بلوچ طالب علم حفیظ بلوچ کو ماورائے عدالت کیس زدوکوب کرکے غائب کردیئے گئے ،جعلی ایف آئی آر اغواء کے بعد انکے خلاف درجکرائی گئ۔آج بمورخہ تیس جنوری کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے انہیں باعزت بری کرتے ہوئے کیس کو خارج کردیا ۔
رواں سال آٹھ فروری کو پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی اور بعدازاں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں مبینہ گرفتار ہونے والے طالبعلم حفیظ بلوچ کو آج انسداد دہشتگردی کی عدالت اوستہ محمد نے باعزت بری کردیا۔
حفیظ بلوچ کو فورسز نے انکے آبائی علاقے خضدار سے اس وقت حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کیا جب وہ ایک نجی اکیڈمی میںبچوں کو پڑھا رہے تھے۔
حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں احتجاج ریکارڈ کیا گیا بعد ازاں اُن کو چالیس دن بعد کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے دہشتگردی کی الزامات لگا کر ان کی گرفتاری ڈیرہ مراد جمالی سے ظاہر کی تھی آج وہباعزت بری ہوگئے۔
حفیظ بلوچ کی بازیابی پہ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل (اسلام آباد) نے خوشی کا اظہار کرتےہوئے دیگر لاپتہ طالب علموں کے بازیابی کامطالبہ کیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عطر من اللہ نے پنجاب اور اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء و طالبات کی نسلی ہراسمنٹ و پروفائلنگ کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس کو ایک غیر انسانی و گنھاؤنا جرم قراردیا۔مگر اس کے باوجود تعلیمی اِداروں میں بلوچ طالب علموں کی ہراسمنٹ و پروفائلنگ تیزی کے ساتھ برقرار ہے۔ جہاں بلوچ طلباء کی پروفائلنگ کرکے انہیں جبری طور پر لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ جو کہ بلوچ طلباء کی تعلیمی سفر میں سب سے زیادہ مشکل کا حامل ہے۔
ترجمان نے کہا کہ تمام لاپتہ افراد کی بحفاظت رہائی خوش آئند بات ہے اور ہم حکام بالا سے اپیل کرتے ہیں کہ فیروز بلوچ سمیت دیگربلوچ فرزندان کو عقوبت خانوں سے رہا کیا جائے۔
خیال رہے کہ بلوچستان کے دیگر علاقوں سے لاپتہ کیے گئے کئی لاپتہ افراد کو سی ٹی ڈی کے حوالے کرنے کی اطلاعات موصولہوچکے ہیں ۔نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریڑی جنرل جان محمد بلیدی نے آج اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ضلع کیچ سے جبری طورپر لاپتہ افراد کی سی ٹی ڈی بارکھان، نوشکی اور نصیر آباد کے تھانوں سے برآمدگی سمجھ سے بالاتر ہے ۔
انہوں نے کہا کہ جھوٹے مقدمات واپس لے کر تمام افراد کو رہا کیا جائے۔