فلسطین کا ڈاکٹر جارج حبش ۔ دوستین کھوسہ

281

فلسطین کا ڈاکٹر جارج حبش

تحریر: دوستین کھوسہ

دی بلوچستان پوسٹ

تحریک، جدوجہد کے لیئے اٹھنے والے اس عمل کو کہتے ہیں کہ جن میں محکوم اور مظلوم طبقے، اقوام ، عوام یا قومیں اکھٹے اور منظمہوکر اپنی قوتوں کو یکجا کرتے ہیں ، انہیں بہتر کرتے ہیں اور ترقی دیتے ہیں تاکہ  انقلابی مقصد کا حصول کیا جا سکے۔ قومیتحریکوں سے مراد قبضہ گیروں کے خلاف  قوموں کی ایسی سیاسی اور سماجی تحریکیں ہوتی ہیں جن کا مقصد قومی شناخت اورقوم وجود کا تحفظ ہوتا ہے۔

تاریخ کا جائزہ لیں  تو اس دنیا میں دو قسم کے طبقے ہمیشہ سے رہے ہیں ان میں ایک ظالم اور دوسرا مظلوم کا طبقہ۔ ان دونوںطبقوں کا آپس میں رشتہ جبر اور مزاحمت کا ہوتا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں جہاں بھی کسی قبضہ گیر  نے مقامیوں کی سرزمین پرقبضہ کیا ، وہاں سے دھرتی کے باسیوں کی جانب سے اسے ہمیشہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور دنیا میں سب سے زیادہمزاحمتی جنگیں کالونائزر اور کالونائزڈ ، آزادی اور غلامی  کے درمیان ہوئے ہیں جن میں فلسطین ، کرد ، تامل ، بلوچ ، سندھی ،  افریقہ ، کیوبا ، ویتنام ،  الجزائر ، گنی بساؤ ، چین ، ہندوستان ، بنگلہ دیش ، آئرلینڈ شامل ہیں جن کی جدوجہد دنیا اور علم والوں کےلیے عیاں ہے۔

افریقی رایٹر لکھتا ہے کہ قبضہ گیر مقامی کیلئے بد ترین شناختی بحران (Identity Crisis) پیدا کرتا ہے، وہ اپنی تاریخ ، ثقافت ،زبان ، شناخت ، نسل سب بھول جاتا ہے ۔ واجہ غسان کنفانی اپنی کتاب

‏ (Palestinian Children:Returning to Haifa) میں تفصیلا واقعات سے بیان کرتے قبضہ گیر جب کسی سرزمین پر قبضہ کرتاہے تو مقامی اپنی نسل، شناخت ،  پہچان سب بھول جاتا ہے۔ لیکن جب قبضہ گیر یہ سب کررہا ہوتا ہے یہی وطن کے دیوانے اپنیقومی شناخت ، اپنی قومی بقاء ، آزادی اور ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کے لیے لڑ رہے ہوتے جس میں انصاف ، برابری اور مساواتہو۔ وطن کے یہ شہزادے تاریخ میں ہمیشہ امر ہو جاتے ہیں ان میں  فلسطین کے لیلی خالد، جارج حبش ، غسان کنفانی ، محموددرویش کیوبا کے ڈاکٹر چے ، کاسترو ،  کینیا  کے دیدن کماتی ، سندھ کے جی ایم سید ، بشیر قریشی ، چین کے موزے تنگ ، ہندوستانکے بھگت سنگھ ، سبھاش چندر باس ، شیکھر آزاد ، الجزائر کے فرانز فینن،    بلوچستان کے شہید بالاچ ، بابو نوروز ، شہید امیرالملک ، شہداد ، استاد اسلم ، شاری بلوچ ، سلمان حمل، شہید گنجل ، شہید آفتاب اور ہزاروں شہداء وطن پر قربان ہوکر تاریخ میں امرہوگئے۔

فلسطینی راج دوستی فلسطینی قوم کی ایک قومی اور سیاسی تحریک ہے جو فلسطین کی ریاستی خودمختاری اور آزاد قومی شناختاور فلسطین کی مکمل آزادی پر یقین رکھتی ہے۔ فلسطینی راج دوستی کی شروعات فلسطین پر برٹش اور اسرائیلی قبضے کے بعدہوئ۔  فلسطینی راج دوستی نے بعد میں بین الاقوامی شکل بھی اختیار کی اور دوسرے نظریات سے منسلک کیا۔

1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیل کی حکومت کے فلسطینی علاقوں پر قبضے کے بعد فلسطینی قوم پرستوں کی جانب سےباقاعدہ مسلح مزاحمت کا آغاز کیا جو اب تک جاری ہے۔

ڈاکٹر جارج حبش ایک گوریلہ جنگجو ، سیاستدان اور مفکر تھے۔ انکا تعلق عیسائی مزہب سے تھا۔  وہ 2 اگست 1926 ء کو فلسطینمیں پیدا ہوئے۔  انہوں نے غلامی ، قبضہ گیریت اور اسکے اثرات ، جنگ ، تشدد ، تباہی اور مظالم کو بہت نزدیک سے دیکھا  اور انکاسامنا بھی کیا۔ 1948 ء کی جنگ کے بعد انہیں اپنا گھر ، علاقہ ، وطن چھوڑنا پڑا اور وہ پناہ گزینوں کے کمپس میں زندگی گزارنےپر مجبور ہوئے ۔

1948 ء کی جنگ میں جارج حبش کی بہن اسرائیل افواج کی بمباری میں شہید ہوئے اور جارج حبش واپس کبھی اپنے وطن واپسنہیں جاسکے۔ انکو فلسطین کی قومی جدوجہد میں بایاں بازو کی ریڈیکل انداز سیاست کا بانی کہا جاتا ہے ، انہوں نے فلسطینیجدوجہد آزادی کو سیکولر ، فلسطینی قوم پرست بنیادوں پر استوار کیا۔

حبش نے اپنی ابتدائی تعلیم لدہ ( Lyda) میں مکمل کی اور پھر ثانوی تعلیم کے لیے جافا میں نیشنل آرتھوڈوکس کالج چلے گئے۔  انہوں نے یروشلم کے ٹیرا سانکٹا ( Terra sancta College) کالج میں میٹرک کی ڈگری حاصل کی۔حبش واپس جافا آیا جہاں اسنے بطور استاد کام کیا۔  اس وقت ان کی عمر بمشکل سولہ سال تھی۔  برٹش کی پالیسیوں اور  ہگناہ  (Hanganah)  ارگن (Irgun) اور سٹرن (Stern) جیسے یہودی گروہوں کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی کارروائیوں کی وجہ سے فلسطین کی عمومی فضا غصےاور خوف کی لپیٹ میں تھی۔

1944 میں حبش کو بیروت کی امریکن یونیورسٹی کے میڈیکل اسکول میں داخل ہوئے۔  وہ ایک ذہین اور غیر معمولی طالب علم تھاجس نے اپنے یونیورسٹی کے وقت کو اپنے پڑھائی، سیاست ، آرٹ اور موسیقی میں گزارا ۔

ان کو فکری اور قوم پرست نظریات  تاریخ کے پروفیسر زیوریک کی شاگردی  سے ملے۔ ڈاکٹر زوریک ایک سیکولر عرب ، قوم پرست، اورمفکر تھے۔  اس عرصے کے دوران یونیورسٹی تمام عرب ممالک کے عرب طلباء سے بھری ہوئی تھی جو اپنے ساتھ اپنے قومی خدشات لےکر گئے تھے۔  ان کی اس وقت کی  نظریاتی درسگاہ کلچرل اسٹوڈنٹس سوسائٹی تھی۔  زوریک اس میں اسٹڈی سرکلز دیا کرتے تھے،اور حبش کو تعلیمی سال 1949-50 کے لیے اس کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا تھا۔

یونیورسٹی کے سالوں میں حبش کی زندگی میں اصل موڑ 1948ء میں آیا ، جب ایک کے بعد ایک فلسطینی شہر، قصبہ اور گاؤںیہودی اسرائیلی افواج کے قبضے میں آئے اور وہاں کے باشندوں کو گھروں اور علاقے سے نکال دیا کیا۔  حبش نے اپنی ڈاکٹری کیتعلیم کو مختصر کیا اور جون 1948 میں اپنے آبائی شہر لدا (Lyda) چلا گیا، جہاں اس نے ایک میڈیکل کلینک میں کام کیا اور ایکسرجن کے معاون کے طور پر کام کیا جو شہر کے زخمی شہریوں اور سرمچاروں کا علاج کر رہا تھا۔  11 جولائی 1948 کو لڈا  اسرائیلی افواج کے قبضے میں آگئے تقریباً ساٹھ ہزار لوگوں کو نقل مقانی کرنا پڑی اور ہزاروں فلسطینی شہید ہوئے ۔  حبش، اس کےوالدین اور اس کے بہن بھائی نکالے جانے والوں میں شامل تھے۔ حبش نے بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کا علاج کیا جو زخمی تھے۔

حبش اپنی تعلیم دوبارہ شروع کرنے کے لیے 1948 ء میں بیروت  (Beruit) واپس آیا۔  اس نے 1951 میں امریکن یونیورسٹی کےمیڈیکل اسکول سے گریجویشن  مکمل کیا  مگر انکو کسی بھی نوکری میں دلچسپی نہ ہوئی جس چیز نے ان کے سوچ اور احساساتاور فکر پر مکمل قبضہ کیا وہ فلسطین کا المیہ تھا۔  جارج نے اسٹوڈنٹس کو اپنی کوششوں سے سڑکوں پر نکالا اور  منظم کیا ، بہتسے احتجاج کیے اور انکی سیاسی موبائزیشن کی  جس کی وجہ سے اسے متعدد بار گرفتار کیا گیا، حبش نے قوم پرست اور ترقیپسند نوجوانوں کی تنظیم قائم کی۔

1952 میں وہ بیروت سے عمان کے لیے روانہ ہوئے جہاں انھوں نے ڈاکٹر وادی حداد کے ساتھ مل کر مہاجرین  کے علاج کے لیے ایکمفت طبی کلینک قائم کیا، اس دوران نوجوانوں کو متحرک کیا اور اسرائیلی فوج کے ساتھ ہونے والے امن معاہدوں کے خلاف بڑے پیمانےپر مظاہرے منعقد کیے۔ اس کی وجہ سے اردن کے سیکورٹی حکام کی طرف سے جارج حبش کی تلاش کی گئی اور اسے دو سال تکانڈرگراونڈ رہنے پر مجبور ہو گئے۔  1954 میں وہ دمشق چلے گئے۔

وہ سیاسی طور پر تشدد جواب تشدد کے فلسفے پر یقین رکھتے تھے، ان کا یقین تھا کہ اسرائیل نے فلسطین پر تشدد کے زریعےقبضہ کیا انکے قبضے کو تشدد اور قومی جدوجہد کے زریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ حبش نے عرب نیشنلسٹ موومنٹ (ANM) کیبنیاد رکھی اور اس تنظیم کو سیکولرزم اور نیشنلزم کے نظریہ  کی بنیادوں پر چلایا۔

60 ء کی دہائی میں

‏Palestinian Libration Organization (PLO) پر زیادہ تر اثر رسوخ خطے میں موجود عرب حکومتوں کا ہوتا تھا اور جارج حبشاس چیز پر بہت سے تحفظات رکھتے تھے۔ 1964ء میں حبش نے عرب نیشنلسٹ موومنٹ  تنظیم کو دوبارہ منظم کرنا شروع کیا، تنظیمکے فلسطینی اراکین کو ایک “Regional command” میں دوبارہ اکٹھا کیا۔ 1967 کی شکست کے بعد 1967 ء  میں پاپولر فرنٹفار دی لبریشن آف فلسطین (PFLP) کی بنیاد رکھی۔ پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین (PFLP) نظریاتی طور پر فلسطین قومپرستی  (Palestinian Nationalism) ، مارکسزم اور لیینزم  ، سیکولرزم اور  فلسطینی مسئلے کے( One State Solution) پریقین  رکھتی تھی اور اسکا مقصد مسلح جدوجہد کے زریعے فلسطین کی آزادی تھا۔

1968ء  میں حبش کو شامی فوج کی طرف سے ایک دعوت ملا جو ایک جال ثابت ہوا۔  اسے گرفتار کیا گیا اور اس پر گوریلا فوجیسیل بنانے کا الزام لگایا گیا۔  جارج نے 10 ماہ شام کی بدترین جیل میں گزارے جہاں انہیں کافی ذہنی اذیت اور ٹارچر کیا گیا۔  جیلمیں، اس نے اپنا وقت مارکس، لینن، ہو چی منہ اور ماؤ کے سیاسی اور مزاحمتی اور عملی جہد کو پڑھا، مارکسزم پر پوری گرفتحاصل کی۔  اسے اس کے ساتھی حداد نے جیل سے باہر نکلوایا اور فرار کا انتظام کیا۔

حبش کو 1972 میں ہارٹ اٹیک اور 1980 میں برین ہیمرج ہوا۔  1972 میں اسرائیلی موساد نے حبش کے قریبی دوست ناول نگار اورپاپولر فرنٹ کے ترجمان واجہ غسان کنافانی کو بیروت میں کار بمب میں شہید کردیا اور 1978 میں موساد نے  کامریڈ حداد کو قتلکرنے کے لیے زہر دے کر مارنا چاہا ۔  ان دو واقعات نے حبش کو صدمہ پہنچایا ،  1973 میں موساد نے بہت بار ٹارگٹڈ حملے کیے جنمیں جارج حبش مشکل سے بچے۔

پاپولر لبریشن فرنٹ نے اسرائیلی فوج کے خلاف متعدد مزاحمتی حملے کیے اور گوریلا مسلح جنگ کو بہت تیز کیا،  1968 اور 1972 کے درمیان اس نے بین الاقوامی ایئر لائنز کی بہت سے جہاز ہائی جیک کیے جس کا مقصد فلسطین پر ہونے والے مظالم پر دنیا کیتوجہ مبذول کروانا تھا ان ہیجیکنگ میں کسی کو نقصان نہیں پہنچایا گیا ، اس کا زکر لیلی خالد اپنی کتابمیرے لوگ زندہ رہیں گےمیں کرچکی ہیں ۔

بڑھتی ہوئی گوریلا سرگرمیاں، پرتشدد اسرائیلی کاروائیاں، اور بعض فلسطینی مسلح تنظیموں کے غلط فیصلوں نے فلسطینی مسلحگروپوں اور اردن کی سیکورٹی فورسز کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا۔  1970 میں، ڈاکٹر حداد نے تین مغربی جمبو جیٹ ہوائیجہازوں کے ہائی جیک کیا۔  انہیں اردن کے ایک صحرائی ہوائی اڈے میں اتارا گیا، مسافروں اور عملے کو نکال کر،  ہوائی جہازوں کواڑا دیا گیا۔  یہ واقعہ اردن میں اردنی فوج اور سیکورٹی فورسز اور فلسطینی گوریلوں کے درمیان مسلح جھڑپوں کا باعث بنا۔  لڑائیعمان سے جراش کے جنگلوں میں منتقل ہوگئی، جہاں 1971 کے آخر تک لڑائیاں جاری رہیں۔ اس کے بعد فلسطینی جنگجو اور ان کےکمانڈر لبنان واپس چلے گئے۔

پاپولر فرنٹ   نے 1972ء  میں اعلان کیا کہ اس نے طیاروں کو ہائی جیک کرنے کی گوریلہ حکمت عملی چھوڑ دی ہے۔  اس وقت تک یہ،دوسرے فلسطینی گروہوں کی طرح، لبنانی سیاست میں گھسی۔ لبنان میں سیاسی قوتوں کے درمیان پالیسیوں پر بہت واضح اختلافہوا ، ایک گروہ اسرائیل کے خلاف گوریلا سرگرمیوں کی حمایت کرنے والا اور دوسرا مخالف۔  1975 میں لبنان میں ایک خون ریز خانہجنگی شروع ہوئی۔  اسرائیل نے بہت جلد نئی صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور مصر کے ساتھ اپنے عبوری معاہدے اور پھر امن معاہدہ(مارچ 1979) کے ذریعے موجود موقع کو استعمال کرتے ہوئے شعلوں کو بھڑکانے کا کام کیا۔  دیگر قوم پرست جماعتوں اور مسلحتنظیموں اور PFLP نے ان امن معاہدوں کی بہت  شدید مخالفت کی۔

مصر نے 1982ء میں لبنان پر حملہ کرنے اور بیروت کا محاصرہ کرنے کے اسرائیل کے فیصلے میں بہت زیادہ تعاون کیا۔  کسی عربدارالحکومت کا پہلا محاصرہ تھا اٹھاسی دن تک جاری رہا جس کے دوران اس شہر پر زمینی، سمندری اور ہوا سے مسلسل بمباریکی گئی۔  یہ اس وقت ختم ہوا جب بین الاقوامی برادری نے مداخلت کی اور امن مزاکرات میں  اسرائیلی مطالبے کے تحت لبنان سےفلسطینی گوریلوں ، سیاسی  کیڈرز اور قیادت کا انخلا ہوا۔

حبش نے یاسر عرفات کی ساتھ جو اس وقت پی ایل او کے سربراہ تھے  بیروت چھوڑ دیا، لیکن عرفات کے ساتھ جانے کی بجائے  حبشدمشق کی طرف روانہ ہوا وہ مشکلات کے باوجود  اسرائیل کے خلاف مسلح جنگ جاری رکھنا چاہتا تھا کیونکہ اسکے نزدیک دنیا میںتاریخ میں قابض کو نکالنے کا واحد حل مسلح جدوجہد ہے ، وہ دوسرے جنگجوؤں کے ساتھ دمشق کی طرف روانہ ہوا۔  اس نے دمشقکو اپنی رہائش گاہ اور  PFLP کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر منتخب کیا، اور عرب اور غیر ملکی دارالحکومتوں کے متعدد دورے کئے۔  اسدہائی کے دوران، انہوں نے الجزائر میں منعقدہ فلسطین نیشنل کونسل کے اجلاسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاسولہویں (1983)،اٹھارویں (1987) اور انیسویں سیشن (1988)  جہاں انہوں نے مسلسل مسلح مزاحمت پر زور دیا۔

