یہ چوتھی گولی کس کا پتہ پوچھ رہی ہے؟
محمدخان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
پہلی گولی بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر صباء دشتیاری کے سینے میں اتاری گئی،دوسری گولی کراچی یونیو رسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کے سر کو پار کر گئی،تیسری گولی سماجی کارکن سبین محمود کے دل کو دو حصوں میں بانٹ گئی جیسے شق القمر ہوا تھا،یہاں شق القلب ہوا!اور چوتھی گولی دل و دماغ سینہ وہ چھاتی کا پتا پو چھ رہی ہے۔وہ کسی کے بھی دھڑکتے دل کے سینے میں پیوست ہو سکتی ہے۔کسی بھی سوچتے دماغ کو خاموش کر سکتی ہے۔کسی بھی سوال پو چھنے والے دماغ کو مٹی میں دفن کر سکتی ہے۔کسی ہر دل عزیز انسان کو ختم کر سکتی ہے۔کسی بھی مہان استاد کو ملیا میٹ کر سکتی ہے۔کسی بھی سوال پوچھنے والے کا پتہ پوچھ سکتی ہے۔کسی بھی سوال چھوڑ جانے اور اپنی بات میں انکار کا اظہار کرنے کی جرئت میں وہ گولی اسے گھائل کر سکتی ہے۔
اور ان کا قصور کیا ہوگا جو وہ چھوتی گولی ان کا پتا پوچھ رہی ہے؟
وہی قصور جو صباء دشتیاری کا تھا۔جو ڈاکٹر شکیل اوج کا تھا اور جو جرم سبین محمود کا ٹھیرا اگر ایسا ہی کوئی قصور کسی سے سرزد ہوا تو پھر وہ چھوتی گولی اسے مار دی جائے گی۔اور کوئی بھی نہیں پوچھے گا کہ اس کا قصور کیا تھا۔اب ہر کوئی ٹٹول کر دیکھے کہ کیا ان کا سینہ دل و دماغ اس قصور کے لیے تیار ہے جو ان سے ہوا جو میو شاہ کے قبرستان سے لیکر گزری فیز ۶ کے قبرستان میں قبروں میں سو رہے ہیں۔
اور اب وہاں کوئی نہیں جاتا سوائے
گورکن کے!
آوارہ کتوں کے
اور چاند کے!
وہ جو گولی کھا کر اپنا سامان ۔اپنے کپڑے،اور اپنی کتابیں ان گھروں میں چھوڑ گئے جہاں اب انہیں کبھی نہیں لوٹنا اور ان کا مردہ وجود قبروں کو آباد کر گیا،ان کا جرم بس یہ تھا کہ وہ الجھے مسائل ،اور ادھورے سوالوں پر بات کر تے تھے۔اور عام انسانوں کو وہ مسائل سلجھا کر دیتے تھے۔جو ان سے نہیں سلجھتے تھے۔
صباء دشتیاری بلوچی زباں کے عاشق تھے۔وہ چاہتے تھے کہ اب بہت ہو گیا اب پیار بھرے خطوط بلوچی زباں میں لکھے جائیں بلوچی زباں میں میگزین اور اخبارات شائع ہوں بلوچی زباں پڑھائی جائے،سکھائی جائے اور سمجھائی جائے بلوچی زباں کی الفا بیٹ ہو۔اس زباں میں بہت سی کتابیں شائع ہوں۔ یہ پیارا خیال صباء دشتیاری کا جرم ٹھیرا۔ڈاکٹر شکیل اوج کا جرم ایک کتاب ٹھیری۔ان کی علمی بات کا خیال تھا کہ جب ایک مسلمان مرد کسی غیر مسلم عورت سے شادی کر سکتا ہے۔تو کوئی مسلمان عورت کسی غیر مسلم مرد سے شادی کیوں نہیں کر سکتی ؟ جس بات کو انہوں نے اپنی کتاب،،نساء،،عورت،،میں واضع کیا اور پھر گولی اس کا پتا پوچھتی رہی۔اور اسے گھائل کر گئی۔آج وہ یونیورسٹی کے قبرستان کی قبر نمبر۱۱۱ میں سو رہے ہیں۔سوچ رہے ہیں۔اور اپنے بال نوچ رہے ہیں۔
سبین محمود تو بلوچستان میں مسنگ پرسن پر لمز یونیورسٹی لاہور میں اپنا ایک پروگرام کرنے جا رہی تھی۔جسے آخری وقت میں کینسل کر دیا گیا۔وہی پروگرام سبین نے اپنے علمی ادبی گھر t2f میں کیا اور اسی رات گھر جاتے ہوئے گولی کا نشانہ بنی!
اور اب چھوتی گولی کس کا پتا پوچھ رہی ہے؟
لاہور کے لمز یونیورسٹی میں مشال کی برسی نہیں کرنے دی جاتی۔آخری وقت میں کہیں سے کوئی ھدایت آتی ہے۔پروگرام نہیں ہو تا۔کراچی کی حبیب یونیورسٹی میں ڈاکٹر فہد علی کی وہ بحث اپنے پائے تکمیل تک نہیں پونچھ پاتی جس میں اس بات کو دیکھا جا رہا ہوتا ہے کہ
،،نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سی میڈیا پابندی ہونے کے باوجود بھی پشتون تحفظ تحریک کی مقبولیت کس جگہ کھڑی ہے!؟،،
اوپر سے حکم آتا ہے سارا بوری بستر لپیٹ لیا جاتا ہے۔پنجاب یونیورسٹی کے نوجوان دانشور ڈاکٹر عمار کو بس اس لیے نوکری سے ہاتھ دوہنے پڑتے ہیں کہ وہ نوجوانوں کو سوال کرنے پر اکساتا ہے۔ڈاکٹر عمار پنجاب یونیورسٹی میں گزشتہ دو سالوں سے پڑھا رہا ہے۔اور نوجوانوں کو یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ
،،اے یرو شلم اگر میں تمہیں بھول جاؤں تو
تو میرے ہاتھ مفلوج ہوجائیں
اور اگر تمہیں یاد نہ رکھوں تو
میری زبان ختم ہو جائے!،،
وہ یروشلم کیا ہے؟زباں اور ہاتھ کیا ہے؟اور مفلوج ہونا کیا ہے؟پنجاب یونیورسٹی کچھ نہ سمجھ پائی اور ایک ذہین اور نوجوان دانشور پر ملازمت کے دروازے ہی بند کر دیے یہ دروازے کس نے بند کر وائے کہاں سے حکم صادر ہوا؟اور کیوں ہوا؟
ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونیورسٹی جہاں پشتون تحفظ تحریک کے نوجوان لیڈر منظور پشین پڑھتے ہیں وہاں پر یہ پوچھا گیا ہے کہ یہاں کیا کیا پڑھایا جاتا ہے اور اس یونیورسٹی میں منظور پشین کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
وہ طاقت والے ہاتھ جو سب کام کرنے دیتے ہیں۔اور کوئی بھی کام نہیں کرنے دیتے۔انہوں نے ایک ہنستے ہوئے مشال کو جلتا ہوا کپڑا بنایا ۔مشال جلتا رہا۔گھر میں ا س کی ماں روتی رہی۔اب وہی ہاتھ اس کی یاد بھی نہیں منانے دیتے۔،مشال کو ایک سال بیت گیا۔مشال انکار کے اظہار کی علامت بن کر سامنے آئے۔پر اب یہ کیا ہے۔اب جب اس کے لیے کوئی رونا چاہتا ہے۔کوئی موم بتی جلانا چاہتا ہے۔تو اس سے بھی روکا جا رہا ہے۔پر کیا وہ ہاتھ جانتے ہیں انگریزی کے اس مقولے کو کہ
(and the tear that shed, though in secret it rolls, shall long keep his memory green in our souls.)
(اور ہم جو آنسو بہاتے ہیں، وہ ہماری روحوں میں اس کی یاد کو تازہ رکھیں گے)
ان اہل علم نے اس ملک کو اپنا علم دیا ہے۔اس لیے کہ لوگ جاگیں بات کریں۔اپنے حقوق سمجھ سکیں۔اپنے حقوق پر بات کریں۔نا انصافی کو للکا ریں۔یہ اہلِ علم ہی کا کام ہے کہ وہ عام لوگوں کو شعور سے بہرا مند کریں۔اہل علم اپنا یہ کام کر رہے ہیں۔تو پھر چھوتی گولی کس کا پتا پوچھ رہی ہے۔
وہ اہلِ علم تو اس ملک کو اپنے حصے کے گلاب بھی دے چکے۔اور وہ گلاب ان کی وہ عمرِ عزیز ہے جس کو وہ ان اداروں کی نظر کر چکے۔پر پھر بھی وہ سزا وار ہو رہے ہیں
کیوں؟!
ان دانشوروں کی اب حالت ایسی ہے جس کے لیے شیلے نے کہا تھا کہ
(saint lambhert it’s all for thee
the flower grows
the rose’s thorns are for me;
for thee the rose)
،،او سینٹ لیمبرٹ ،یہ سب کچھ تمہارے لیے ہے
پھول کھلتے ہیں۔یہ گلاب تمہارے لیے ہیں
اور کانٹے میرے لیے ہیں!،،
اور یہ سینٹ لیمبرٹ کیا ہے؟
یہ ،یہ ملکِ عزیز ہے جس میں میں رہتا ہوں۔جس میں آپ رہتے ہیں۔جس میں مسنگ پرسن رہتے تھے،جس میں ڈاکٹر فہد علی رہتا ہے۔جس میں ڈاکٹر عمار رہتا ہے۔جس میں منظور پشین رہتا ہے۔جس میں سبین محمود رہتی تھی۔جس میں ڈاکٹر شکیل اوج رہتا تھا۔،جس میں پروفیسر صباء دشتیاری رہتا تھا۔جس میں وہ سب رہتے ہیں جو حق کی بات کہنا چاہتے ہیں اور اس میں وہ سب بھی رہتے ہیں جو حق کی بات کہنے پر گولی مارتے ہیں
تو یہ سینٹ لیمبرٹ کیا ہے؟
یہ ،یہ ملکِ عزیز ہے!
جہاں سب کچھ کہنے کی اجازت نہیں
جہاں میڈیا آزاد نہیں
جہاں بہت کچھ چھپایا جاتا ہے
جہاں کچھ نہیں دکھایا جاتا
جہاں اپنوں کی یاد میں رونا بھی جرم ہے
جہاں کسی کی یاد میں موم بتی جلانا
بھی جرم ٹھیرتی ہے۔
جہاں علم پر بندش ہے
جہان اہلِ علم کی تذلیل ہو تی ہے
جہاں کتابوں پر بندش ہے
جہاں سوال کرنے پر
جواب مانگنے پر گولی ماری جاتی ہے
جہاں کتاب تلاشی کی اذیت سے گزرتے ہیں
جہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ کون سی کتابیں پڑھا ئیں اور کون سی نہیں
جہاں بات دلیل سے نہیں گولی سے ہوتی ہے۔
جہاں استادوں کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا جاتا ہے
جہاں سب کچھ کہنے کی آزادی نہیں
یہاں ملک آزاد ہے
پر فرد آزاد نہیں
یہاں ریاست آازد ہے
پر مکتب نہیں
یہاں سلیبس آزاد ہے
پر کتابیں نہیں
یہاں کتے آزاد ہیں
پر انسان نہیں
یہاں بھاشن دوہنس،اور دھمکی آزاد ہے۔
پر علم نہیں
ڈاکٹر فہد علی۔ڈاکٹر عمار اور منظور پشن آزاد ہیں
پر ان کے خیال نہیں
اور تم پھر بھی پوچھ رہے ہو
چوتھی گولی کس کا پتا پو چھ رہی ہے؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں