کیا بلوچستان میں جدوجہد خارجی پروکسیز کے ایماء پر ہو رہی ہے؟ – شاویز بلوچ

730

کیا بلوچستان میں جدوجہد خارجی پروکسیز کے ایماء پر ہو رہی ہے؟

تحریر: شاویز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کچھ ترقی پسند حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں جاری جدوجہد چین اور امریکہ گوادر پورٹ اور سی پیک کے پروجیکٹس پر لڑائی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے تضادات کو استعمال کرتے ہوۓ اپنی اپنی پروکسیز بلوچستان میں ڈیزائن کر کے انکی مدد کر کے اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب ریاست کی طرف سے بھی ایسا ہی بیانیہ سامنے آتا رہا ہے کہ یہ سیاسی جنگ دراصل ریاستی لوٹ مار اور مظالم کے خلاف نہیں بلکہ ہندوستان کے ایما اور مدد سے ملک کے خلاف سازش ہو رہی ہے اور انکا کہنا ہیکہ یہ لوگ ترقی سے نابلد ہیں، انکو سی پیک جیسے گیم چینجر ہضم نہیں ہو پا رہے وغیرہ وغیرہ۔۔

ایسے میں بلوچستان کے سیاسی کارکنوں کے لیے درج بالا دونوں بیانیے کو الگ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ بھلے دونوں حلقوں کی نیت الگ ہی کیوں نہ ہو مگر ان مشکل ترین حالات میں اپنی جان تک کا نزرانہ دینے والے سیاسی کارکنوں کے لیے دونوں کا مطلب ایک ہی بنتا ہے۔

بلوچستان کا کوئی ایسا گھر نہیں کوئی ایسا علاقہ نہیں کوئی سیاسی کارکن نہیں جو اس عرصہ میں ان مظالم کا شکار نہ رہا ہو۔ کوئی تعلیمی ادارہ نہیں جہاں طلبا روزانہ کی بنیاد پر اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف سراپا احتجاج نہ ہوں۔ ان گھمبیر اور پیچیدہ عوامل کو سمجھنے سے قاصر اسلام آباد اور لاھور کے مقتدر اکابرین جو یہاں کے زمینی حقائق سے آگاہ نہیں ہیں، یہاں کے لوگوں اور سیاسی کارکنوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔

ان تجزیوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس ملک کی بالادست قوم کے عوام اور محنت کش طبقہ اتنے غیرسیاسی ہیں کہ انہیں یہ تک پتہ نہیں کہ بلوچستان ہے کہاں پر؟ اور کس قسم کے لوگ یہاں رہتے ہیں؟ وہ بیچارے تو بلوچ کو بلوچی بولتے ہیں اور یہاں کے پانچ شہروں کے نام تک نہیں جانتے اور نہ ہی وہ کسی ترقی پسند تنظیم یا پارٹی میں منظم ہیں جو ان پیچیدہ سیاسی و معاشی حالات و تناظر کو سمجھ بوجھ سکیں۔ وہ اس سوچ سے بالکل عاری نظر آتے ہیں کہ اس طبقہ کی محکوم قومیتوں کے ساتھ مل کر ایک اجتماعی نظریاتی لڑائی لڑی جا سکے اور مظلوم و محکوم قوموں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کی جاسکے۔

جب تک ایک ترقی پسند سیاسی پارٹی کے ساتھ ظالم قوم کے مظلوم طبقات سیاسی اور شعوری طور پر نہ جڑے ہوں تب تک آئیسولیشن میں محض تجزیہ پیش کرنا خود کو مزید مظلوم قومیتوں سے دور رکھنے کے ہی مترادف ہوگا۔ کیونکہ نرگسیت پر مبنی تجزیوں اور خود فریبی میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

تجزیہ کرنا، سوال کرنا، تنقید کرنا ہر کسی کا حق ہے۔ اسے اس حق سے نہ روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی روکنا چاہیے کیونکہ جن معاشروں میں سوال اور تنقید کا راستہ روکنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ معاشرے علمی موت مرتے ہیں۔ لہٰذا ہم تجزیہ کرنے سے منع نہیں کرتے فقط گزارش اتنی سی ہے کہ زمینی حقائق کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ہی ان تجزیوں کی بدولت لوگوں کو سیاسی طور پر ایک دوسرے سے جوڑا بھی جا سکتا۔

دنیا میں جہاں بھی کوئی بھی سیاسی جدوجہد ہوئی ہے اسکی مدد اور حمایت ضرور کسی نے اس ملک سے باہر کی ہے۔ اور یقیناً کوئی بھی سیاسی تحریک کسی کے حق میں تو کسی کے خلاف ہوتی ہے۔ اب ایسے میں اس جدوجہد سے بھی کسی ملک کو فائدہ اور کسی کا نقصان ہونا فطری امر ہے۔ اب چین کے پروجیکٹس ڈسٹرب ہونگے تو امریکہ کو فائدہ ہو سکتا ہے یا اس کے بر عکس۔ کہیں سعودی عرب کے مفادات کو نقصان وہاں ایران کے لیئے بہتر ہوسکتا ہے۔ اب آج کے دنیا میں یہ ممکن ہی نہیں کہ انتہائی خالص بنیادوں پر کوئی جدوجہد کیا جاۓ جو آپکے علاوہ کسی کے بھی فائدہ یا نقصان میں نہ ہو۔
اور ان طریقوں سے دیکھا جاۓ پھر تو ہر جدوجہد پراکسی جدوجہد ہوئی، چاہے وہ انقلاب روس یا فرانس و چین ہو۔

بلوچستان میں کوئی پراکسی وار نہیں ہو رہی ہے بلکہ ظلم اور مظلومیت ,حاکمیت اور محکومیت , وسائل کی بے دریغ لوٹ مار کے خلاف قومی شناخت کے تحفظ کی جنگ ہو رہی ہے۔ قومی بقاء کی لڑائی لڑی جا رہی ہے۔ اور اس جنگ کو مختلف طریقوں سے لڑا جا رہا ہے۔ ہاں، جدوجہد کرنے والے تنقید اور سوال سے بری الزمہ بھی نہیں ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں