آہ عرش کو ہلادیتی ہے – منیر بلوچ

747

آہ عرش کو ہلادیتی ہے

تحریر: منیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کسی شہر میں ایک امیر آدمی رہتا تھا، جو بہت ظالم تھا. دولت کی ریل پیل اور نوکروں کی کثیر تعداد نے اسے مغرور و ظالم بنادیا تھا. وہ عام لوگوں سے بات کرنے کو اپنی توہین سمجھتا تھا. نوکروں سے غلاموں سے بد تر سلوک کرتا تھا. کہتے ہیں کہ جب فرعون اپنے طاقت کے نشے میں دھت تھا تو موسیٰ کا جنم ہوا اور وہی موسیٰ اس کی طاقت و ظلم کو ختم کرنے کا ذریعہ بنا. اسی طرح ایک دن اس ظالم و امیر آدمی کی گاڑی سے ایک رکشہ ٹکرایا جسے ایک بوڑھا چلا رہا تھا. بریک بر وقت نہ لگنے کی وجہ سے رکشہ بوڑھے سے کنٹرول نہ ہوسکا اور گاڑی سے ٹکراگیا جس کی وجہ سے اس ظالم نے اسے بہت مارا پیٹا اور رکشے کو بھی ناکارہ بنادیا اور اس بوڑھے کو پولیس کے ہاتھوں گرفتار کروایا۔

ایک طاقتور و گھمنڈی انسان کے لئے دولت اس کا غرور ہوتا ہے اور اسی دولت کے بل بوتے پر وہ دوسرے انسانوں کی تذلیل کرتا ہے لیکن ایک غریب و مجبور بے بس انسان کے پاس صرف دعا کی طاقت ہوتی ہے. اللہ پر اس کا یقین و اعتقاد ہی اس کا کل سرمایہ ہوتا ہے. غریب مجبور رکشہ والے کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں تھی سوائے بددعا کے. اس غریب کے منہ سے آہ نکلی اور وہ آہ عرش کو ہلاتی ہوئی اس گھمنڈی انسان پر قیامت بن کر گرگئی. اس فرعون کے خاتمے کے لیے بھی موسی وارد ہوا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی. اس گھمنڈی انسان کا طاقت و غرور خاک میں مل گیا.

ہم اکثر ایسی ہی کہانیاں سنتے ہیں کہ فرعون کا خاتمہ موسی نے کیا اور غریبوں کی آہ نے ظالم انسانوں کو خاک میں ملا دیا.

لیکن کیا حقیقت میں بھی ایسا ہوتا ہے؟ کیا مجبور و بے بس کی دعاؤں میں اتنا اثر ہوتا ہے کہ وہ ماوں کے بچوں کو لاپتہ کرنے والے ان ظالموں فرعونوں کا غرق یاب کریں. کیا ان کی بچوں کی بد دعا اتنی اثر انداز ہوتی ہے کہ ان ظالم فوجیوں کو سمندر برد کردے؟کیا ان بیویوں کی آہ عرش کو ہلا کر وقت کے فرعونوں کا خاتمہ کرے؟

کراچی یونیورسٹی میں شاری بلوچ کے فدائی حملے کے بعد کراچی کے بلوچ آبادیاں ریاست کے زیر عتاب ہیں. تصدیقی کیسز کے مطابق صرف کراچی میں بیس کے قریب افراد کو لاپتہ کیا گیا جبکہ چھاپے اور اہلخانوں کو زدکوب کرنے کے درجنوں واقعات رپورٹ ہوئے ہیں.

صرف کراچی کے ساحلی علاقے ماری پور سے دس افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا جن میں، نواز علی، عادل امام، زبیر وفا،، زاہد، اسرار انور،، علی بخشی، اصغر، اور ساجد کا تعلق ماری پور ٹیکری ولیج سے جبکہ عمران بلوچ کا تعلق ماری پور دلفل آباد اور سہیل حیات کا تعلق عبدالرحمن گوٹھ ھاکسبے سے ہے. ساجد، اصضر اور سہیل کو چھوڑدیا گیا لیکن باقی سات افراد تاحال لاپتہ ہیں۔

ان سات افراد میں نواز علی ماہی گیر اور شوگر کا مریض جبکہ زبیر وفا فشرمین کو آپریٹو سوسائٹی کا ملازم اور سماجی ورکر ہے. جبکہ اسرار انور و علی بلوچ طالب علم اور فٹبالر ہیں. زاہد اور عادل مزدور ہیں جبکہ زاہد ایک باکسر بھی رہ چکے ہیں اور عمران حنیف کراچی الیکٹرک کے ملازم اور ایک سماجی ورکر ہیں.

ان تمام افراد کو کیوں لاپتہ کیا گیا ہے؟ کیا زبیر وفا و عمران کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنے علاقے ماری پور کی ترقی و فلاح چاہتے ہیں؟ کیا ماری پور یکجہتی کمیٹی کا قیام ان کا جرم ہے؟ کیا علاقے کے بچوں کو تعلیم کی زیور سے آراستہ کرنا ایک جرم ہے؟ اگر واقعی یہ کام جرم ہے تو پاکستان کا نام نہاد آئین اس جرم کی کیا سزا تقویض کرتا ہے؟ کیا اس جرم کی سزا یہ ہے کہ معصوم و بے گناہ افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنا کر عدالتوں سے دور کیا جائے؟ کیا پاکستان کا آئین اس بات کی اجازت خفیہ اداروں اور سی ٹی ڈی کو دیتا ہے کہ وہ لوگوں کو لاپتہ کرکے عدالتوں میں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع نہ دیں؟

ریاستی اداروں کا یہ عمل طاقت کا بے دریغ استعمال ہے اور اپنے طاقت کے غرور میں یہ ظالم لوگ ماوں، بہنوں، بچوں کے دکھ و تکلیف کو بھی نہیں دیکھتے – یہ سراسر ظلم و زیادتی ہے. اس ظلم و زیادتی کے خلاف جدوجہد کرنا ہی اس ظلم کو روک سکتا ہے اور خاموشی مذید مظالم کو موقع فراہم کرتا ہے. واقعی غریبوں کی بد دعا عرش کو ہلا دیتی ہے. لیکن ان غریبوں اور مجبوروں کی بد دعا میں بھی کوئی اثر نہیں ہوتا جو جدوجہد سے کتراتے ہیں. جو ظلم کے خلاف کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں؟ خدا بیوقوفوں اور بزدلوں کی کبھی طرفداری نہیں کرتا. خدارا اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے متحد ہو کر آواز اٹھائیں کیونکہ متحد ہو کر جدوجہد کرنا ہی ظالم کے لئے بد دعا ہے اور یہی بد دعا ہی عرش کو ہلا کر ظالم کا غرور خاک میں ملا دیتا ہے. فرعون کو ختم کرنے کے لئے موسی بننا پڑتا ہے. ورنہ حقیقت یہی ہے کہ خدا خاموش رہ کر ظالموں کا ساتھ دینے والوں کی کبھی طرفداری نہیں کرتا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں