کنفیوشس انسٹیٹیوٹ پر حملہ کیوں؟
تحریر: حماد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
26 اپریل کی دوپہر کے وقت پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جامعہ کراچی کے اس دروازے پر ایک زوردار دھماکہ ہوا جہاں ایک غیر ملکی ادارے کا ایک انسٹیٹیوٹ قائم ہے، یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب اس سینٹر میں پڑھانے والے غیر ملکی اساتذہ کی گاڑی وہاں پہنچی تھی-
اس دھماکے کے چند لمحوں بعد بلوچستان کی سب بڑی اور متحرک مسلح آزادی پسند تنظیم بی ایل اے نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے یہ بیان جاری کیا تھا کہ یہ حملہ انکے مجید برگیڈ کی ایک خاتون فدائی حملہ آور نے سرانجام دی ہے، تنظیم کے ترجمان نے اپنے ایک تفصیلی بیان میں بتایا کہ “اس فدائی حملے کا نشانہ چائنیز حکومت کے پروپگنڈہ ٹول ادارے کے ڈائریکیٹر تھے۔ “ بی ایل اے نے اس حملے میں مرنے والے چینی شہریوں کو چینی حکمران پارٹی کمیونسٹ پارٹی کا رکن قرار دیا تھا-
حملے کے بعد جہاں دنیا بھر میں اس واقعے کا چرچا شروع ہوا تو وہیں کچھ لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ آخر بی ایل اے نے اپنی کاروائی میں چین کے اس تعلیمی ادارے کو کیوں نشانہ بنایا؟ کنفیوشس انسٹیٹیوٹ ہے کیا؟ یہ پاکستان میں کیوں قائم کی گئی اور بلوچ مسلح تںطیم کی جانب سے کسی تعلیمی ادارے کے اساتذہ پر حملے کے محرکات کیا ہوسکتے ہیں؟
کنفیوشس انسٹیٹیوٹ چین کا بین الاقوامی تعلیمی پروگرام “ھین بین” کے تحت چین سے باہر ممالک میں قائم کی گئی ہے، کہنے کو تو یہ چین کی زبان اور کلچر مفادات کو مغربی ممالک میں اظہار آزادی کے تحت فروغ دے رہا ہے تاہم امریکہ اور یورپ اور دنیا کے مختلف ممالک میں یہ ادارہ کئی تنازعات کا شکار ہے، اس پروگرام کو چین کے وزرات تعلیم کے تحت فنڈ مہیا کئے جاتے ہیں ، دنیا کے مختلف ممالک میں کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے 530 سے زائد سینٹرز اس وقت کام کررہے ہیں-
ادارے کے تاریخی پس منظر کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ اس ادارے کا نام چین کے مشہور فلاسفر کنفیوشس سے منسوب ہے جس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ 471 قبل مسیح میں پیدا ہوئے تھے، جس نے کنفیوشس ازم کی بنیاد رکھی۔ کنفیوشس ازم تقریباً دو ہزار سالوں تک حکمرانوں کا مذہب رہا ہے، اس کا اصلی نام کنفیوشس کی تعلیمات“ ہے یا پھر چینی قوم کی کرہ ارض پر برتری کے ہیں، اس کو “روجیا” بھی کہتے ہیں جس کے معنی ”چینی علما کی تعلیم“ کے ہیں-
قابل ذکر بات یہ ہے کہ کنفیوشس ازم پر چینی انقلابی رہنماء ماؤ زے تنگ نے پابندی عائد کردی تھی۔
مزید تاریخی پس منظر میں جائے بغیر اس ادارے کا سطحی جائزہ لینے کی کوشش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ “ھین بن” چین کا ایک سرکاری ادارہ ہے، جو چینی کمیونسٹ پارٹی کے تحت باہر ممالک میں چین کے تعلمی منصوبوں کو مانیٹر کرتا ہے، اس ادارے کو چینی وزرات تعلیم فنڈز فراہم کرتی ہے “ھین بین” نے دوسرے ممالک کے تعلیمی یونیورسٹیز میں کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی جہاں دوسرے ممالک کے یونیورسٹیز کو فنڈ مہیا کرکے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے نام سے سینٹر قائم کئے گئے ہیں-
