آخری پینٹنگ
تحریر: شراک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یہ ایک پینٹنگ نہیں بلکہ ایسی احساسِ غلامی ہے، جو کسی ذہن میں پیوست ہو کے نکلا ہے، اپنے قوم کو جگانے اور بیدار کرنے کیلئے۔ یہ سوچ کی آخری انتہا ہے، جسے یہ شکل دیا گیا ہے۔
ایسا کیا ہوا کہ اس تصویر نے تکمیل پائی؟ جس میں ایک بلوچ عورت ہاتھ میں بندوق لیے کھڑی ہے، یہ سوچ کہاں سے پیدا ہوئی اور آگے جاکر یہ سوچ ایک عمل میں تبدیل ہوگئی، اور وہ عمل جو ہر کسی کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے، جو ایک قوم کیلئے نیا راستہ اختیار کر دیتا ہے. اور اس راستے پر چلنے کیلئے بہت سے سربکفن ہوجاتے ہیں۔
26 اپریل کو 2 بجے ایک پوسٹ سوشل میڈیا پر گردش میں آتا ہے کہ(رخصت آف اوارن سنگت) ایک دوست جاتے ہوئے اپنے فکری دوستوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ پھر ملینگے. پھر وہ دوست کہیں دور ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور اپنی اپنی داستانوں کا ذکر کرتے ہیں.
26 اپریل کا دن وہ موڑ ہے، جب ایک عورت فدائی بن کر ابھرتی ہے. انکا نام دنیا میں شاری بلوچ عرف برمش کے نام سے گونجتی ہے، جسے ہر زبان و ہر قلم بولنے اور لکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے، شاری فکر کا جنم تو کئی برسوں پہلے ہوتا ہے لیکن اس فکر کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے وہ دو سال پہلے اپنے قوم کو جگانے اور بیدار کرنے کیلئے یہ فیصلہ کرتی ہے کہ عورت بھی اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ فدائی بن سکتی ہیں اور وہ سوچ آج کئی شاری اور فدائی پیدا کر چکی ہے، جو بلوچستان کی آزادی کیلئے پاکستان اور اس کے حواری چین کی استحصالی منصوبوں کو نیست نابود کرنے کیلئے تیار ہیں.
شاری بلوچ ایک باشعور اور تعلیم یافتہ خاتون تھی، زولوجی میں ماسٹرز کیا ہوا تھا اور تعلیم کے شعبے میں ایم فل کررہی تھی، پیشے کے اعتبار سے استانی تھی اور گرلز ہائی اسکول کلاتک میں میٹرک کے طالبات کو سائنس پڑھاتی تھی۔ شاری بلوچ زمانہ طالب علمی سے ہی بلوچ قومی غلامی و بلوچ نسل کشی سے اچھی طرح واقف تھیں، دو سال قبل مجید بریگیڈ میں شمولیت اختیار کی اور فدائی حملے کیلئے تیار ہوئی.
ان کے شوہر ڈاکٹر ہیبتان بشیر کے کہنے کے مطابق اس فیصلے پر پہنچنے کے بعد مجھے اس نے آگاہ کیا تو میں نے اس سے دریافت کیا تھا کہ کیا یہ ایک شعوری فیصلہ ہے یا جذباتی؟ تو اس نے کہا کہ خود کو قربان کرنے سے بھی کیا کوئی بڑا شعور ہو سکتا ہے، میں نے اس کے فیصلے کا احترام کیا اور ان کے یہ الفاظ کہ اپنے آپ کو قربان کرنے سے بھی بڑا کوئی شعور ہو سکتا اور یہ شعور کی انتہا ہے اس کے بعد بھی کوئی اس شعور اور سوچ کو غلط کہے تو میرے خیال میں وہ کسی خیالی دنیا میں جی رہا ہے.
شاری جو اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت تھی، کوئی معاشی پسماندگی نہیں تھی، وہ چاہتی تو اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ایک بہترین زندگی گزار سکتی تھی لیکن وہ بلوچ قوم کو خاص طور پر عورتوں کو آزادی کی راہ پر گامزن ہونے اور قربانی کا راہ دکھلایا۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ بغیر قربانی کہ ایک آزاد ملک اور آزاد سماج حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے. آج دشمن اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اسے ہر بلوچ عورت فدائی نذر آتا ہے جو اپنے بوکھلاہٹ میں مبتلا ہے۔
ُ”بقولِ ڈاکٹر شاہ محمد مری کہ ہمارا دشمن ہمارے اسٹینڈرڈ کا نہیں ہے ایک گری ہوئی سوچ رکھنے والا دشمن ہے”
دشمن سے یہ توقع یا یہ امید کرنا کے وہ ہمیں مار کر سائے میں پھینک دیگا، نہیں، ہرگز نہیں اسکی واضح مثال بنگالیوں سے ہمیں ملتا ہے، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرے ہمیں شاری بننا ہوگا ہمیں ریحان، عمر جان بننا ہوگا یا ہمیں نوشکی پنجگور کے سنگتوں کی راہ اپنانا ہوگا.
شاری کی بنائی ہوئی یہ پینٹنگ، ہمارے لیے تاریخ کے اس خالی جگہ کو پر کردیتا ہے کہ آزادی کی یہ جدوجہد صرف مردوں کی زمہ داری نہیں بلکہ خواتین کو بھی کردار ادا کرنا چاہیئے اور اپنے ان نوجوان بھائیوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کرنا چاہیے۔
دو بچوں کی ماں ہونے کے باوجود، فدائی شاری بلوچ نے قومی شعور اجاگر کیا اور اپنا قومی فریضہ انتہائی جرت اور بہادری سے سرانجام دیکر قربانی کی ایک نیا معیار قائم کیا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں