وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4667 دن ہوگئے، بلوچ قلمکار محمد علی تالپور نے احتجاجی کیمپ آکر اظہارِ یکجہتی کی، اسکے بعد وہ نیو کاہان شہدائے بلوچستان قبرستان گئے، نواب خیر بخش مری اور شہداء کے مزار پہ فاتحہ خوانی کی، محمد علی تالپور کل کوئٹہ میں منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کیلئے تشریف آور ہیں۔
اسکے علاوہ کیمپ میں آج اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں این ڈی پی کے کنوینر ایڈوکیٹ شاہ زیب، عبدالغنی سمیت دیگر مرد اور خواتین شامل تھے۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے مخاطب ہو کر کہا کہ بلوچستان اور اب خاص طور پر کراچی سے جبری گمشدگیوں کا سلسلہ خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے، جہاں سی ڈی ٹی پولیس کے ذریعے خفیہ ادارے بلوچوں کو جبری لاپتہ کر رہے ہیں، گزشتہ روز تین طلباء، کلیم اللہ، دودا الہی بخش اور غمشاد مرید کو انکے گھروں سے غیر قانونی حراست میں لے کر لاپتہ کر دیا گیا، جب انکے لواحقین ایف آئی آر کرنے پولیس کے پاس گئے تو ان کا ایف آئی آر نہیں لیا گیا اور ان کو پولیس نے قبل از وقت مجرم قرار دیا۔
اس کے علاوہ کراچی کے علاقے میران ناکہ سے شوکت ولد خضور بخش کو بھی انکے گھر سے جبری لاپتہ کیا گیا ہے جن کا تا حال کوئی خبر نہیں ہے، سندھ میں جب بھی پیپلز پارٹی حکومت میں رہی ہے تو بلوچوں کی جبری گمشدگیوں اور انکے ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ مزید تیز تر ہوتا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے منتخب نمائندوں کے بیانیے اور ریاستی اداروں کے بیانیے میں کوئی فرق نہیں، ان سے ہم خیر کی کوئی امید نہیں رکھ سکتے ہیں۔