اس عرصے کے دوران حبش پر پھر سے اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں نے حملہ کیا مگر اس سے محفوظ رہے۔

1990 میں دوسری خلیجی جنگ کے دوران PFLP نے صدام حسین کی حمایت کا اظہار کیا۔  حبش نے امریکی فوجی آپریشن شروعہونے سے پہلے بغداد کا دورہ کیا اور اسی سال دمشق سے عمان چلا گیا  عمان میں اس نے عراق کی حمایت کے اظہار کیا۔

1992 میں حبش کی صحت بگڑ گئی۔ علاج کے لیے فرانس کا سفر کیا۔  یہ دورہ تیزی سے ایک بڑے سیاسی مسئلے میں تبدیل ہو گیاجب اسرائیل کے ہزاروں حامیوں نے ہسپتال کے صحن میں مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔  اس کے میزبان یہودیلابی کے دباؤ کو قبول کرنے اور دہشت گردی کے الزام میں حبش کو گرفتار کرنے پر مائل تھے، لیکن عرب حکومتوں نے مداخلت کی۔  الجزائر نے اسے ملک سے باہر لے جانے کے لیے صدارتی طیارہ بھیجا تھا۔  حبش کی بیوی فرانسیسی تفتیش کاروں کے سامنے کھڑےہو کر اور اپنے بیمار شوہر کو ان سے بچا کر بحران کے دوران بے پناہ ہمت کا مظاہرہ کیا۔

حبش اور پاپولر فرنٹ نے ایک امن کانفرنس اور واشنگٹن مذاکرات میں پی ایل او کی بالواسطہ شرکت کی سختی سے مخالفت کیجس کی وجہ سے پی ایل او اور اسرائیل کے درمیان خفیہ مذاکرات ہوئے، جس کے نتیجے میں 1993 کا معاہدہ، فلسطینی اتھارٹی کاقیام، اور  عرفات کی فلسطین واپسی، اور 1994 کے اردناسرائیل امن معاہدے کے لیے راستہ کھول دیا۔ ان پیش رفتوں پر حبش کاموقف تھا کہ ان معاہدوں سے فلسطینیوں کو کچھ بھی نہیں ملا ، نہ فلسطینی پناہ گزینوں،  نہ مکمل خودمختار ریاست ، نہ زمین کومسلسل آباد کاری اور قبضے سے بچانا ۔  حبش نے اپنی فلسطین واپسی کو مہاجرین کی واپسی سے جوڑا۔

عمان سے وہ واپس دمشق چلا گیا جہاں اس نے 1990 کی دہائی کا بقیہ حصہ گزارا۔  انہوں نے 2000  پاپولر فرنٹ کے سیکرٹریجنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔  پاپولر فرنٹ  نے 2002 اور 2003 میں اسرائیل اور مغربی کنارے میں 4 خودکش بم دھماکوںکی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ اس کے علاوہ اس گروپ نے اپنے اس وقت کے سیکرٹری جنرل ابو علی مصطفیٰ کے قتل کا بدلہ لینےکے لیے اکتوبر 2001 میں اسرائیل کے وزیر زراعت ریحام زیوی کو قتل.

استعفی کے بعد بھی حبش نے اپنا قومی کردار ادا کیا۔  اس نے اپنی زندگی کے آخری سال اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ادارے کی قیام کیکوشش کی،  انہوں نے عربوں اور فلسطینیوں پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی منصوبوں کا مقابلہ کرنے میں عربوں کی ناکامی کی وجوہاتکو پوری طرح سمجھیں اور انکا مطالعہ کریں۔ انہوں نے اس عرصے کے دوران کئی سیاسی اور فکری لٹریچر شائع کروایا

وہ 26 جنوری 2008 کو عمان میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے اور وہیں دفن ہوئے۔ حتیٰ کہ فلسطینی تحریک میں ان کےمخالفین نے بھی حبش کو ایک دلیر ، مقصد کے ساتھ پختہ ، سیاسی اور مسلح جنگجو کمانڈر مانا جس نے اپنی پوری زندگی اپنےوطن کے لیے وقف کردی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں