ہوائیں حاملہ ہیں ۔ محمد خان داؤد

250

ہوائیں حاملہ ہیں

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

ان شہیدوں کا سفر بس ماں کی گود سے شروع ہوکر دھرتی ماں کی جھولی تک ختم ہوجاتا ہے
بہت ہی طویل،بہت ہی مختصر!
پر اس طویل اور مختصر کے بیچ میں کیا ہے؟
محبت!
جی ہاں محبت،سکھی سے نہیں، ماں سے نہیں محبوبہ سے نہیں
بس دھرتی سے
دھرتی بولی سے
دھرتی رنگوں سے
دھرتی سازوں آوازوں سے
جو انہیں گورے پستانوں، خوبصورت جسموں اور لال لبوں سے دور کر کے پتھریلی مٹی سے قریب کر جا تی ہے،پھر ان کے ہاتھوں میں گورے پستان نہیں ہو تے،سیاہ زلفیں نہیں ہو تیں تازہ بدن ہیں ہو تے تازے بدنوں کی خوشبو نہیں ہو تی پھر انہیں جسموں کی مہک اپنے اور نہیں کھینچتی،وہ دھرتی کی محبت میں دھرتی کا ذرہ بن کے رہ جا تے ہیں،ایسا ذرہ جن ذروں پر چاند آکر ٹھہرجاتا ہے۔جن ذروں پر محبت کی شبنم برستی رہتی ہے۔جن ذروں کو دیس کی بارشیں اپنے حصار میں لے لیتی ہیں اور وہ محبت کی بارش میں گیلے گیلے ہو جا تے ہیں۔جن کے ماتھوں پرتارے ٹک جا تے ہیں اور وہ دھرتی کے ”دھنار“ہو تے ہیں جہاں چاہیں اپنی محبت سے دھرتی کو ہانکتے پھریں۔

