اتوار کے روز سندھ کے دارالحکومت کراچی اور بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں کراچی یونیورسٹی کے دو بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی گئی اور مظاہرہ کیے گئے –
کراچی پریس کلب کی سامنے احتجاجی دھرنا تیسرے روز احتجاجی مظاہرے میں تبدیل ہوگیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں خواتین اور بچوں نے بھی شرکت کی۔
مظاہرین نے کراچی ہریس کلب سے سندھ اسمبلی تک مارچ کرنے کی کوشیش کی تاہم سندھ پولیس نے مظاہرین کو سندھ اسمبلی کے قریب فوارہ چوک کے مقام روک دیا، جہاں مظاہرین نے دھرنا دے دیا۔
بالآخر مظاہرین تمام رکاوٹوں کو عبور کر کے سندھ اسمبلی کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ جہاں سندھ حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف سخت نعرے بازی کی گئی ۔
احتجاجی مظاہرہ لاپتہ طلبا کے لواحقین کی اپیل پر کیا گیا۔ مظاہرے کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ترقی پسند طلبا تنظیموں کی حمایت حاصل تھی۔
مظاہرین نے کراچی یونیورسٹی سے لاپتہ ہونے والے دونوں طلباء کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے حکومتی اداروں کی جانب سے بلوچ طلبا کے اغواء کے خلاف سخت نعرے بازی کی۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ 7 جون 2022 کو بلوچستان کے ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے دو بلوچ طلباء کو کراچی سے لاپتہ کیا گیا۔ کراچی کے علاقے مسکن چورنگی میں واقعہ گھر پر چھاپہ مارکر دودا بلوچ ولد الہی بخش اور اس کے ڈیپارٹمنٹ فیلو غمشاد بلوچ ولد غنی بلوچ کو خفیہ اداروں اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے جبری طور لاپتہ کردیا ہے۔ دودا بلوچ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی میں تیسرے سیمسٹر ، غمشاد بلوچ پانچویں سیمسٹر کے طالب علم ہیں۔
دودا بلوچ کا تعلق ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے ہے جبکہ غمشاد بلوچ کا ضلع کیچ کے علاقے مند سے ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ سات جنوری 2022 سے دونوں بلوچ طلبا تاحال سیکیورٹی ادارے کے پاس ہیں۔انہوں نے حساس اداروں پر یہ الزام لگایا ہیں کہ وہ کراچی میں بلوچوں کو ماورائے قانون اٹھا رہے ہیں اور سرکاری ادارے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اور کراچی میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو نشانہ بنارہے ہیں۔
مظاہرین نے کراچی سے بلوچ طلبا کو اغوا کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرنا روز کا معمول بن چکا ہے۔مظاہرین نے سندھ حکومت کو بلوچ دشمن قراردیتے ہوئے کہاکہ بلوچ طلباء کے اغواء میں سندھ حکومت برابر کے شریک ہیں۔
مقررین نے کہا کہ زرداری حکومت بلوچ طلبا کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کرے۔
مظاہرین نے سیکیورٹی ادارے کی جانب سے جبری گمشدگیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے کہا کہ اقتدار پرست بلوچ جماعتوں کو کرسی عزیز ہے مگر لاپتہ افراد نہیں ہیں۔ اور ان کی خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ان اغواء کاری میں سیکیورٹی اداروں کے ساتھ ملوث ہیں۔
مقررین نے برسراقتدار جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل سے مطالبہ کیا کہ وہ وزیراعظم شہبازشریف اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے دودا بلوچ اور غمشاد بلوچ کی بازیابی کے حوالے سے بات چیت کریں اور دونوں کی بازیابی کو یقینی بنائیں۔
واضع رہے کہ آج لواحقین کی اپیل پر بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں بھی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے لاپتہ طلبا کی جبری گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوءے ان کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
آخری اطلاع تک سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا جاری ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ لاپتہ بلوچ طلبا کی بازیابی تک سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا جاری رہے گا –