راشد حسین کے پاکستان حوالگی کو تین سال مکمل، کوئٹہ میں مظاہرہ

298

لاپتہ بلوچ کارکن راشد حسین کی پاکستان حوالگی و جبری گمشدگی کو تین سال مکمل ہونے پر کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا-مظاہرہ میں طلباء تنظیموں کے ارکان سیاسی کارکنان سمیت لاپتہ افراد کے لواحقین شریک ہوئے-

مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینرز اٹھائے ہوئے تھیں جن پر راشد حسین اور دیگر لاپتہ کی بازیابی کے مطالبات درج تھے۔

راشد حسین کو 26 دسمبر 2018 کو متحدہ عرب امارات کے شارجہ سے وہاں کے خفیہ اداروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا جہاں بعد میں 22 جون 2019 کو بلوچ کارکن کو پاکستان لایا گیا ہے- راشد حسین کے لواحقین کے مطابق راشد کو اماراتی حکام نے پاکستان کے کہنے پر غیرقانونی طریقہ سے پاکستان منتقل کردیا ہے جبکہ راشد حسین کے جان کو پاکستان میں خطرہ ہے اور وہ جلاء وطنی میں زندگی گزار رہا تھا-

یاد رہے راشد حسین کی پاکستان منتقلی کی تصدیق کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کراچی کے انچارج عبداللہ شیخ نے 3 جولائی کو ٹی وی انٹریوں کے ذریعے کیا تھا- عبداللہ شیخ کے مطابق راشد حسین کو انٹرپول کے زریعے پاکستان لایا گیا ہے-

مظاہرین سے گفتگو کرتے ہوئے راشد حسین کے والدہ کا کہنا تھا کہ امارات میں جبری گمشدگی کے بعد سے انکا بیٹا منظر عام پر نہیں آسکا ہے راشد کی والدہ کے مطابق بیٹے کو بلوچستان میں جاری مظالم پر لب کشائی پر لاپتہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر بیٹے پر کسی قسم کی کوئی الزام عائد ہوتی ہے تو اسے عدالتوں میں پیش کرکے ٹرائل کا موقع دیا جائے-

راشد حسین کے والدہ کا مزید کہنا تھا کہ بیٹے کی بازیابی کے لئے کمیشنز سمیت عدالتوں میں کیسز فائل کئے ہیں لیکن کوئی امید بھر نہیں آرہی، سردار اختر جان مینگل اور مریم نواز جب اپوزیشن میں تھے تو مجھ سے بیٹے کی بازیابی کا وعدہ کیا تھا آج جب انکی حکومت ہے تو لاپتہ افراد پر لب کشائی سے قاصر ہیں۔ راشد حسین کی والدہ نے حکومت اور عوامی نمائندوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بیٹے کو منظر عام پر لانے اور انصاف فراہم کرنے میں انکی مدد کریں-

مظاہرین سے گفتگو میں مستونگ کے رہائشی لاپتہ سعید احمد کی والدہ کا کہنا تھا کہ بیٹے کو تاحال منظر عام نہیں لایا جارہا بیٹے کی گمشدگی سے اذیت کا شکار ہیں بلوچستان کے عوامی نمائندے ہم سے کئے گئے اپنے وعدے پورے کرے اور ہمارے لاپتہ پیاروں کو بازیاب کرائے-

مظاہرین سے گفتگو کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے کیسز میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے لوگوں کو بازیاب کرنے کے بجائے جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے جب وزیر اعظم یہاں آئے تو کہہ رہے تھے کہ وہ طاقتور حلقوں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے بات کرینگے پتا نہیں ملک کے وزیر اعظم سے زیادہ کونسا ادارہ زیادہ طاقتور ہے-

نصر اللہ بلوچ نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین آئے روز اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں تاکہ مقتدرہ حلقوں تک اپنی فریاد پہنچا سکیں لیکن یہاں ان لواحقین کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں-

مظاہرین نے بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے احتجاج کو اختتام کیا اور مطالبہ کیا کہ اگر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ نا روکا جاتا ہے تو احتجاجی سلسلوں میں مزید شدت لائی جائیگی-