تصویر کہانی
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
عمومی طور پر ہم زیست اس التفات کے یقین سے نتھی کرکے گھومتے پھرتے ہیں کہ ” میں تو ٹھیک ہو” یہ طہارت کرتے ہیں ” سب اچھا ہے” لیکن آخرکار سچائی تفکر سے ٹکرا کر بھید کھول دیتی ہے، اسکے بعد اساس کی ماہیت سے چھٹکارہ ممکن نہیں، پھر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کچھ بھی جواب نہیں۔ سب کچھ ایک سوال ہے۔ ایک طوفان ہے۔ جس نے ہمیں آن گھیرا ہے۔
یہ طوفان کوئی ایسی چیز نہیں، جو دور سے اڑ کر ہمیں آن گھیرا ہو، ایسی چیز نہیں جس کا آپ سے عَلق و انس نہیں۔ یہ طوفان تم ہوتے ہو۔ اس سے فرار نہیں، رَم نہیں، گریز نہیں۔ آپ بس اتنا ہی کرسکتے ہیں کہ اس تلاطم کے اندر قدم رکھیں، اور آپ ہی آفت پرکالہ بن جائیں، آنکھیں موند لیں، خود پاٹ لیں اور اپنے کانوں کو بند کرلیں تاکہ ریت اندر نہ جائے، اور قدم بہ قدم اس میں سے گزریں۔
وہاں چشمہ خاوری نہیں، خورشید بے نور ہے، چندیا نہیں، کوئی سمت نہیں، کوئی جہت نہیں، فرصت نہیں، مہلت نہیں، وقت کا کوئی احساس نہیں۔ محض ریت، جو آسمان کی طرف گھوم رہی ہے، جیسے نچوڑی ہوئی ہڈیاں۔
آپ کے پاس اور کوئی راستہ نہیں سوائے اس پرتشدد علامتی طوفان سے گزرنے کے۔ اس قیاس و تقدمے میں نا پڑیں کہ یہ علامتی ہے، علامتی ہونے کے باوصف، یہ ہزاروں استروں کی طرح آپ کے جسم و روح پر گہرے چرکے ڈالے گا، گوشت نوچ لیگا۔
وہاں سب خون بہائیں گے اور تم بھی خون بہاؤ گے۔ گرم لہو، لال خون، پھوار سا پھوٹتا رکت۔ آپ ہر وقت اپنے روح کو اس خون سے رنگین دیکھو گے، اپنے اور دوسروں کے آنکھوں میں چڑھتے اور اترتے دیکھو گے۔ تمہیں صرف لال دِکھے گا۔
لیکن جب لطمہ موج بیٹھ جائیگی، تھپیڑے کنارہ ہونگے، طوفان ختم ہوجائیگی، اس تموج کے بعد آپ کو یاد نہیں ہوگا کہ آپ اس سے کیسے گزرے، آپ کیسے زندہ رہنے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن جب آپ طوفان سے باہر نکلیں گے تو آپ واپس پھر وہ شخص نہیں رہیں گے، جو طوفان سے پہلے تھے۔
سب آپ میں سٹرک کنارے، ننگے پیر بیٹھی، دکھیاری، بے آرام و بے بس، طوفان کی ماری دیکھیں گے، اس بات سے بے خبر تم اپنے آپ میں طوفان ہوگئی۔ “تخمینہ حوادث و طوفان کے ساتھ ساتھ تم بطنِ صدف میں وزن گہر کررہے ہو”
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں