جبری گمشدگیاں وہ تشدد ہے جس سے نہ صرف ایک شخص بلکہ اس کا پورہ خاندان متاثر ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ پاکستان سے جوابطلبی کرے کہ کن قوانین کے تحت لوگوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار گذشتہ روز کراچی میں “تشدد کے متاثرین کے عالمیدن” پر منعقد ہونے والی مظاہرے میں سمی دین بلوچ نے کیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کیجانب سے منعقدہ مظاہرے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لاپتہ ڈاکٹر دین محمدبلوچ کی بیٹی سمی بلوچ نے کہا کہ افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم ایک ایسے ریاست میں رہ رہے ہیں جہاں پر شاید انصاف کیتوقع نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ سمجھنا کہ ہم اس ملک کے برابر کے شہری ہیں تو میں سمجھتی ہو وہ غلط ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں خود کو بار بار اس ریاست کو باور کرانا پڑتا ہے کہ ہم آپ کے شہری ہے۔ ہمارے حقوق بھی دیگر لوگوں کی طرحبرابر ہے، ہمارے بچوں کو بھی پڑھنے کا حق ہے، ہمارے لوگ بھی اگر مجرم ہوتے ہیں تو دیگر کی طرح انہیں عدالتوں میں پیش کرکےسزا دیں لیکن اس طرح آپ کسی ایک شخص کو جبری طور پر لاپتہ نہیں کررہے بلکہ اس کے پورے خاندان کو ایک اذیت میں مبتلاکررہے ہیں۔
سمی دین بلوچ نے کہا کہ آج تشدد سے متاثرہ افراد سے یکجہتی کا دن ہے۔ میں سمجھی ہوں کہ یو این یا دیگر نے یہ ایام جن میںانسانی حقوق کا دن، تشدد سے روک تھام کا دن صرف برائے نام ہے۔ ان تنظیموں نے کریڈٹ لینے کیلئے یہ دن بنائے ہیں کیونکہ اگرواقعی اس دن کے متعلق یہ ادارے سنجیدہ ہوتے، کہ اگر کوئی تشدد کا شکار ہے تو آئے اسکی آواز سنتے ہیں۔ 126 ممالک نے اسپٹیشن پر دستخط کیے ہیں جس میں انہوں نے تشدد کی ممانت کی ہے۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ تشدد صرف یہ نہیں کہ کسی شخص کو آپ پابند سلاسل رکھتے ہیں یا کسی شخص کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایاجاتا ہے یا کسی کم عمر بچے سے کام لیا جاتا ہے۔ ہر وہ عمل تشدد ہے جو آپ کو ذہنی و جسمانی حوالے سے نقصان دیتی ہے۔جسمانی تشدد سے آپ چند دن متاثر ہونے کے بعد نارمل زندگی گذار سکتے ہیں لیکن جس طریقے سے ہمیں ذہنی حوالے سے مفلوجبنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس طرح ہمارے پیاروں کو سالوں سال زندانوں میں بند کرکے ہمیں جو زندگی گذارنے پر مجبور کیگئی ہے۔
“جس طرح دس کے زائد عرصے سے ڈاکٹر دین محمد یا دیگر افراد کو لاپتہ رکھا گیا ہے پتہ ان دس سالوں میں انہیں کھانا نصیب ہوتاہوگا کہ نہیں، انہیں سردی گرمی سے بچانے کیلئے کچھ میسر ہوگا کہ نہیں، پتہ نہیں ان کو سونے دیا جاتا ہوگا کہ نہیں بلکہ جوسہولیات ایک قیدی کو میسر ہے وہ بھی انہیں نہیں دیا جاتا ہے۔ لیکن ان کی غیر موجودگی میں ان کے لواحقین، ان کے بچے، ان کیبیوی، ان کی مائیں جو زندگی گذاری ہے وہ ہر لمحہ تشدد میں گذرتی ہے۔
آپ کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، آپ کی تمام خوشیاں، آپ کی پوری زندگی ایک جبر، ایک بوجھ بناکر رکھ دیا جاتا ہے۔ آپ اس زندگی کوجینا ہی نہیں چاہتے ہیں۔“
سمی دین بلوچ نے کہا کہ میں تمام انسانی حقوق کے اداروں اور خاص طور پر اقوام متحدہ سے دست بستہ اپیل کرتی ہوں کہ جبریگمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھائے، لاپتہ افراد کے لواحقین ہی سب سے زیادہ تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ اگر یہ دن واقعی برائے نام نہیںہے تو آپ اس کے خلاف اقدام اٹھائے، پاکستان نے اس کنویشن پر دستخط کیے ہیں اسکے لیے پاکستان کو جواب دینا ہوگا کہ کسقانون کے تحت لوگوں لاپتہ کیا جاتا ہے۔