوم بھی ہے، جس کی دنیا میں تاریخ بھی واضح ہے، لیکن جب سامراج اپنے ظلم میں انتہا کو پہنچ جاتا ہے مادر وطن پہ قربان ہونے کو ایسے فرزندوں کا جنم ہوتا ہے، جو تاریخ بدلتے ہیں۔
شاہویز و آفتاب دونوں ایسی ہی عظیم ہستیاں تھیں، جو آج ہم سے جسمانی طور پر تو جدا ہوگئے لیکن انکی سوچ، نظریہ، فکر رہتی دنیا تک اس قوم کے با شعور نوجوانوں میں زندہ رہے گی۔
شاہویز وہ شعور تھے، جو اپنے آرام دہ زندگی سے زیادہ اس قوم کے آنے والے دنوں کیلئے سرد گرم بھوک پیاس تکلیف کو ترجیح دی، شاہویز جیسے عظیم ہستی کو بیان کرنا ہم جیسے کم علم کی بس کی بات نہیں، میرے یہ الفاظ شاہویز کے چلتے پیروں سے اٹھتے دھول کے ایک ذرے کا بھی حق ادا نہیں کر سکتے۔
شاہویز جان سے میری ملاقات زندگی میں ایک دفعہ ہوئی، مئی کا مہینہ تھا ، جب ہم دو ساتھی موٹر سائیکل پر کہیں جارہے تھے ، راستے میں موٹر سائیکل خراب ہونے کے باسث ہم رک گئے، ساتھی نے فون نکال کر کسی نزدیکی دوست کو فون کیاکہ وہ ہمارے مدد کیلئے آئے کیونکہ ہم ایسی جگہ پے تھے، جہاں موٹر سائیکل بنانے کا دکان کیا کوئی اور بھی دکان نہیں تھا کہ جہاں سے ہمیں موٹر سائیکل بنانے کیلئے کچھ سامان مل سکے، خیر ہم انتظار میں تھے کہ دور سے ایک موٹر سائیکل آتے نظر آرہا تھا جس پر تین نوجوان بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ آکر ہمارے پاس رک گئے، ان میں سے ایک نوجوان شاہویز تھا جو ہم سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا (بھائی خیر اے انت مسلہ مسونے پابو نن نما مددت اے کین ) بھائی خیر تو ہے کیا مسئلہ ہوا ہے کہو ہم تمہاری کیسے مدد کرسکتے ہیں، وہ یہ کہتے ہوئے اپنے موٹر سائیکل سے اتر گئے۔
شاویز انتہائی نرم لہجے میں بولتا تھا، وہ بہت میٹھا بولتا تھا، بس دل کرتا تھا کہ شاہویز کو بس سنوں، ایسا لگتا تھا شاویز سے میرا کوئی رشتہ ہے جو مجھے اسکی طرف تیزی سے کھینچ رہا ہے، اس کے ادب و شعور نے اسکو ایسا میٹھا بنایا تھا کہ وہ ہر انسان کو اپنے ادب سے اپنی طرف کھینچ لاتا۔
وہ ہم سے ہاتھ ملایا، بلوچی رسمی حال احوال کیا شاویز کے ہاتھ میں پانی کا بوتل تھا، مجھے بھی سخت پیاس لگا تھا، شاہویز جان نے کہا بھائی اگر آپ لوگ چاہو تو ہمارا موٹر سائیکل لے جاؤ ہم بندو بست کر کے موٹر سائیکل بنا کر پھر جہاں کہو گے وہاں آپ لوگوں کو پہنچائیں گے، میں نے کہا نہیں بھائی بس آپ لوگوں کی مہربانی جو آپ لوگ ہمیں دیکھ کر رک گئے ہمارا حال ہم سے پوچھا بس اور کچھ نہیں چائیے، بس وہ پانی مجھے دو، شاہویز جان نے مسکرا کر کہاں یار معاف کرنا میں تو بھول ہی گیا ہوں، یہ لو بھائی وہ مجھے پانی کا بوتل دے کر ہم سے رخصت ہوگیا۔
ہمیں ایک دوسرے کا نام تک پوچھنے کا موقع نا ملا۔ پھر میں نے شاویز کو کبھی دیکھا۔ پھر ٹھیک پانچ سال بعد مئی کے مہینے میں ہم کچھ دوست ساتھ بیٹھے تھے ایک دوست موبائل نکال کر فیس بک دیکھ رہا تھا اچانک آفتاب جان، شاہویز جان ، ہنگل جان کی تصاویر سامنے آئیں اور قومی فوج ( بی ایل اے ) کے جانب سے ایک بیان سامنے آیا کہ مارواڑ حملے میں فتح اسکواڈ کے تین جانباز سرمچار ،ہنگل مری، آفتاب جتک اور شاہویز زہری نے اپنے جانوں کا پرواہ کیئے بغیر دشمن کا حفاظتی حصار انتہائی دلیری کے ساتھ توڑتے ہوئے، سرمچارں کے دستے کو کیمپ کے اندر داخل ہونے کا راستہ فراہم کیا ، جسکی وجہ سے دشمن کے اس اہم کیمپ پر سرمچار قبضہ کر کے تمام اہلکاروں کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوئے ، تینوں شہیدوں کی تصاویر دیکھ کر ایسا لگا کہ جسم سے روح ہی نکل گئی جسم میں جان ہی باقی نہ رہا، ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے، دل رونے لگا تب میں بس آفتاب جان سے واقف تھا، شاہویز جان کو پہلے سے دیکھ کر بھی پہچان نہ سکا، دل میں عجیب کیفیت بڑھ گئی بار بار یہ خبر پڑھ رہا تھا شہیدوں کے تصایر سوشل میڈیا پے گردش کر رہے تھے شاویز کی تصاویر سوشل میڈیا پے آنے لگیں، جہاں سے مجھے پہچان ہوئی کہ یہی ہے وہ شاہویز جس سے پانچ سال پہلے میری ملاقات ہوئی تھی۔
وہ نڈر نوجوان جس کی ادب اخلاق ہر کسی کو اس کا دیوانہ کرتا، شاہویز جان محاز کی زندگی میں کافی بدل چکا تھا ، بعد میں شاہویز کی شہری زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کی تو شاویز بہت پر فکر رہا کرتے تھے، شاویز کے گھر سے تھوڑا دور ایک کاذبہ ہے جہاں شاہویز روز اکیلے جاکے پورا دن پریشان بیٹھتے تھے۔ یقینا وہ دشمن پے ٹوٹ پڑنے کے حکمت عملی سوچ رہا ہوگا، وہ ارد گرد شہر کی طرف دو ٹکے کی میر معتبر سردار تھالی چٹوں کی گھر وں کی طرف نظر پھیرا ہوگا اور مسکرا رہا ہوگا اور سوچ رہا ہوگا کہ کتنے غرور سے دشمن کے ہاں انکے بوٹ پالش کر رہے ہیں۔ انھیں تو پتہ بھی نہیں ہے کہ ان کمبختوں کو پنجابی دشمن اپنے مفاد کیلئے استعمال کر رہا اور پھر ان کو اپنے ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتار دیگا۔
شاہویز اگر چاہتا تو وہ بھی باقی نوجوانوں کی طرح اپنی زندگی بے مقصد گزارتا اور وہ بھی عیش عشرت میں اپنی زندگی گزارتا لیکن نہیں شاہویز کو اپنی زمہ داریاں سمجھ آ چکی تھیں، شاہویز کو مادر وطن سے بے پناہ محبت تھی، وطن کے لوگوں سے بے پناہ محبت تھی، شاہویز کو یہی محبت زہری سے بولان تک لے جاتا ہے اور پھر وہ بولان میں دلیری سے دشمن پر بارش کی طرح برستا ہے اور اپنا فرض ادا کرتا ہے۔
آفتاب جان ایک شعور تھے، وہ ایک کتاب تھے، جو پوری دنیا میں پھیل چکی تھی اور آج بھی اسے ہر انسان پڑھ لیتا ہے اور اپنے اندر اسے جذب کر دیتا ہے، وہ آفتاب جان ہی تھا جس نے زہری کے اندر جسٹس برمش کمیٹی تشکیل دی۔ وہ آفتاب ہی تھا جس نے زہری میں کبھی برمش کیلئے تو کبھی حیات بلوچ کیلئے نوجوانوں کو جمع کر کے احتجاج کرواتا رہا اور زہری میں نوجوانوں کیلئے لائبریری بھی آفتاب کی محنت سے بنی۔
آفتاب جیسے شعور یافتہ نوجوان خوش نصیب قوموں میں جنم لیتے ہیں، جن کو اپنا قوم اپنے قوم کے لوگوں کے مستقبل کا سوچ ہو جو اپنے قوم کے اوپر ہوئی پاکستانی فوج کی ظلم ستم کو جانتا ہو اور یہی ظلم و ستم آفتاب کو زہری سے بولان تک پہنچاتا ہے اور دشمن پے دیدہ دلیری کے ساتھ انکے اپنے کیمپ میں کھس کر ان پر ٹوٹ پڑتا ہے اور خود شہادت کا اعلیٰ رتبہ حاصل کرتا ہے اور اپنا بندوق باقی نوجوانوں کے تھامنے کیلئے چھوڑ جاتا ہے۔ یہی ہوتے ہیں اس قوم کے اصل وارث جو اس قوم کے آنے والے دنوں کیلئے اپنا آج قربان کر دیتے ہیں اور ہمیشہ کیلئے امر ہو جاتے ہیں، انکا سوچ و فکر اور فلسفہ رہتی دنیا تک ہمارے دلوں میں زندہ ہے زندہ رہے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں