اسلمی سوچ ۔ ایشرک بلوچ

566

اسلمی سوچ

تحریر: ایشرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ ایک حقیقت ہے ، یہ تاریخ کہتا ہے اور یہ دنیا بھی اچھی طرح واقف ہے کہ بلوچ تاریخ، ثقافت اور سماج میں عورت کو سب سے زیادہ عزت دی گئی ہے اور دیا جاتا ہے۔ بلوچیت میں زالبول اعلی مقام پر فائز ہے۔ چالیس چالیس سال جاری رہنے والے قبائلی جنگ ہوں، خاندانی جھگڑے ہوں، قتل کا مقدمہ ہو، انتقام ہو، عورت کے دوپٹے کی عزت کی خاطر جنگ روک دیئے جاتے ہیں، جھگڑے ختم کیے جاتے ہیں، خون معاف کیے جاتے ہیں، صلح و تصفیہ کیا جاتا ہے۔
اور اسی طرح جب بات عورت کی حرمت و عزت پر آجائے تو خونی جنگ لڑے جاتے ہیں، سر کٹ جاتے ہیں، نوجوان فرزند قربان کیے جاتے ہیں۔

اب آتے ہیں حالیہ دور پہ، اس چیز سے بھی ہم سب واقف ہیں، اپنے آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، سن رہے ہیں۔ محسوس کررہے ہیں (اگر ہم میں حساسیت موجود ہو تو، ورنہ ہمارے آنکھوں کا پانی خشک ہوچکا ہے)۔ کہ کیسے قابض اور قابض کے حمایت یافتہ گروہوں کے ہاتھوں روزانہ کے بنیاد پر ریپ ہورہے ہیں، ہمارے بلوچ خواتین کے عزتوں کو تارتار کیا جاتا ہے، ہمارے بہنوں کو ٹارچر سیلوں میں غیر انسانی سزا دی جاتی ہے۔ انکے جسموں کو ڈریل کیا جاتا ہے۔ ہمارے ماٶں بہنوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے، انہیں رلایا جاتا ہے بلوچیت کا جنازہ نکالا جاتا ہے۔

تو کہاں گیا وہ غیرت، بلوچیت، ثقافت، تاریخی حیثیت۔ کہاں مر گئے عورت کی عزت کی خاطر جنگیں لڑنے والے سر قربان کرنےوالے خون کا نزرانہ پیش کرنے والے۔

حقیت یہ ہے کہ ہم مَرچکے ہیں اندر سے، ہم بے دخل ہوچکے ہیں، بلوچیت سے، ہم دستبرار ہوچکے ہیں اپنی ثقافت سے۔

(آج اگر وہ غیرت موجود ہے تو مجیدوں میں، سرمچاروں میں جرنل اسلم کے فرزندوں میں پارود کی چوٹیوں پر بولان کی اونچائیوں پر)۔
کیا ہم اس قوم سے نہیں ہے۔ کیا بلوچوں کے اولاد نہیں، ہم پر وطن کا حق نہیں۔ اگر ہے تو کس دن کیلئے؟

کہیں بلوچ کلچرل فنکشن میں بلوچی لباس زیب تن کیے، بلوچی گانے پر ثقافتی رقص کرتے ہوہے بلوچ لڑکیوں پر۔ بے گناہ قتل کیے گئے معصوم بچوں کے جنازوں کو کندھا دیتی ڈاکٹر مہرنگ پر، بلوچ تحریک سے وابستہ بلوچ خواتین پر، بلوچیت کے نام نہاد اور مذہب کے منکر متوالے ہزاروں سوال اٹھاتے ہیں تنقید کرتے ہیں گالیاں دیتے ہیں۔
کیا اُنہیں زرینہ مری یاد نہیں آتا، کیا انہیں بلوچ ماں بہنیں روڈوں پر دردر کی ٹھوکریں کھاتےدکھائی نہیں دیتے ، فوجی آپریشن کے دوران بلوچ عورتوں کے ساتھ ریپ نظر نہیں آتے، انہیں بلوچیت کا احساس نہیں دلاتے، بلوچ خواتین کی ٹارچر سیلوں میں بندش نظر نہیں آتا؟ اس سوال کا جواب آپ خود اخذ کر لیں۔

بلوچ ماں بہنوں کی عزت بلوچ ثقافت میں انکی تاریخی حیثیت بلوچ قوم کی خوشحالی بلوچ ساحل وسائل بلوچ ریاست کی حفاظت آنے والے نسلوں کی بالادستی صرف اور صرف آزاد بلوچستان میں پوشیدہ ہے۔

آزاد بلوچستان کو پانے کا راستہ صرف اور صرف مزاحمت ہے، اتحاد ہے، اتفاق ہے۔

بلوچ خواتین کی عزت کی خاطر اب صرف پروٹیسٹس کے ساتھ ساتھ علمی فکری میدان کو وسیع کرتے ہوئے مزاحمت کو آگے بڑھانا ہوگی کیونکہ ریاست صرف بندوق کی زبان سے مخاطب ہیں تو ہر بلوچ کا فرض بنتا ہے وہ اسلمی فکر کے ساتھ بندوق کو تھام کر کتاب کی بعیت کردے ، گلے کے بجائے متحد پختہ یقین اور اپنے آپ پر بھروسہ کرتے ہو ئے اس غیر فطری ریاست کو اپنے پاک سر زمین سے دھکا دے کر نکالنا ہوگا، شکایت کمزور کرتے ہیں ہمیں مضبوط ہوکر خاص کر نوجوان نسل کو قومی شناخت اور بقاء کیلیے علم اور مظبوط فکر کے ساتھ ساتھ ہر میدان میں مزاحمت بڑھانا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں