انتظار کے تیرہ سال اور سمی کی جدوجہد
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انسان کی زندگی کا سب سے اذیت ناک لمحہ کسی کے انتظار کا ہوتا ہے. اگر آپ عام انسان کی نفسیات کا بغور مشاہدہ کریں توانسان بے صبر واقع ہوا ہے. وہ ایک گھنٹہ، ایک دن، ایک مہینہ انتظار کرسکتا ہے لیکن بلوچستان کے فرزند اور دختر سالہا سال اپنےپیاروں کے انتظار میں زندگی گزار رہے ہیں۔
انتظار موت سے بھی بدتر عمل ہے. کہتے ہیں کہ کوئی انسان زندگی کی تمام تکالیف کو برداشت کرسکتا ہے لیکن انتظار کی تکلیفجسمانی نہیں بلکہ ذہنی ہوتی ہے اور جب انسان کا ذہن کسی تکلیف سے متاثر ہوتا ہے تو اسکی زندگی بہت مشکل ہوتی ہے.
بلوچستان کا ہر گھر انتظار کے کرب سے گزر رہا ہے. ذاکر مجید کی ماں تیرہ سالوں سے اپنے بیٹے کا انتظار کررہی ہے. کوئی دسدس سالوں سے تو کوئی پانچ پانچ سالوں سے اپنے پیاروں کے انتظار میں کرب سے گزر رہی ہے. ایک متاثرہ فرد ہی ان کے درد کوسمجھ سکتا ہے، ان کے ساتھ کھڑا ہوسکتا ہے.
بلوچستان کی بہادر بیٹی سمی دین محمد بلوچ بھی ان بیٹیوں میں شمار ہوتی ہے جن کو اپنے پیاروں کے انتظار میں تیرہ سال کاطویل عرصہ مکمل ہوچکا ہے. یہ تیرہ سال کیسے گزرے، کن ازیتوں سے زندگی گزری یہ سمی کے مضبوط ارادے اور والد کے انتظارمیں دید سے چھلکتے آنسو ہی اس بات کی گواہی دینگے کیونکہ یہ بات حقیقت ہے کہ کسی انسان کی جذبات کی نمائندگی تحریر وتقریر سے نہیں ہوسکتی کیونکہ انتظار کا غم انسان کو کھوکھلا کردیتا ہے لیکن اپنے پیاروں کے انتظار میں جدوجہد کرنا، شہروں کیسڑکوں پر اپنے قدموں کے چھاپ رکھ کر ڈھونڈنا انسان کو ایک آس دلاتا ہے.
ایک امید ایک نئی زندگی کی طرف محو سفر کردیتا ہے. واقعی یہ تیرہ سال کی جدوجہد ایک نئی تاریخ رقم کریں گی.
ڈاکٹر دین محمد ایک سیاسی کارکن تھے انہیں اس لئے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ اپنے قوم کے دردمند اور توانا آواز کےعلاوہ ایک مسیحا تھے، کہتے ہیں کہ غلامی ذلت کا دوسرا نام ہے اور ڈاکٹر دین محمد ذلتوں کے مارے لوگوں کی آواز تھے اس لئےانہیں جبری گمشدگی کا شکار بنا کر اس آواز کو بند کرنے کی کوشش کی گئی.
جب ڈاکٹر دین محمد کو جبری گمشدہ کیا گیا تو اس وقت سمی تقریبا بارہ سال کی بچی تھی اور بارہ سال کی عمر کی بچی کےکندھوں پر اتنی بھاری زمہ داری کہ وہ ایک طرف اپنی ماں اور چھوٹی بہن کا سہارا بن سکے اور دوسری طرف کراچی، اسلام آباداور کوئٹہ کی سڑکوں پر اپنے بابا کو تلاشتی رہی۔
پر امن احتجاجی مظاہرے، کمیشنوں اور عدالتوں کے سامنے پیشی سمی کی زندگی کا حصہ بن گئی، کراچی سے لیکر اسلام آباد تکجہاں بھی جبری گمشدگی کے لیے آواز اٹھتا تو وہاں سمی کی توانا آواز نہ صرف اپنے بابا کے لئے اٹھتا بلکہ ہر جبری گمشدگی کےلیے سمی کی آواز اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے انسان نماء درندوں کو چیخ چیخ کر بتارہی تھی کہ یہ آواز اپنے پیاروں کی بازیابی تکاٹھتی رہے گی.
حال ہی میں انہیں کراچی میں ایک بار پھر گرفتار کیا گیا جبکہ دوسری بار سمی اور اسکے چھوٹی بہن پر تشدد بھی کیا گیا لیکنسمی کی جدوجہد جاری ہے اور جاری رہی گی جب تک بلوچستان سے لاپتہ افراد بازیاب نہیں ہوتے سمی کی آواز اقتدار کے ایوانوںکو ہلاتی رہے گی.
سمی کی یہ تحریر آپ نے کہیں پڑھی ہوگی یا سنی ہوگی کہ آہ۔۔ یہ اندھیری رات سی زندگی۔
زخمی روح اور جھلسے ہوئے احساس سے نکلتے شعلوں کی بے آواز چیخوں میں لپٹی یاسیت ، محکومیت اور مظلومیت کا بوجھکاندھوں پر لئے ظلم کی بیڑھیوں میں مقید بوجھل نگاہوں اور لرزتے وجود کےساتھ اپنے بابا کی منتظر ایک کمزور بیٹی ایک بار پھر یہمنصفوں کو یاد دلا رہی ہے کہ اسکے بابا کی جبری گمشدگی کو 13سال مکمل ہوگئے ہیں۔
دوسری جگہ کہتی ہے کہ آج فادر ڈے کے موقع پر تیرہ سالوں سے جبری گمشدگی کا شکار اپنے بابا کے لیے بس اتنا کہوں گی کہبابا میں آپکے لیے لڑتی رہی ہوں پریس کلبوں کے سامنے، کمیشن و عدالتوں کے چکرکاٹتی رہی ہوں، سڑکوں پر احتجاجی مظاہرےکرتی رہی ہوں
اور آنے والے دنوں میں بھی لڑتی رہوں گی۔ جب تک آپکے متعلق ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا آپ کہاں ہو۔
سمی کے ان الفاظ تیرہ سالہ جدوجہد کا لب لباب ہیں جس میں ایک طرف یاسیت، محکومی کا احساس اور دوسری طرف ایک امید،جدوجہد اور لڑنے کا عزم شامل ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ صرف تیرہ سال کی ایک معصوم بیٹی کا درد نہیں بلکہ صدیوں سے دردکی لپٹی داستان ہے جس میں ہر بلوچ کا درد شامل ہے اور اس درد کے ساتھ ساتھ اس داستان میں جدوجہد کا عزم بھی موجود ہے.
ان تیرہ سالوں کی جدوجہد نے سمی کو قوم کی آواز بنادیا ہے سمی کو بلوچستان اور مظلوموں کی آواز بنادیا ہے. میں نہیں جانتا کہسمی کے بابا لوٹ کر آئیں گے کہ نہیں لیکن یہ جانتا ہوں کہ انتظار کے طویل لمحات اور زمہ داریوں نے سمی کو کندن اور مضبوطبنادیا ہے اور یہ آواز ایک تاریخ رقم کرنی جارہی ہے جو اقتدار کے ایوانوں کو تہس نہس کرکے مظلوم اقوام کے لئے ظلم و جبر کے خلافجدوجہد کرنے کی تلقین کرتا رہے گا جب تک دنیا میں ظلم کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی سمی کے ان تیرہ سالوں کی جدوجہد کومصنف سنہرے الفاظ میں یاد کریں گا.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں