کراچی یونیورسٹی کے دو بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرین نے سندھ پولیس کی جانب سے لاپتہ طلباء کی بازیابی کی یقین دہانی کے بعد گذشتہ رات سندھ اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنے کو عارضی طور پر ختم کردیا۔
مظاہرین اور سندھ پولیس کے درمیان ایک تحریری معاہدہ کیا گیا۔ جس میں آج بروز پیر شام چار بجے مظاہرین کا ایک چار رکنی وفد سی ٹی ڈی کے حکام سے بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی اور ان کی بازیابی کے حوالے سے بات چیت کریں گی۔
کمیٹی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی ڈپٹی جنرل سیکریٹری سمی دین محمد اور لواحقین میں مہناز بلوچ اور شرین بلوچ شامل ہونگے۔
واضع رہے کہ اتوار کے روز سینکڑوں کی تعداد میں مظاہرین نے کراچی پریس کلب سے سندھ اسمبلی تک مارچ کرنے کی کوشش کی تاہم سندھ پولیس نے مظاہرین کو سندھ اسمبلی کے قریب فوارہ چوک کے مقام روک دیا۔
جہاں مظاہرین نے دھرنا دے دیا بعدازاں مظاہرین نے تمام رکاوٹوں کو عبور کر کے سندھ اسمبلی کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں سندھ حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف سخت نعرے بازی کی۔
احتجاجی مظاہرہ لاپتہ طلبا کے لواحقین کی اپیل پر کیا گیا۔ مظاہرے کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ترقی پسند طلباء تنظیموں کی حمایت حاصل تھی۔
مظاہرین نے کراچی یونیورسٹی سے لاپتہ ہونے والےدونوں طلباء کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے حکومتی اداروں کی جانب سے بلوچ طلباء کے اغواء کے خلاف سخت نعرے بازی کی۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ 7 جون 2022 کو بلوچستان کے ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے دو بلوچ طلباء کو کراچی سے لاپتہ کیا گیا۔
خیال رہے کہ کراچی کے علاقے مسکن چورنگی میں واقعہ گھر پر چھاپہ مارکر دودا بلوچ ولد الہی بخش اور اس کے ڈیپارٹمنٹ فیلو غمشاد بلوچ ولد غنی بلوچ کو خفیہ اداروں اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے جبری طور لاپتہ کردیا ہے۔
دودا بلوچ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی میں تیسرے سیمسٹر اور غمشاد بلوچ پانچویں سیمسٹر کے طالب علم ہیں، دودا بلوچ کا تعلق ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے ہے جبکہ غمشاد بلوچ کا ضلع کیچ کے علاقے مند سے ہے۔