بابائے بلوچ قوم نواب خیر بخش مری
تحریر: جی آر مری بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب بھی دنیا کے مختلف رہنماؤں کے بارے میں پڑھتا ہوں تب مجھے ہمشیہ ایک ہی بات ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ مُخلص رہنماء ہمیشہ کے لئے امر ہو جاتے ہیں یعنی اُن کا نام اور جدوجہد ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور جب یہ سوچتا ہوں تب میرے ذہن میں ایک اور سوال آتا ہے وہ یہ کہ آخر ان عظیم ہستیوں کے بارے میں ان کی سیاسی، نظریاتی اور قومی جدوجہد اور قربانیوں کے بارے میں جو لوگ لکھتے ہیں وہ بھی عظیم ہستیاں ہی ہوتی ہیں جو اپنے تاریخی رہنماؤں کو ہمیشہ اپنے سنہرے الفاظوں میں یاد رکھتے ہیں۔
البتہ میں ایک ادنیٰ سا بطورِ سیاسی ورکر اپنے ایک قومی رہنماء بابائے بلوچ قوم نواب خیر بخش مری کے بارے چند ٹوٹی پھوٹی سطریں لکھ رہا ہوں۔ نواب مری کی سیاسی، نظریاتی اور قومی جدوجہد کو ایک ہی تحریر میں لکھنا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ نواب مری کی قومی جدوجہد پے کتابیں لکھی جائیں تب بھی کم ہی ہونگے۔ نواب مری ایک مظلوم اور محکوم بلوچ قوم کے بابا تھے۔ آپ ایک فرد نہیں بلکہ ایک سوچ، فکر اور نظریہ کا نام ہیں بابا ایک فلسفہ کا نام ہے، بابا روشن راہ کا نام ہے، بابا ایک نئی صبح کا نام ہے، بابا اندھیری رات میں ایک روشن چراغ کا نام ہے۔ بابا قوم پرستی کا نام ہے۔ بابا نیشنلزم ہیں اور وہ نیشنلزم بلوچ قوم کا نیشنلزم ہے بابا ایک نظریہ کا نام ہے اور وہ نظریہ بلوچ قوم کا نظریہ ہے۔ بابا بطور ایک لیڈر، رہنماء اور سردار نہیں بلکہ بلوچ قوم کے لئے آپ ایک پیغمبر کی مانند تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔ لفظِ بابا جس کے مُختلف اور عام معنی ہیں جیسے کہ اول انسان، راج کرنے والا، رہنماء و سرپرست یا پھر والد اور چچا وغیرہ کو بھی بابا کہا جاتا ہے۔ مگر آپ کو بابا بزرگ رہنماء ہونے کے ناطے بطورِ لقب دیا گیا ہے جیسے کہ “بابائے قوم” آپ بلوچ قوم کے بابا ہیں یعنی آپ ہم سب کے بابا ہیں۔ آپ صرف بلوچستان کے بابا نہیں بلکہ آپ دنیا کہ ہر کونے میں بسنے والے بلوچوں کے بابا ہیں، پیغمبر اور مسیعا ہیں۔ لفظِ بابا کو کوئی عام انسان اپنے نام کے ساتھ جوڑے یا خود کو بابا کہے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ لفظِ بابا کے ساتھ پوری طرح زیادتی ہو رہی جو ایک غیر اخلاقی اور غیر سیاسی عمل ہے۔ اور جو عام انسان خود کو نظریاتی کہے تب بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ لفظِ نظریہ کے ساتھ زیادتی کرنے کے مترادف ہے۔ بابا زندہ ہے کیونکہ بابا ایک فکر، ایک فلسفہ کا نام ہے، بابا بلوچ قوم اور دنیا کے مظلوم اور محکوم قوموں کا لیڈر ہے، بابا غلام قوموں کی آزادی کا نشان ہے، بابا جیسے انقلابی لیڈر دنیا میں بہت کم پیدا ہونگے، بابا نے اپنی زندگی میں سکون نہیں دیکھا، ہر وقت مشکل گھڑی میں گزرے ، آپ نے پوری زندگی بلوچ قوم کی آزادی کے لیے جدوجہد کیا، بابا نے جلاوطنی، جیل قید ، اور پیران سالی زندگی میں مزاحمت کو نہیں چھوڑا۔ نواب مری 28 فروری 1929 کو نواب مہراللہ خان مری کے ہاں کوہستان مری کے مرکزی مقام کاہان میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام اپنے دادا خیر بخش کے نام کی نسبت پر خیربخش رکھا گیا۔ انقلابی کِردار ادا کرنے والا مارکسی فکر سے سرشار، گوریلا، بلوچستان کی آزادی، خوشحالی اور ترقی کے منصوبے دل اور دماغ میں سمائے نواب خیر بخش مری نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں کاہان کے ایک مقامی اسکول سے حاصل کیا اس کے بعد سینٹ فرانسز گرائمر اسکول کوئٹہ اور باقی تعلیم ایچی سن چیف کالج لاہور سے حاصل کی۔
اگر تاریخی پسِ منظر پے نظر دوڑائے جائے تب تاریخِ عالم اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ہر دور میں انسانی معاشرے میں چند ایسے اشخاص نے جنم لیا ہے جو روزِ مرہ کی عام راہوں، افکار، تصورات، منفی روایات، شخصیت پرستی، مفاد پرستی، انا پرستی اور ذاتی و نفسانی خواہشات سے بالاتر ہوکر فکر و عمل کی نئی راہیں متعارف کرا کر انسانی معاشرے کو اعلیٰ اقدار اور آدرشوں سے واقف کراتے ہوئے مظلوم طبقات اور حق و صداقت کی آواز بن جاتے ہیں۔
ہر دور میں ایسے لوگ موجود رہتے ہیں جو اپنے اردگرد کے حالات اور سماج کی موجودہ شکل کو قبول نہ کرتے ہوئے ایسے غلط اور فرسودہ نظام کو بدلنے کی جدوجہد میں ہر وقت مگن رہتے ہیں۔ وہ عام زندگی کی دھارے سے علیحدہ ہوکر کسی خواب کی تعبیر کے لئے اپنی زندگی کی ہر خوشی اور راحت قربان کر دیتے ہیں۔
تاریخی حقائق یہ بھی بتاتے ہیں کہ انقلابی اجتماعی قیادت میں شعور کی اعلیٰ انفرادی صلاحیتوں کی تفریق بھی نمایاں رہی ہے ، جو تاریخ میں فرد کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ اگر روس میں لینن، چین میں ماؤزے تنگ ، ویت نام میں ہوچی منہ اور کیوبا میں فیڈل کا سترو اور چے گویرا نہ ہوتے تو شاید وہاں انقلاب اور آزادی کی تحریکات کو وہ کامیابی نصیب نہ ہوسکتی جو وہاں کی تحریکوں نے حاصل کی، تاریخ میں فرد کا یہی کِردار بلوچ قومی تحریک میں انقلابی نظریہ دان بابا خیر بخش مری کا بھی ہے، جو اپنے انقلابی فکر و عمل کے باعث ایک کرشمہ ساز کے طور پر سامنے آئے ۔ آپ نے نو آبادیاتی پاکستانی محکومی کی شکار بلوچ قوم کی مایوسی اور سیاسی طور زوال پذیر ردِ انقلابی کیفیت کو یکسر بدلتے ہوئے قابض قوتوں اور ان کی حواری قوتوں کی خوش گمانیوں اور لمبے چوڑے تجزیوں کو چکنا چور اور غلط ثابت کردیا ۔
بابا مری جیسے لوگ سادہ پن تو کبھی صوفی تو کبھی یہ لوگ سامراجیوں کی نظر میں باغی کہلائے جاتے ہیں۔ لیکن در حقیقت اس طرح کے لوگ انقلابی ہوتے ہیں اور یہ انقلابی لوگ اپنے خیالات کی وجہ سے لعن طعن اور دشمنوں کی تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ مگر ان لوگوں کے بغیر بھی معاشرے سیدھے راستے پر نہیں چل سکتے۔ میں تو کہتا ہوں ایسے لوگ معاشرے کے کریم ہوتے ہیں۔
در اصل بابا مری جیسے رہنماء سماجی زندگی کی راہیں شناس کرتے ہیں ان کی نظریات و افکار اور خیالات سے معاشرے کے لوگ رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ اور غلامانہ سماج کے اندر ایسے لوگوں کے نظریات خیالات و افکار سے وابسطہ لوگوں کو ہمیشہ صعوبتیں، اذیت، مظالم، جلاوطنی اور سزا کی زندگی بھگتنا پڑتا ہے لیکن ایک وقت آتا ہے جب لوگ ان کے نظریات، خیالات اور ان کے اقوال کو بطور دلیل اور جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ہر شخص ان سے ذاتی و فکری سلسلہ جوڑنے لگتا ہے اور تاریخ ایسے لوگوں کو رہبر و رہنماء، لیڈر اور قومی ہیرو کے نام سے یاد رکھتی ہے۔
آپ کے پیدائش کے دور میں پوری دنیا میں مارکسی فکر کا ہر طرف چرچا تھا وہ جوانی میں داخل ہوئے تب دوسری عالمی جنگ اختتام پزیر ہو رہی تھی سامراجی ممالک جنگ کی تباہ کاریوں سے کمزور ہوچکے تھے کامریڈ اسٹالن کی رہنمائی میں نوآبادیاں آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے سوشلسٹ نظام کی تعمیر کے پختہ ارادے دماغوں میں سما کر اپنے اپنے وطنوں اور قوموں کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کیلئے برسرپیکار تھے بابا مری بھی ان ہی خیالوں سے متاثر ہوئے اور جوان سالی میں ہی کارل مارکس اور لینن کے فکر کو سمجھنے میں مشغول ہوگئے۔
چند سالوں کے بعد ایشیاء افریقہ اور لاطینی امریکا میں مارکسی سوچ کے تحت ہونے والے جدوجہد میں بڑے بڑے نام سامنے آئے جن میں سے لاطینی امریکا کے عظیم مارکسی گوریلا چے گویرا کی جدوجہد نے بابا مری جیسے لیڈروں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ اور آخری دم تک چے گویرا کے راستے پر چلنے کی کوشش کرتے رہے اس بات کا اندازہ ہم اُن کے اس قول سے لگا سکتے ہیں کہ“انقلاب اور آزادی بغیر بندوق کے حاصل نہیں ہوتے“۔
بابا مری ہر محاذ پر لڑنا جانتے تھے اگر نرم مزاجی دیکھا جائے تو نواب مری سے زیادہ نرم مزاج اور خوش مزاج کوئی نہیں تھا جو خشک روٹی کھانے پر بھی تیار تھے سخت مزاجی کا یہ عالم تھا کہ کہتے تھے “کہ ہم سور کے ساتھ رہ سکتے ہیں لیکن پنجابی کے ساتھ نہیں“۔
نواب خیر بخش مری نے اپنی پوری زندگی بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد میں اور بلوچ قوم کو غلامی کے خلاف لڑنے کا درس دیتے ہوئے گزاری لیکن قبضہ گیر ریاست کے حکمرانوں کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
آپ ہر بات غور و فکر سے سنتے تھے مگر بہت کم ہی باتوں پر گفتگو کرتے تھے اگر کسی مسئلے پر بحث کی ضرورت محسوس کرتے تو اس پر کُھل کر انتہائی دیانتداری سے بات کرتے تھے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے وہ کبھی کسی مصنوعی خوشنودی یا ناراضی کا خیال نہیں رکھتے بلکہ انتہائی اعتماد سے سچ کہہ کر موضوع کے روشن و تاریک دونوں پہلوؤں پر یکساں مدلل انداز سے بات کرتے تھے۔
وسیع مطالعہ رکھنے کے باوجود آپ کے انداز بیان سے کبھی بھی یہ گمان نہیں ہوتا تھا کہ آپ اپنی علمی برتری پر نازان ہیں بلکہ اکثر موقعوں پر اپنی کم علمی کا زکر کیا کرتے تھے تاکہ سامنے بیٹھا ہوا شخص احساس کمتری کا شکار ہوئے بغیر مناسب طریقے سے اپنا نکتہ نظر بیان کر سکے۔ آپ ہمیشہ کہتے تھے “قوم پرستی نہ صرف ایک سیاسی پروگرام ہے بلکہ ایک نصب العین بھی ہے ایک ایسا نصب العین جس کی بنیاد واک و اختیار، اتحاد اور قومی شناخت کے مثبت جذبے پر رکھی جاتی ہے یہ تینوں عناصر قومی جہد آزادی کے حصول کے لیے افراد کو ذہنی طور پر تیار و آمادہ کرتے ہیں اس لئے حقیقی نیشنلزم کا راستہ انتہائی مشکل اور انتہائی کٹھن ہے اس راستے پر چلنے کے لئے انگاروں سے گزرنا پڑتا ہے”۔
بابا مری ایک ایسے انسان کی مانند تھے جو ایک طرف محبت کے جذبے سے سیراب ہو اور ساتھ ہی ساتھ ایک بہت بڑا جنگجو بھی ہو وہ نواب بھی تھے درویش اور ملنگ بھی تھے، ایک بہت بڑی طاقت کا مالک انسان لیکن پھر بھی نہایت معصوم اور نرم گو، سخت سے سخت بات بھی انتہائی درجے کے نرم لہجے میں کرتے تھے۔ وہ انسان دوست تھے لیکن دوسری جانب دشمنوں سے انتہائی سخت نفرت بھی کرتے تھے۔
آپ ایک ایسے انقلابی صوفی تھے جو ناکبھی رُکے نہ جُھکے نا ٹوٹے اور نا کبھی منزل سے پہلے ڈیرے ڈالے۔ ایسی مستقل مزاجی تو سخت پہاڑوں میں بھی نہیں موسموں کی نشیب و فراز اور وقت کی ظالم رفتار تو ان سنگلاخ پہاڑوں کو رگڑ رگڑ کر فضاؤں میں ریت کی صورت میں بکھیر دیتی ہے مگر نواب مری کو غلامی اور بُرے سے بُرے حالت کے نشیب و فراز کے آہنی ہاتھ بھی نہ ہلا سکے۔ نواب مری جو جدید بلوچ سیاسی تحریک کا خالق جو زندگی بھر ایک بات پر اٹل رہے کہ یہ جنگ ہماری آزادی کی جنگ ہے جس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں۔ نہ کسی سے کوئی ڈیل کی اور نہ تحریک کے نام پر بلوچستان کے وسائل کا سودا کیا نا کسی سامراجی قوت سے تحریک کی مدد کے نام پر سودے بازی کی۔
سلیگ ہیریسن نواب مری کے بارے میں کہتے ہیں کہ ” ان سے زیادہ شائستہ اور دانشور شخص میں نے بلوچوں میں نہیں دیکھا اپنے سیاسی نظریات کے آگے وہ اپنے نوابانہ عظمت کو ہمیشہ قربان کرتے آئے انہوں نے اپنی نوابی پس پشت ڈال کر سیاسی نظریہ کو اولیت دی”۔بابا مری بلوچ سیاست کا وہ تہہ دار کردار تھے کہ آخری لمحے تک اُن کو کوئی سمجھ نہ پایا وہ اکثر کسی سے گفتگو میں کوئی جملہ ادا کرتے جو چاہےایک سطر کیوں نہ ہوتا لیکن اس کے پسِ منظر میں ایک پیچیدہ سی کہانی گھومتی رہتی تھی۔
انہوں نے جدوجہد سے بھر پور زندگی گُزاری اور وہ انتہائی مشکل حالات میں بھی ایک روشن خیال آزاد و خود مختار بلوچ وطن سے دستبردار نہیں ہوئے۔ انگریز سرکار نے اس توقع کے ساتھ خیر بخش مری کی ایچی سن چیف کالج لاہور میں تعلیم و تربیت کی تاکہ وہ اپنے دادا خیر بخش اول کے برعکس ثابت ہونگے مگر اس نوجوان نے 1950 میں جب مری قبیلے کے سردار کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں قبیلے کا سربراہ جو سیاسی، سماجی، معاشی، اور آئینی سربراہ ہوتا ہے لیکن یہ انگریز سرکار کے بھی کام نہ آیا اور انگریز کے بعد ان کے جانشینوں کو بھی بابا مری مہنگا پڑ گیا۔
وہ اپنے دوستوں اور دشمنوں کے لئے ہمیشہ ایک معمہ رہے بعض افراد کے لیے وہ ایک مغرور بلوچ سردار تھے تو دوسری طرف ان کی پہچان ایک نرم مزاج شخص کی تھی وہ پاکستان میں وفاقی طرز حکومت کے حامی قوم پرستوں کی نماہندہ جماعت کے رہنماء بھی تھے اس کے باوجود آخر عمر تک غیر بلوچوں کے لئے ایک سخت گیر بلوچ رہنماءَ کے طور پر جانے جاتے رہے ۔ بابا مری کبھی بھی ایک علیحدہ بلوچ ریاست کے قیام کے خواب سے دست بردار نہیں ہوئے. بابا مری مضبوطی کے ساتھ ایک آزاد بلوچستان کے نظریے پر ثابت قدمی سے ڈٹا رہا۔ وہ اس قسم کے سیاسی رہنماؤں میں سے نہیں تھا، جن کی حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی بیرونی امداد کے ملنے یا نا ملنے سے مشروط ہو۔ وہ آخری دم تک مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے نظریات پر کاربند رہے۔
آخر عمر میں وہ خرابی صحت کی وجہ سے سیاسی معاملات سے دور تھے تاہم ان کے بیانات کو مقامی اور عالمی میڈیا میں نمایاں جگہ ملتی تھی۔
بی بی سی کے تجزیہ نگار وسعت اللہ خان نواب خیربخش مری کی شخصیت کا احاطہ ان الفاظ میں کرتے ہیں“اگر بلوچوں کی تاریخ، مزاحمت، قدامت پسندی یا قوم پرستی کو ایک ساتھ گوندا جائے تو اس مواد سے جو بھی شخصیت ابھرے گی وہ نواب خیر بخش مری کے سواء شاید کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ ذاتی المناکیاں سیاسی و قبائلی طوفانوں کے تھپیڑے یہ سب کچھ بھی نواب خیر بخش مری کا سرخ و سفید رنگ مانند نہیں کرسکے، نواب مری کا تعلق سوچنے سمجھنے اور اوڑھنے والی اس نسل سے ہے جنہوں نے دنیا کی ڈگر پر چلنے کی بجائے دنیا کو اپنی ڈگر پر چلانے کی کوشش کی ہے ایسے مس فٹ لوگوں میں سے کچھ کامیاب ہوتے ہیں تو ہوچی منہ، منڈیلا، کاسترو بن جاتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں نواب خیر بخش مری بن جاتے ہیں۔ لیکن اس بات کا فیصلہ آئندہ وقت ہی کرے گی کہ بلوچوں جیسی پیچیدہ سماج کو ایک راہ دکھانے اور اسی راہ پر کٹھ مرنے پر تیار کرنے والی خیر بخش مری کو تاریخ کامیاب رہنما مانتی ہے یا اس کے برعکس کوئی اور نام دیتی ہے۔ بہرحال نواب مری نے اپنی طویل جدوجہد میں بلوچوں کو منزل کی راہ دکھائی اور انہیں تحریک دی، یہ وہ عظیم کارنامہ ہے کہ اسے ایک کامیاب رہنماء ہی سرانجام دے سکتا ہے۔
اگر آج تقریباً ہر تعلیم یافتہ بلوچ اپنے قومی مزاحمت کے حوالے سے اجتماعی قومی مؤقف پر ذہنی و عملی طور پر کمربستہ ہے تو اس ذہنی آبیاری میں سب سے اہم کردار بابائے بلوچ قوم نواب خیربخش مری کا ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں