۳۱ مئی شہدائے مارواڑ بولان کی پہلی برسی
تحریر: راہشون بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
۳۱ مئی کے روز شام ۶ بجے کے وقت جُہد آجوئی کے سرمچاروں نے بولان کے علاقے مارواڑ میں قابض فوج پر حملہ کرکے اُن کی کیمپ کو تباہ کرتے ہیں اور اسی طرح دوران جھڑپ تین سرمچار بہادری سے دشمن سے لڑتے ہوئے اپنے جان کا نظرانہ پیش کرکے شہادت قبول کرتے ہیں۔ یقیناً 31 مئی کی اس شام بولان جھوم اٹھا ہوگا، جب مارواڑ، بولان کے پہاڑوں میں تم اور باقی فرزندانِ زمین، سر پرکفن باندھے آزادی کا جذبہ سینے میں لئے ہوئے، بولان کے پاک سرزمین سے پاکستانی ریاستی ناپاک مسلط شدہ فوج کو مار گرانے میں کامیاب ہوئیں۔
لیکن آج اُن شہدا کو ایک سال ہونے والا ہیں اور ایسے محسوس ہورہا ہیں کہ وہ کل کے دن ہی ہم سے جُدا ہوگئے۔ سنگت شہید آفتاب بلوچ جن پر اوپر لکھتے ہوئے میری قلم کی سیائی خون کی طرح جم جاتی ہیں، ایک ایسا شخصیت، ایسا انقلاب پسند جوکہ ہمارےآنکھوں کی ٹھنڈک ہوا کرتی تھی جس کے بغیر ہم تمام تر سنگت ایک جہنم جیسی زند بسر کررہے ہیں لیکن دوسری طرف سوچتا ہوں کہ سنگت نے جو قُربانی دی وہ ہم سب پر فرض ہیں اور اُس نے یہ فرض ادا کر کے ابھی ہمارے اوپر اس کو فرض بنایا ہے اور وطن کی حفاظت ہمارے ہاتھوں میں دی اور یہ ہمارا فرض ہیں کہ سنگت وشین کی اس سوچ، اس مقصد کو آگے لیکر اپنا بھی فرض ادا کریں۔
شہید وشین جان سے میں کافی عرصہ بعد بات کرتا تھا لیکن جب بھی اُس سے بات ہوتی وہ مجھے ایک اُستاد ایک راہشون کی طرح ہر چیز سے آگاہ کرتے تھے۔ ایک دن میں اور آفتاب جان ایسے بیٹھے ہوئے گپ مار رہے تھے تو ایسے میں، میں نے کہا “چیئرمین یار” چلو آج جان لیتے ہیں کہ آپ کی زندگی کی کیا کیا خواہشات ہیں تو سنگت ہنس کر بولا کہ سرزمین کی یہ لاوارثی اور وطن کے غم نے میرے تمام تر خواہشات کو ایک خواب میں بدل کر رکھا اور وہ خواب یہ ہیں کہ اپنی سرزمین اپنے وطن کی “آزادی”۔ اب میری اس زندگی میں کوئی خواہش نہیں ہیں بس ایک جستجو ہے کہ اپنے وطن کی بقاء کے لیے اپنے زندگی کو قُربان کرنا اور بیشک خوش نصیب ہوتے ہیں وہ جو اپنے وطن کی ننگ کے لئے اپنے جان کا نظرانہ پیش کرتے ہیں۔
سنگت آجوئی کی منزل کو اپنے اوپر ایسے لیتا تھا کہ یہ صرف اُس کے اوپر فرض ہیں۔ وشین جان نے جب بانُک کریمہ کی خبر سُنی تو غصے اور غیرت سے اُس کی آنکھوں میں پانی آئی اور کہنے لگا اب ہمارے مائیں اور بہنیں جب کہ بیرونی ممالک میں محفوظ نہیں تو اب بات ہمارے عزت پر آئی ہیں اب اس ریاست کے ساتھ صرف جنگ ہوگی اور ایک جگہ سنگت نے کئی لکھا تھا کہ “مجھے باُنک کریمہ کی خون کی قسم کہ میں اُس کے سرزمین کے لئے اپنی جان قُربان کرونگا۔” اور آج فخر سے کہنا پڑھ رہا ہیں کہ وہ اس مقصد میں کامیاب ہوا۔ اس طرح کے باشعور نوجوان کا قلم سے بندوق تک کا سفر کرنا بھی ہمیں اس بات کا درس دیتا ہیں کہ آپ کا دشمن غیرمہذب ہیں اور آپ چاہے جتنی تعلیم حاصل کریں آخر کار یہ ریاست بندوق کی زُبان سمجھتا ہیں۔ پہلے تو شہید وشین جان کچھ لوگوں میں بستا تھا اور کچھ کہ دل میں زندہ تھا اب وہ ہر باشعور بلوچ کے دل میں زندہ اور مُدام بسارہے گا اور آجوئی تک پہنچنے کے لئے ایک حوصلہ بن چُکا ہیں اور وہ ایک نئی نسل کےساتھ، نئے سوچ و فکر اور ایک نئے نظریہ کے ساتھ پھر سے جنم لے گا۔
لوگ بولان کی دیدار کے لئے ترس رہے ہیں لیکن خوش نصیب ہیں وہ جو بولان میں ہمیشہ کے لئے امر ہوتے ہیں جو کہ ان شُہدا کے علاوہ اور بھی کئی شُہدا ہیں جنہوں نے دشمن کو خاک میں ڈال کراپنے پاک سرزمین میں دفن ہوئے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں