زبیر بلوچ – ایک سماجی ورکر
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
زبیر بلوچ کا تعلق کراچی کے پسماندہ ترین علاقے ماری پور ٹیکری ولیج سے ہے. ماری پور ٹیکری ولیج کراچی کے قدیم ترین آبادیوں میں شمار ہوتا ہے. مقامی ذرائع بتاتے ہیں کہ جب برصغیر پر انگریزوں کی حکومت تھی تو اس وقت یہ علاقہ آباد تھا. جب 1947 کو برصغیر تقسیم کیا گیا تو اس علاقے کو پاکستان میں شامل کیا گیا. 75 سالوں سے یہ علاقہ پاکستان کی حدود میں شامل ہے لیکن اس علاقے نے ترقی کا نام و نشان نہیں دیکھا. ترقی تو دور کی بات اس علاقے میں صرف دو سرکاری اسکول پرائمری سطح پر قائم کئے گئے جن میں سے ایک سرکاری اسکول پر لینڈ مافیا کا قبضہ ہے. باقی سیکنڈری اسکولز کے لئے تین کلو میٹر دور نیول کالونی جانا پڑتا ہے، اس وجہ سے بہت سارے والدین اپنے لڑکیوں کو حصول تعلیم کے لئے اجازت نہیں دیتے تھے جس کی وجہ سے لڑکیاں پرائمری لیول پر ہی پڑھائی ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے.
یہ تو صرف شعبہ تعلیم کی پسماندگی کی بات ہے. دیگر شعبوں جیسے صحت، پانی، بے روزگاری، ہر شعبے میں یہ علاقہ پسماندہ ہے.
کہتے ہیں کہ جب کسی معاشرے میں خدمت کے جذبات سے سرشار نوجوان جنم لیتے ہیں تو وہاں پسماندگی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتی ہے. یہ زبیر اور اسکے دوست اور ساتھیوں کی ہمت ہے کہ اس نے ٹیکری ایجوکیشن سینٹر کی شکل میں اپنے مظلوم قوم کو ایک قیمتی تحفہ دیا.
ٹیکری ایجوکیشن سینٹر کی بنیاد رکھنے کا ایک اہم کردار زبیر بلوچ ہے جس نے گھموار اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس ادارے کی بنیاد رکھی اور 2013 سے آج تک جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں مخلصی سے ادا کی. آج زبیر جان کی مرہون منت ہے کہ ٹیکری کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تعلیم کی جانب راغب ہوئی.
نہ صرف ٹیکری ایجوکیشن سینٹر بلکہ دیگر شعبوں میں زبیر جان نے اپنی زمہ داریاں مخلصی سے انجام دی.
اپنے علاقے کی پسماندگی کے لئے پیپلزپارٹی کو جوائن کیا، متحدہ میں شمولیت اختیار کی اور ہر فورم پر اپنے علاقے کے مسائل کو اجاگر کیا. جب ینگ اتحاد سوشل ویلفیئر کا قیام عمل میں لایا گیا تو زبیر بلوچ کو اسکی مخلصی اور کام کے لگن کی وجہ سے جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا جبکہ دوسرے جنرل باڈی اجلاس میں بھی زبیر بلوچ بھاری اکثریت سے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر منتخب ہوئے.
جنرل سیکرٹری منتخب ہونے کے بعد زبیر بلوچ نے اپنی کابینہ کے ساتھ مل کر اسکول کی مقبوضہ زمین پر لینڈ مافیا کے خلاف جدوجہد شروع کی.
کیماڑی ٹاون آفس،سیکرٹری ایجوکیشن سندھ، ماری پور پولیس اسٹیشن، اے سی ماری پور، ڈی آئی جی کیماڑی، ڈی سی کیماڑی، ممبر قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی اور دیگر کو اسکول کی زمین پر قبضے کے خلاف درخواستیں لکھیں. اپریل کے مہینے میں عوام کو منظم کیا اور کراچی پریس کلب پر ایک تاریخی مظاہرہ کیا. زبیر بلوچ اور ساتھیوں کی جدوجہد نے انتظامیہ کو مجبور کیا کہ انہوں نے قبضہ مافیا سے زمین پر قبضہ چھڑوایا.
لیکن جدوجہد سے خوفزدہ طاقتوں نے زبیر بلوچ کو 27 مئی کی شب رات گیارہ بجے دوران ڈیوٹی جبری لاپتہ کرکے اپنے ساتھ لے گئے جو تاحال لاپتہ ہے.
کیا زبیر جان کا یہ قصور ہے کہ وہ اپنے پسماندہ قوم کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے تھے؟ کیا اس کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنے قوم کے بچے اور بچیوں کو تعلیم کی زیور سے آراستہ کرنا چاہتے تھے؟ اگر زبیر جان کسی اور ملک میں پیدا ہوتے تو اسے نوبل پرائز کا حق دار قرار دیا جاتا لیکن یہاں ترقی یافتہ معاشرے کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو زندانوں میں تشدد کی صورت میں انعام دی جاتی ہے.
زبیر اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا اور تین بچوں کا باپ ہے جس نے بچپن سے ہی علاقے کے فلاح و بہبود کے لئے جدوجہد کی.
ماری پور خاص کر ٹیکری کے عوام کو چاہیے کہ وہ زبیر کی بازیابی کے لئے احتجاج کریں کیونکہ زبیر کی بازیابی نہ صرف اس کے گھر والوں کے لئے ضروری ہے بلکہ زبیر کی بازیابی معاشرے کی ترقی کے لئے ضروری ہے اور آپکے بچوں کے مستقبل کے لیے جدوجہد کرنے والے زبیر کی بازیابی سے ہی آپکے بچوں کا مستقبل وابسطہ ہے.
زبیر کا انتظار نہ صرف عمیر، ماہ زیب اور ماہ دیم کررہے ہیں بلکہ اسکے شاگرد جن کی عمریں پانچ سے دس سال تک کی ہے سب اس کا انتظار کررہے ہیں.
ٹیکری ولیج کی پسماندگی اور ترقی کا خواب بھی زبیر کا انتظار کررہا ہے.
ٹیکری کے عوام یہ جان لیں کہ زبیر جان کی جبری گمشدگی سے نہ صرف زبیر لاپتہ ہوا ہے بلکہ آپکے بچوں کا مستقبل بھی لاپتہ ہوا ہے. آپ زبیر اور علی کے لیے نہیں بلکہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے زبیر جان کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں