کراچی: بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کی گرفتاری و رہائی

804

سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں منگل کے روز کراچی پولیس نے پریس کلب کے احاطے سے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کو حراست میں لے کر تھانہ منتقل کر دیا-

لاپتہ افراد کے لواحقین، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے جبری گمشدگیوں، بلوچ خواتین کی اغواء نما گرفتاریوں کے خلاف آج ایک احتجاجی مظاہرے  اور وزیر اعلیٰ ہاؤس تک ریلی نکالنے کا اعلان کیا تھا –

میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی دین بلوچ نے کہا کہ کراچی پولیس کی جانب سے  ہمارے مرد اور خواتین ساتھیوں و بچوں کو انتہائی بد اخلاقی اور ظالمانہ طریقے سے  ہماری بہنوں کے چادر کھینچ کر گھسیٹتے ہوئے گاڑیوں میں پھینک کر پولیس تھانہ لے جایا گیا اور چار گھنٹے بعد ہم تمام ساتھی رہا ہوئے ہیں –

کراچی پولیس نے طالب علم رہنماء لاپتہ شبیر کی اہلیہ، بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی سربراہ آمنہ بلوچ، بلوچ مسنگ پرسنز کے سمی دین بلوچ، لاپتہ راشد حسین کی والدہ، بھتیجی ماہ زیب بلوچ، لاپتہ عبدالحمید زہری کی کی اہلیہ اور بچی کو گرفتار کرکے تھانہ منتقل کیا تھا، اور چار گھنٹے انہیں مختلف طریقوں سے پریشان کیا گیا-

گرفتار ہونے والوں میں ندا کرمانی، دوستین بلوچ سمیت کئی افراد بھی شامل تھیں-

لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی صاحبزادی و وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جنرل سیکریڑی سمی دین کے مطابق حالیہ دنوں کراچی سے متعدد افراد کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا گیا اس حوالے سے آج ہمارا مظاہرہ ہونا تھا تاہم کراچی میں دفعہ دفعہ 144 نافذ ہونے کے بعد ہم نے اپنی پروگرام معطل کردیا جبکہ دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں تھا ان میں سے دو افراد یہاں آئے تو انہیں پولیس گرفتار کرکے لے گئی جب ہم ان کے بارے میں پوچھنے آئیں تو پولیس مزید لوگوں گرفتار کرکے لے گئی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ میں مختلف وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کراچی پولیس کے خواتین و مرد اہلکار لاپتہ افراد کے لواحقین کو زبردستی اپنے گاڑیوں میں بٹھا رہے ہیں اور لواحقین اس پر مزاحمت کررہی ہیں۔

لاپتہ راشد حسین کی والدہ نے کہا کہ ہمارے پیاروں کی باحفاظت بازیابی کی بجائے لواحقین کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے پرامن احتجاج کرتے ہیں وہ طاقت سے احتجاج کو روک رہے ہیں۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کراچی پولیس کا یہ عمل ریاستی جبر کا تسلسل ہے جو بلوچوں کے خلاف جاری ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ اس وقت ملک میں جمہوریت کے نام پر بلوچستان میں آمریت کے بدترین بادل منڈلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی سے بلوچستان کو مقتل گاہ بنا دیا گیا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی پرامن جدوجہد پر تشدد کو ریاست کے لیے نقصاندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ عمل کسی بھی صورت مفید ثابت نہیں ہوگا۔

خیال رہے کہ اسلام آباد، پنجاب اور صوبہ سندھ میں دفعہ 144 نافذ کرکے 5 سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

ضلعی انتظامیہ نے کہا ہے کہ دفعہ 144 کا نفاذ ممکنہ احتجاج، ریلی اور دھرنوں کے سبب کیا گیا ہے، آئندہ 2 ماہ تک کے لیے ریڈ زون اور اس کے اطراف میں دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے۔

لاپتہ بلوچوں کے لواحقین، ایکٹوسٹس اور سماجی و سیاسی کارکنان کو گرفتاری کے چار گھنٹوں بعد رہا کر دیا گیا- تاہم لاپتہ افراد کے لواحقین کی گرفتاری پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر بلوچستان سمیت دنیا بھر سے مذمتی بیانات سامنے آئے اور واقعہ پر انتہائی غم غصہ کا اظہار کیا گیا –