ریاست ڈائن بن چکی ہے جو ہمارے بچوں کو نگل رہی ہے

453

ریاست شہریوں کے لئے  ماں کا درجہ رکھتی ہے لیکن بلوچستان کے نوجوان شہریوں کے لئے ریاست ڈائن بن چکی ہے جو ہر کسی کونگل رہی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار گذشتہ دنوں کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ طالب علم کے لواحقین نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتےہوئے کی اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء بھی موجود تھے۔

جبری گمشدگی کے شکار طالبعلم شہزاد بلوچ کے لواحقین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں آئے روز بلوچستان کے نوجوانوں طالب علموں، ڈگر یہولڈروں کو ریاستی اداروں کی جانب سے ماورائے عدالت  لاپتہ کی جاتی ہے ۔ جو قانون آئین کے منافی عمل ہے اب جبکہ وفا ق میں پیڈی ایم کی نئی حکومت بنی ہے ۔ موجودہ دور حکومت بھی بلوچستان کی نوجوانوں کے لاپتہ کرنے کا سلسلہ ختم ہونے کے بجائے مزیدشدت کے ساتھ اضافہ ہو اہے اس اہم مسئلے پر حکومت کا کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی ہے ۔ جو مایوس کن ہے جسکی وجہسے بلوچستان کے عوام مزید ز یادہ خوف و ہراس کا شکار ہیں اور عدم تحفظ کی کیفیت میں اضافہ ہوا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ نوجوانوں کے والدین اور لواحقین کے گھروں میں ماتم ہے لیکن حکومت اور ریاست ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔

لواحقین نے کہا کہ شہزاد بلوچ ولد خدابخش سکنہ قلات گیاوان کا رہائشی ہے جو پولی ٹیکینکل کالج سے حال میں فارغ شد ہ ڈگریہولڈر طالب علم تھے۔ شہزاد بلوچ  4 جون 2022 کو اپنے گھر قلات سے اپنے ضروری کاغذات کالج سے نکالنے کے سلسلے میں کوئٹہآئے تھے۔ اس دوران 4 جون 2022 کو کوئٹہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ عتیق  بلوچ ولد بیبرگ بلوچ سکنہ لجے خاران، احمد بلوچ ولدبہادر خان سکنہ نال خضدار سمیت پولی ٹیکینکل کالج موسی ٰ کالونی کے قریب سے لاپتہ ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہزاد بلوچ او ر اسکے دوستوں کے کافی تلاش کے بعد ہم نے اس علاقہ کے مختلف تھانوں میں گمشدگی کے بارےمیں ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست تھانے کے ایس ایچ او صاحبان کو دی لیکن آج تک متعلقہ تھانوں میں ایف آئی آر درج کر نےمیں ایس ایچ او صاحبان ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے اور تاحال ایف آئی آر درج نہیں ہوئی جو لواحقین کے ساتھ ظلم نا انصافی کےمترادف عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ تھانہ اور عدالت عام شہری کوتحفظ دینے کے لئے بنے ہیں۔ قانونی اداروں کی عدم دلچسپی ہم پر واضح کرچکی ہےکہ ہمارے بھائی اور اسکے دوستوں کو سیکورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی طرف لاپتہ کیا گیا ہے جبکہ ماضی میں بلوچستانسے جتنے بھی نوجوان لاپتہ ہوئے  لاپتہ افراد کی بازیابی سیکورٹی اداروں سے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ واضح کر نا چاہتے ہیں کہ شہزاد بلوچ اگر فوری بازیاب  نہیں کی جاتی ہے تو اس دوران شہزاد اور اسکےوالدین کو خدانخواستہ کچھ بھی جسمانی طور پر تقصان ہو جاتا ہے تمام تر ذمہ داری ریاست اور موجود ہ حکمرانوں پر عائد ہوتیہے کیونکہ اس کے والدین پہلے ہی بیماریوں مبتلاء ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ قانونی تقاضہ یہ ہے کہ اگر کسی نے کتنا بھی بڑا جرم کیا ہو ریاست یا ریاستی اداروں پولیس کو مطلوب ہو، گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ جرم ثابت ہونے پر اگر عدالت جتنا بھی سزا مقرر کرے اس میں کوئی حرج نہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں قانون کی دھجیاں اڑا کر اپنی من مانی غیرقانونی ہتکنڈے استعمال کرکے کی جاتی ہے ۔

لواحقین نے کہا کہ ریاست شہریوں کے لئے  ماں کا درجہ رکھتی ہے لیکن بلوچستان کے نوجوان شہریوں کے لئے ریاست ڈائن بن چکیہے ۔ ہر کسی کو نگل رہی ہے ۔ اسکے علاوہ ریاست حکومت کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہر کسی کو تحفظ فراہم کرے چو نکہوہ اس کے لئے ٹیکس ادا کراتا ہے۔

صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ آپ ہماری آواز کو انسانی حقوق کے تمام تنظیموں، سول سوسائٹی اور دیگر انساندوست نتظیموں تک پہنچائیں ۔اس کے ساتھ سیکورٹی اداروں مختلف ایجنسیوں اور عدالت حالیہ پولیس سب سے درد مندانہ اپیل کرتےہیں کہ شہزاد بلوچ کو بازیاب کرکے عدالت حالیہ میں پیش کریں تاکہ شہزاد کے والدین لواحقین سکھ کاسانس لے سکیں بصورت دیگرشہزاد بلوچ کی بازیابی کے لئے ہر قسم کے قانونی چارہ جوہئ اور احتجاج کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