وہ دھرتی سے دور نہیں رہ پا تے،ان کے دل دھرتی ماں میں پیوست ہو تے ہیں وہ اپنی تمام تر محبتیں دھرتی پر نچھاور کردیتے ہیں اور انہیں کوئی ملال بھی نہیں ہوتا۔
وہ لال لہو جیسے ہوتے ہیں
وہ دھرتی کو محبت میں دیتے بھی لہو کا خراج ہیں
وہ محبت کے آبشار ہو تے ہیں
اگر وہ نہ ہوں تو دھرتی بے نور ہوجائے
وہ دھرتی کی محبت کے لائیٹ ٹاور ہو تے ہیں
وہ جلتے ہیں تو دھرتی کا اندھیرہ دور ہوتا ہے۔
وہ چلتے ہیں تو دھرتی پر
وہ دفن ہوتے ہیں تو دھرتی میں
وہ دھرتی کے اوپر
وہ دھرتی کے نیچے
تو وہ دھرتی سے دور ہی کب ہیں
انہیں تو بس مائیں جنتی ہیں
اور ان کی”جند“حیاتی دھرتی سے جڑ جا تی ہے
وہ پتھریلی مٹی کی سوندھی خوش بو ہیں
اگر ان کا لہو دھرتی رنگ سے نہ جُڑے
تو دھرتی سے سوندھی سوندھی خوش بو کب اُٹھے اور کیسے اُٹھے؟
وہ گلاب رنگت ہیں
انہیں کا رنگ گلابوں میں ہے
وہ سورج کی لالی ہیں
وہ لہو رنگ
وہ لال رنگ
وہ ہی شفق رنگ!
وہ مرتے نہیں بس دھرتی میں دفن ہو جا تے ہیں۔جب ان کے نازک جسموں کو بھونتی بندوقوں کے منھ میں دیا جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟دھرتی ایسی ہو جا تی ہے جیسے دلہن کا لباس!جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ”دھرتی گاڑھو کھونبھو تھی ویندی!“دھرتی دلہن کا لال لباس ہوجائے گی!ہاں ان کے گھائل وجودوں سے نکلا لہو ددھرتی کو دلہن لباس میں بدلی کر جا تی ہے،ایک گولی انہیں گھائل کرتی ہے اور ایک گولی دھرتی کو لال لال کر جا تی ہے،پھر وہ اپنے گھائل وجود لیکر دھرتی میں دفن ہو جا تے ہیں اور پو ری دھرتی لطیف کی یہ بات بن جا تی ہے کہ
”جا بھون مون پیرن
اُھابھون متھے سجنا“
لطیف کو بھی ندامت ہونے لگتی ہے کہ وہ کس بھون پر چل رہا ہے جس بھون پر اس کے پیر پڑ رہے ہیں
وہ بھون تو محبوب کا لباس بنی ہوئی ہے۔پر یہ عشق کی باتیں ہیں محبت کی باتیں ہیں محبت میں مٹی بن جانے والوں کی باتیں ہیں یہ باتیں ان کے لیے ہر گز نہیں جو گولی چلا تے ہیں اور معصوم وجودوں کو گھائل کرتے ہیں اور بہت پیچھے مائیں رو تی رہ جا تی ہیں!
ساون دنوں میں بارشوں کی طرح
اداس دنوں میں ماتموں کی طرح!
جو گولی گھائل کرتے ہیں وہ نہ مائیں ہیں اور نہ محبوبائیں نہ سکھی ہیں نہ دھرتی!
وہ تو وحشی ہیں
وہ کیسے جان پائیں گے کہ ایک گولی کسے کسے گھائل کر جا تی ہیں؟
محبت۔ماں۔محبوبہ اور بولی!
جب یہ سب اس ایک گولی سے گھائل ہو تے ہیں تو دھرتی گاڑھو کنبھو بن جا تی ہے
اور منتظر ہو تی ہے اس کی جس کا سفر بہت طویل رہا بہت مختصر رہا
اور وہ پھر لوٹ آیا دھرتی ماں کے دامن میں!
سرد راتوں میں گرم بہانوں کی طرح
پہلی محبت کے پہلے پہلے بوسہ کی طرح
دھرتی اسے محبت سے بوسہ دیتی ہے اور اپنے دامن میں امانتاًسلا دیتی ہے جب تک،جب تک دھرتی گاڑھو کنبھو نہیں بن جا تی اور وہ بھی گھائل وجودسے کچھ وچن کر کے کروٹ لیکر سوجا تے ہیں
یہ دھرتی کے ایسے بیٹے ہیں اگر دھرتی کو ان سے جدا کیا جائے تو دھرتی اپنا توازن کھو بیٹھے!
جب مائیں ان کے غم میں اپنا ہوش گنوا بیٹھتی ہیں
تو دھرتی اپنا توازن کیسے نہیں کھوئینگی؟!
ایسی ہی ایک ماں ہے جو اپنے بیٹے کو دھرتی کو سپرد کرنے کے بعد اپنا ہوش گنوا بیٹھی ہے
اور ایسی ہی ایک دھرتی ہے جو اسے اپنے دامن میں پاکر اپنا توازن برقرار رکھے ہوئے ہے
اب ماں کو دیکھیں یا دھرتی کو؟
ہم دھرتی کو دیکھتے ہیں جو ہزاروں ماؤں کی ماں ہے جو ہزاروں دھرتی کے بیٹوں کی ماں ہے
وہ ماں اپنے دامن میں مظفر بھٹو کاوجود رکھ کر پھر سے دلہن کی طرح سج گئی ہے دھج گئی ہے
دھرتی ماں کی مٹی میٹھی
اور ہواؤں حاملہ ہیں
بارشیں رنگوں میں نہائی ہوئی
اور شامیں اپنی اپنی سی ہیں
راتیں پیا ری
اور سحر اُمید سے ہے
کیوں؟
اس لیے کہ شہید کے لہو سے دھرتی پھر سے دلہن بن گئی ہے
مندر کی گھنٹیاں بج رہی ہیں
کارونجھر پر مور ناچ رہے ہیں
اور شہیدوں کی قبروں پر سرخ پھول کھل اُٹھے ہیں
اور سندھ دھرتی رقص میں ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں