اسلام آباد پریس کلب میں صحافیوں سے پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے بلوچ طلباء نے کہا کہ گذشتہ چار مہینوں کے درد اور قرب کو لیکر ہم بلوچ طلباء آج پھر آپ کے سامنے حاضر ہیں- ریاستی ظلم و ستم نے بلوچ طلباء کی زندگی مفلوج کرکے رکھ دیا ہے آئے روز بلوچ اسٹوڈنٹس کی جبری گمشدگی، ہراسمنٹ، نسلی پروفائلنگ، بلوچ طلباء کی ماورائے عدالت قتلِ عام اور بلوچ طلباء کو دیگر ذرائع سے مسلسل اذیت دینا دہائیوں سے چلتا ریاستی متعصبانہ سلوک کی تسلسل ہے-
لاپتہ فیروز بلوچ کی جبری گمشدگی کی خلاف پریس کانفرنس میں بلوچ طلباء کا کہنا تھا کہ بلوچ طلباء پر مسلط کردہ مظالم اور امتیازی سلوک قائم رکھنا بلوچ طلباء کو تعلیم سے دور رکھنے کی گہری سازشیں ہیں بلوچ طلباء کو یو جبر کا نشانہ بنانا انتہائی تشویشناک ہے جسکے اثرات خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں حالیہ کچھ عرصے سے جاری جبری گمشدگی کے اس لہر نے بلوچ طلباء کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کی پروفائلنگ و ہراسمنٹ اور پروفائلنگ کے بعد بلوچ طلباء کو جبراً لاپتہ کرنا اب ریاستی اداروں کا پیشہ بن چکا ہے-
طلباء کا کہنا تھا کہ گذشتہ مہینے 11 مئی کو ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی راولپنڈی میں زیر تعلیم بی-ایڈ کے طالب علم فیروز بلوچ کو اُس وقت لاپتہ کیا گیا جب وہ چار بجے کے قریب اپنے یونیورسٹی لائبریری کی طرف روانہ ہوئے تھے طلباء نے کہا فیروز بلوچ کو یوں جبراً لاپتہ کرنا اور اُن کے بارے معلومات فراہم نہ کرنا انتہائی تعجب انگیز اور پریشان کن ہے۔ فیروز بلوچ کی جبری گمشدگی کو لیکر بلوچ طلباء نے ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی میں متعدد پیس واک اور نیشنل پریس کلب کے سامنے مظاہرے کیے لیکن فیروز بلوچ تاحال لاپتہ ہیں لاپتہ فیروز بلوچ کی جستجو میں ہم بلوچ طلباء نے یونیورسٹی انتظامیہ کو بار بار آگاہ کیا جبری گمشدگیوں کی خلاف قائم کردہ کمیشن میں پیش ہوئے، حتیٰ کہ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں پٹیشن بھی دائر کیا لیکن ہمیشہ کی طرح ہماری کوئی شنوائی نہیں ہوئی- بجائے فیروز بلوچ کو بازیاب کیا جاتا اور بلوچ طلباء کو سُنا جاتا لیکن بدقسمتی سے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے نئے تقرر کردہ معزز جج نے فیروز بلوچ کا کیس ہی بغیر کسی سماعت کے خارج کیا جو بلوچ طلباء کے خدشات میں مزید اضافہ ہے-
انکا کہنا تھا کہ بلوچ طلباء پر جبری گمشدگی جیسے غیر انسانی اور غیر قانونی مظالم کا خطرناک حد تک اضافہ انتہائی پریشان کن ہے کسی بھی نا خوشگوار واقعے کو جواز بنا کر بلوچ طلباء کو ٹارگٹ بنانا ریاست کی واضح ناکامی کے دلیل ہیں چار مہینے قبل قائد اعظم یونیورسٹی کے طالب علم حفیظ بلوچ کو بلوچستان کے علاقے خضدار سے جبراً لاپتہ کرنا اور بعد ازاں سی ٹی ڈی کی طرف سے لگائے گئے بے بنیاد الزامات، یونیورسٹی آف بلوچستان کے دو طالبعلم سہیل اور فصیح بلوچ کو یونیورسٹی ہاسٹل سے جبراً لاپتہ کرنا، حال ہی میں بلوچستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی خضدار سے گریجویٹ طالبعلم ثاقب بلوچ کا سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونا اسی طرح ضلع کیچ تربت سے طالبعلم حفیظ بشیر بلوچ کو اُنکے گھر سے جبراً لاپتہ کرنا اور واضح رہے گزشتہ دنوں کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم شعبہ فلسفہ کے دو طالب علم گمشاد بلوچ اور دودا بلوچ کو جبراً لاپتہ کرنا. جنہیں تین دن بعد آج صبح رہا کیا گیا جو کہ خوش آئند بات ہے لیکن جبری گمشدگی جیسے انسانیت سوز مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والے پرامن مظاہرین پر سندھ پولیس کی جانب سے تشدد کرکے گرفتار کرنا اس امر کی تصدیق ہے کہ بلوچ عوام اور طلباء کیلئے اپنے پیاروں کی بازیابی اور اُنکے کیلئے آواز اٹھانا بھی اس ریاست کو تسلیم نہیں جہاں احتجاج ہر شہری کا بنیادی حق ہے وہیں بلوچ طلباء اور عوام کیلئے احتجاج پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے اور بلوچ طلباء کو تمام تر ریاستی قوت کے ساتھ تعلیم سے دور رکھنے کوشش کی جارہی ہے-
بلوچ طلباء نے اپنے گفتگو میں کہا کہ طلباء کی حالات دن بہ دن مزید گھمبیر ہوتے جارہے ہیں گذشتہ چار مہینوں سے بلوچ طلباء کو درد بہ در کی ٹھوکر کھانے پہ مجبور کیا جارہا بلوچ طلباء نے ان بڑھتی ہوئی جبری گمشدگی اور ناانصافیوں کے خلاف ہر در کو دستک دی ہم بلوچ طلباء نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے لیکر لاہور ہائی کورٹ پینڈی بینچ تک پٹیشن دائر کیے صدرِ پاکستان سے دو مرتبہ ملاقاتیں کیں ساتھ ساتھ وزارتِ داخلہ اور سیکرٹری داخلہ سے ملے جبری گمشدگیوں کے خلاف قائم کردہ کمیشن کے سامنے بھی حاضر ہوئے بلوچ طلباء نے ہر اُس در کو اِس یقین کے ساتھ دستک دی کہ شاید بلوچ طلباء کو سُنا جائے اور ہمارے آئینی مطالبات تسلیم کیے جائیں لیکن شاید بلوچ ہونے کے ناطے نہ ہماری شنوائی ہوئی نہ ہی بلوچ طلباء کے مسائل کے حل کیلئے سنجیدگی نظر آئی بدقسمتی سے ہر طرف مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ایسے حالات نے بلوچ طلباء کو ذہنی اذیت اور قرب میں مبتلا کیا ہے جہاں ظلم اپنے عروج پر وہیں انصاف کا کوئی نام و نشان نہیں-
انہوں نے کہا جبری گمشدگی کے ساتھ ساتھ بلوچ طلباء کو ہراساں کرنا اور اُنکی پروفائلنگ میں بھی مزید اضاف ہوا ہے جہاں کچھ روز قبل سیکٹر I/10 مرکز میں بلوچ طلباء کے مختلف کمروں میں اسپیشل برانچ نامی ریاستی ادارے کی جانب سے بلوچ طلباء کو متواتر ہراساں کیا گیا اُنسے بغیر کسی قانونی دستاویزات کے پوچھ گچھ کیا گیا اور اُن سے پرسنل معلومات حاصل کرکے مختلف ذرائع سے ڈرایا دھمکایا گیا واضح رہے بلوچ طلباء نہ یونیورسٹی کیمپسز اور نہ ہی اپنے گھروں اور کمروں میں محفوظ ہیں بلکہ بلوچ طلباء کو دانستہ طور پر تعلیم سے دور رکھنے کی تمام تر ریاستی کوششیں جاری ہیں-
بلوچ طلباء کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگی کے اس لہر نے اسلام آباد و پنجاب سے لیکر کرر کراچی سندھ سمیت بلوچستان اور ملک کے بیشتر حصوں میں بلوچ طلباء کو خطرناک حد تک متاثر کیا ہے ریاست کی طرف سے بلوچ طلباء کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہراساں کرکے اُنہیں جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے جو اب ایک خطرناک مرض بن چکا ہے- بلوچ طلباء سے ناروا سلوک، ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کی پروفائلنگ و ہراسمنٹ ،بلوچ طلباء کو بغیر کسی گناہ کے اسطرح جبراً لاپتہ کرنا بلوچ طلباء کے حوالے سے ریاستی مائنڈ سیٹ کی عکاسی کرتا ہے طالبعلموں کے جبری گمشدگی کا یہ تسلسل اور اس میں شدت نہایت ہی تشویشناک ہے۔ بلوچ طلباء کی موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی جیسے غیر انسانی سلوک سے بلوچ طلباء کے اندر ایک خوف جنم لے چُکا ہے جہان نہ بلوچ طلباء کو چین سے پڑھنے کا حق دیا جارہا ہے اور نہ ہی سکون سے زندگی جینے کی اجازت دی جارہی ہے بلکہ بلوچ طلباء کو جبری طور پر لاپتہ ہونے کے خوفزدہ عالم میں جینے پر مجبور کیا گیا ہے.
طلباء کا کہنا تھا کہ ریاست کی طرف سے بلوچ طلباء کو ایک ایک کرکے زندانوں کی نظر کیا جارہا ہے ہم ملک بھر کے تمام بلوچ اسٹوڈنٹس کونسلز ملک بھر کے طلباء تنظیموں سمیت بالخصوص بلوچستان کے طلباء تنظیموں اور تمام انسان دوست افراد سے التماس کرتے ہیں کہ جبری گمشدگی جیسے غیر انسانی اور غیر قانونی مرض کے خاتمے کے خلاف یکجا ہوکر مجموعی طور پر مزاحمت وقت کی اہم ضرورت ہے. ہم تمام بلوچ فرزندان اور بلوچ اسٹوڈنٹس کونسلز اور بلوچستان کے طلباء تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں خدارا بلوچ طلباء کے ساتھ ہونے والے ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف یک مُشت ہوکر تمام آپسی اختلافات بھلا کر اتحاد و اتفاق کا دامن ہاتھ میں لیں بلوچ طلباء کے ساتھ ہونے والے بربریت کے خلاف ایک منظم تحریک کی شکل میں تمام بلوچ طلباء کیلئے آواز اٹھا کر اپنا بھرپور کردار ادا کریں.
طلباء کا مزید کہنا تھا کہ ہم آج اس پریس کانفرنس کے توسط سے حکومتِ وقت متعلقہ حکام اور ملک کے عدلیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ فیروز، حفیظ بلوچ، سہیل، اور فصیح بلوچ سمیت تمام بلوچ طلباء کو بحفاظت بازیاب کیا جائے اور بلوچ طلباء کی پروفائلنگ و ہراسمنٹ کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات اٹھائے جائیں بصورت دیگر بلوچ طلباء اپنی تمام تر قوت آزما کر بھرپور احتجاج کا حق رکھتے ہیں-