کنفیوشس انسٹیٹیوٹ اکثر تنازعات میں گھرا رہا ہے ، سب سے پہلے تین سال قبل امریکی سینیٹ میں سینیٹ رکن “مٹ رومنی”نے ادارے کی اثر رسوخ پر سوالات اٹھاتے ہوئے امریکی حکام کو اس چائنیز پروجیکٹ کے منصوبوں کی طرف متوجہ کیا تھا- سینیٹر کے مطابق چائنیز کمیونسٹ پارٹی حکمران جماعت کنفیوشس انسٹیٹویٹ کے تحت اپنی کمیونسٹ نظریاتی پروپگنڈے کو عام امریکی نوجوان نسل میں پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔ امریکی سینیٹر نے جواز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری اور چائنا کی سوچ میں واضح اختلافات ہیں “مٹ” کے اس بحث کے بعد سینیٹ چئرمین نے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کا جائزہ لینے کیلئے سینیٹ سے رائے مانگا تھا-
رپوٹس کے مطابق چائنیز حکومت اس بین الاقوامی تعلیمی مہم کو جن ممالک میں تنازعات یا پابندی کا سامنا ہے ان ممالک میں ادارے کو چائنا کے غیر سرکاری تعلیمی اداروں سے فنڈ مہیا کرکے قائم رکھنے کی کوشش کررہا ہے- تاہم امریکہ اور یورپ میں مختلف تعلیمی اداروں کو اپنے اداروں میں کنفیوشس انسٹیٹیوٹ رکھنے کے باعث مقدمات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، خاص طور پر امریکی حکام اس ادارے کو ایک اثرانداز ہونے والا پروپگنڈہ قرار دیتی ہیں-امریکی تجزیہ نگار اسے چائنا کی امریکہ سمیت دنیاء پر برتری لے جانے کا منصوبہ قرار دیتے ہیں-
ان تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ چین بیرون ممالک میں اپنے عسکری سامراجی منصوبوں کو جواز فراہم کرنے کے لئے ایسے اداروں کے زریعے اثرانداز ہونے کی کوشش کرتی ہے۔
عالمی اخبار “دی اسپیکٹیٹر “ نے دعوی کیا ہے کہ چائنیز کمیونسٹ پارٹی کے رہنماء چانگ چُن نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کنفیوشس انسٹیٹیوٹ بیرون ممالک چائنیز کمیونسٹ پارٹی کا پروپگنڈہ پھیلانے کے مثبت طریقہ کار رہا ہے-
عالمی تھنک ٹینگ ولسن سینٹر کے جانب سے جاری 2017 کے ایک رپورٹ کے مطابق کنفیوشس انسٹیٹیوٹ بیرون ممالک مقیم چائنیز طلباء کو مانیٹر کرنے سمیت چینی عسکری پروپگنڈہ کی تشہیر کررہا ہے، ولسن سینٹر کے رپورٹ کے مطابق کنفیوشش ادارے کے رکن بیرون ممالک چین کے خلاف پروپگنڈہ کو بھی کاؤنٹر کرتے ہیں جس کے چلتے آسٹریلیا کے ایک یونیورسٹی میں چائنہ کے حوالے سے دکھائے جانے والے فلم پر اس یونیورسٹی میں موجود کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کی جانب سے احتجاج کرنا شامل ہے-
گذشتہ چند سالوں سے مغربی ممالک میں کنفویشس انسٹیٹیوٹ پر خدشات تقویت پکڑتی جارہی ہیں گزشتہ ماہ برطانیہ کے ہفتہ وار میگزین میں شائع ہونے والے رپورٹ میں کنفویشس انسٹیٹویٹس کو برطانیہ کے تعلیمی اداروں میں فراہم کی گئی فنڈز کا جائزہ لیا گیا جو عام تعلیمی اخراجات سے کئی زیادہ تھیں برطانوی کالم نگار “اسٹیرپائک”نے فنڈز کے بھڑتے اور کنفویشس ادارے کا برطانیہ میں اثرسوخ پر کہا ہے چائنہ کی کمیونسٹ پارٹی بغیر کسی مفاد اور زاتی منصوبہ کی بیرون ممالک اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کرتی-
کالم نگار “اسٹیرپائک” نے کہا کہ چین مغربی ممالک میں اظہار آزادی رائے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کنفیوشش اداروں کے زریعے کمیونسٹ پارٹی کا پروپگنڈہ پھیلا رہا ہے امریکہ میں اس ادارے پر جاسوسی کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے جبکہ مغربی ممالک کو سب سے بڑا خدشہ چائنہ کے جانب سے نوجوان نسل کی کمیونسٹ پارٹی کے جانب سے برین واشنگ ہے-
ہمیں سوشل میڈیا و دوسرے پلیٹ فارموں پر یہ سوال اٹھتا نظر آتا ہے کے بی ایل اے کے مجید بریگیڈ نے ایک تعلیمی ادارے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کو ہی کیوں نشانہ بنایا؟ کیا کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے مقاصد محض درس وتدریس ہے؟ اس چائنیز ادارے کے کام کرنے کا طریقہ کیا تھا؟
کراچی میں کنفیوشس انسٹیٹیوٹ بطور ایک لینگویج سینٹر کام کرتی ہے اس سے منسلک طلباء کو چائنیز زبان سکھایا جاتاہے، اس کے مختلف سیکشنز میں طلباء کو چین کے تاریخ اور ثقافت پر بریفنگ دی جاتی ہے-
وہاں کے طلباء کے مطابق چینی ٹیچرز مختلف چینی قومی اور مذہبی دنوں کے مناسبت سے تقریبات منعقد کرتی ہیں، جن کا مقصد آگے چل کر پاکستان میں چینی پروجیکٹس پر کام کرنے والے چائنیز کے ساتھ پاکستانیوں کے رابطے کو ایک بہتر انداز میں بحال کرنا ہے اور چینی حکومت کے بارے میں عام پاکستانی کے غلط تاثر کو دور کرکے چینی شہریوں کے ساتھ مثبت رویہ قائم رکھنے کا ہوتا ہے-
بہت سے مختلف عالمی ادارے اس خدشے کا اظہار کرتی رہی ہیں کہ کنفیوشس انسٹیٹیوٹ ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ چینی سافٹ ڈپلومیسی کا ایک حصہ ہے۔
گزشتہ ماہ برطانیہ کے ہفتہ وار میگزین میں شائع ہونے والے ایک رپورٹ میں کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کو برطانیہ کے تعلیمی اداروں میں فراہم کی گئی فنڈز کا جائزہ لیا گیا ، جو عام تعلیمی اخراجات سے کئی گنا زیادہ تھیں برطانوی کالم نگار “اسٹیرپائک”نے فنڈز کے بھڑتے اور کنفویشس ادارے کا برطانیہ میں اثرور سوخ پر کہا ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی بغیر کسی مفاد اور ذاتی منصوبے کے بغیر بیرون ممالک اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کرتی-
کالم نگار “اسٹیرپائک” نے کہا کہ چین مغربی ممالک میں اظہار آزادی رائے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کنفیوشش اداروں کے زریعے کمیونسٹ پارٹی کا پروپگنڈہ پھیلا رہا ہے ، امریکہ میں اس ادارے پر جاسوسی کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے جبکہ مغربی ممالک کو سب سے بڑا خدشہ چین کی جانب سے نوجوان نسل کی کمیونسٹ پارٹی کے جانب سے برین واشنگ ہے-
کراچی میں بلوچ مسلح تنظیموں کے جانب سے نشانہ بننے والے اس ادارے پر جہاں سوشل میڈیا پر صارف بحث کررہے ہیں۔ اور مختلف ردعمل نظر میں آتے ہیں۔
اس حملے کی بعد کچھ لوگ یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ بی ایل اے جیسی تنظیم کسی تعلیمی ادارے کے اساتذہ کو کیوں نشانہ بنائے گی؟ بی ایل اے مجید برگیڈ اس سے قبل چینی شہریوں کو نشانہ بناتا رہا ہے، تاہم ان چینی شہریوں کا براہ راست تعلق چین پاکستان کوریڈور سے رہا ہے تاہم بی ایل کے بیان کو دیکھا جائے تو وہ کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کو چائنیز پروپگنڈہ ٹول قرار دیتے ہوئے اس میں پڑھانے والوں کو کمیونسٹ پارٹی کا رکن قرار دیتا ہے-
عمومی طور پر دیکھا جائے تو عام چینی شہری کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں مقیم ہیں ، حتیٰ کے کراچی کے گزری، گلستان جوہر، ناظم آباد جیسے علاقوں میں چینی شہری رہتے ہیں اور مختلف پرائیوٹ اداروں میں کام کرتے ہیں اور عام گھروں میں رہتے ہیں، بلوچ مسلح تنظیم ان علاقوں میں پہلے بھی مسلح کاروائیاں کرچکی ہے پاکستان کے سیکورٹی اداروں پر حملے ہوتے رہے ہیں لیکن ان تنظیموں نے کبھی ان چائنیز کو نشانہ نہیں بنایا ہے، جس سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ سوچا سمجھا حملہ تھا۔
کچھ لوگ سوشل میڈیا پر یہ تاثر دیتے ہیں کے بی ایل اے کے کارکن گلیوں میں گھوم کر چینی شہریوں کو تلاش کرتے ہیں اور جو بھی سامنے آجائے انہیں نشانہ بناتے ہیں، یہ تاثر بالکل غلط ہے کیونکہ بلوچ مسلح تنظیموں کے طریقہ کار دیکھیں تو وہ اپنے حملوں میں ٹارگٹ کے نقصان سے زیادہ اپنی سیاسی فوائد دیکھتے ہیں، بی ایل اے یا کوئی بھی بلوچ مسلح تنظیم عام شہریوں کو نشانہ بنانے سے اجتناب کرتے رہے ہیں تاکہ انکے سیاسی بیانیہ کو عالمی سطح پر نقصان نا ہو-
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں