کتاب: سامراج کی موت، مصنف: فرانز فینن
ریوور: بالاچ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
فرانز فینن 20 جولاٸی 1925 کو پیدا ہوا، جس نے نوآبادیات،استعماریت اور نسل پرستی پر کتابیں لکھی۔ بیسویں صدی میں برٹرینڈ رسل، ژان پال سارتر اور البرٹ کامیو جیسے فلسفیوں کا شہرہ تھا اسی دوران فرانز فینن نے ”آگیا اور چھاگیا“ والی شہرت حاصل کی، جس کو شہرت اور مقبوليت اس کی کتاب The wretched of the earth کی بدولت ملا جوکہ 1941 کو شاٸع ہوٸی تھی جس نے نوآبادیاتی نظام اور اس کے باقیات کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کیلۓ آسمانی کتاب کی حیثیت حاصل کرلی تھی۔
تیسری دنیا میں ایک نئی فکر پیدا کرنے اور یورپین کلونیلاٸزرز کے ظلم کا جواب تشدد(مزاحمت) سے دینے کی فکری حمایت نے فینن کو بیسویں صدی کے عظيم انسانيت پرست لکھاریوں میں شامل کر دیا۔
فرانز فینن کی کتاب ”سامراج کی موت“ جس کا موضوع الجزاٸر میں مظلوم اور غلام عوام پر نوآبادکار فرانس کی جانب سے ظلم،زیادتی، تشدد اور قبضہ ہے, یہ کتاب فرانسيسی سامراج اور الجزاٸر کی فرانس کے خلاف عوامی جدوجہد کے بارے میں لکھی گئی ہے، جہاں فرانس جیسے طاقت کو بےپناہ ظلم سہنے کے باوجود شکست کا سامنا کرنا پڑا، فرانس نے الجزاٸر پر اپنا تسلط قاٸم رکھنے کیلۓ لاکھوں افراد کا قتل عام کیا اور الجزاٸری عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ کر ظلم و جبر کا نہ ختم ہونے والا ایک داستان رقم کی۔
فرانز فینن نے یہ کتاب 1959 میں اس وقت لکھی جب وہ خود علمی طور پر الجزاٸر کی تحریک آزادی میں شریک تھا جس میں وہ تحریک کے بنیادی اصول بھی بیان کرتا ہے کہ مسلح تحریک کو عام شہریوں کے قتل عام اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز جبکہ عالمی سطح پر جمہوری حکومتوں کی اخلاقی اور نظریاتی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے۔
1954 میں جب الجزاٸر نے نوآبادکار فرانس کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کی تب فرانز فینن فرانس میں نفسيات کا Specialization کورس کر رہا تھا( ماہر نفسيات بننے میں ایک سال رہ گیا تھا) مادر وطن پر فرانسيسی ظلم نے فینن کو پڑھائی چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور اس نے الجزاٸر کی تحریک آزادی میں شموليت اختيار کرکے سامرج کے ناپاک عزائم کے خلاف مزاحمت شروع کردیا۔
شروع میں وہ ”المجاہد“ نامی اخبار میں الجزاٸری عوام کو بیدار کرنے کیلۓ مضامين لکھتا رہا مگر جب اسے معلوم ہوا کہ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہے اور 6 مہینے سے زیادہ اس کے زندہ رہنے کی امید نہیں ہے تو اس نے تحریک آزادی کے سربراہ کو خط لکھ کر آگاہ کیا اور مزید لکھا کہ وہ اب لکھنے سے عاجز آگیا ہے اور خواہش ظاہر کی کہ وہ اسے مجاہدین کے ساتھ محاذ میں گوریلا جنگ لڑنے بھیج دیا جاۓ، کیونکہ وہ اخبار کی میز کے پیچھے بیٹھ کر مرنا نہیں چاہتا تھا بلکہ وہ الجزاٸر کے پہاڑوں میں وطن زادوں کے ہمراہ دشمن سے لڑ کر شہید ہونا چاہتا تھا۔
بعد میں اس نے اپنے انقلابی ساتھيوں کو وصیت کی کہ مرنے کے بعد اسے ”بن مہدی“ کے قبرستان میں سپردِخاک کیا جاۓ( بن مہدی قبرستان الجزاٸر کے ایک گاٶں کا نام تھا جس کی پوری آبادی کا فرانسيسی سامراج نے قتلِ عام کرکے اُسے قبرستان میں تبدیل کیا تھا اور اس کی شہرت ”بن مہدی“ نامی شہید مزاحمت کار کے نام سے ہوٸی تھی) 1961 کو جب فینن نے کینسر کی وجہ سے دم توڑ دیا تو گوریلا مزاحمت کاروں نے اس کی وصیت پر سختی سے عمل کیا۔
فرانز فینن فرانسيسی سامراج کی قید خانہ میں بند ایک سات سالہ الجزاٸری معصوم بچے پر فرانسيسی ظلم کی داستان لکھتی ہے کہ ایک صحافی نے جب فرانسيسی سامراج کی ایک قید خانہ کا دورہ کیا جہاں اس نے سات سالہ بچہ پایا جس کی جسم پر تشدد کے نشانات تھے، سامراج نے اس کی گھر پر حملے کے دوران اس کی ماں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کے بعد بھاٸی اور باپ کو زندہ جلا دیا تھا قید خانہ میں اس بچے کو فرانسيسی فوج نے کٸی دنوں تک سونے نہ دیا تاکہ وہ اپنے ہل خانہ کے ساتھ ہونے والے ظلم کو نہ بھول سکے۔ صحافی نے جب بچے سے پوچھا کہ اس کی خواہش کیا ہے تو بلاخوف و جھجک کے اس نے خواب دیا کہ ” میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ فرانسيسی فوجوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردوں۔
آگے فرانز فین فرانسيسی سامراج کے درندگی اور پراپیگنڈوں کا ذکر کرتا ہے کہ جب سامراج الجزاٸر میں آتاہے تو معاشرتی اور ثقافتی پہچان اس کے قبضہ گہریت کے راستے میں سر درد تھیں جن کو تباہ کرنے کیلۓ اس نے مختلف ذرائع استعمال کیا، جب سامراج کو معلوم ہوا کہ الجزاٸری معاشرے میں عورت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے( یاد رہے الجزاٸری معاشرہ ایک عرب مسلم معاشرہ تھا) اور الجزاٸر پر غلبے کا واحد راستہ عورت کو اپنے طرف ماٸل کرکے اس پر قبضہ کرنا ہے تو اس نے معاشرتی اور ثقافتی اقدار کو برباد کرنے کے خاطر سب سے پہلے عورت کو نشانہ بنایا۔
اس مقصد کیلۓ وہ عورت کے پردے کا جاٸزہ لیتا ہے اور مختلف پروگرام منعقد کرکے عورت کو شرکت کی دعوت دیتا ہے جہاں وہ عورتوں کی ہمدردیاں پانے کیلۓ انہيں الجزاٸری ثقافت اور مردوں کے خلاف اکساتا تھا کہ مقامی ثقافت اور مرد قدامت پسند ہیں جو عورتوں کو پسماندہ، گنوار اور جاہل رکھنا چاہتے ہیں اور عورتوں کو اس بات پر ماٸل کرنے کی کوشش کی کہ عورتيں اب پورانہ طرز زندگی پر نہیں رہ سکتے۔
اس طرح عورتوں کی مزید ہمدردیاں حاصل کرنے اور اسے آمادہ کرنے کے خاطر سامراج نے انجمنیں بناٸیں، ترقياتی ادارے،امدادِباہمی اور فلاحی ادارے کھول کر عورتوں کو خیراتی کاموں میں لگایا تاکہ وہ دیگر گھروں تک رسائی حاصل کرکے دوسرے باپردہ عورتوں کو سامراجی سازشی پروگراموں میں شرکت کرنے پر ماٸل کرسکیں۔
سامراج کی طرف سے اس طرح کے پراپیگنڈے محض عورت کا ذہن تبدیل کرنے،اس پر سامراجی اقدار کا غلبہ کرنے، اسے معاشرے میں اس کی مقام سے گرانا نہ تھا بلکہ الجزاٸری ثقافت کو ننگا کرکے تحریک آزادی کے راستے میں ایک رکاوٹ پیدا کرنا تھا جس کی خاطر سامراج نے کروڑوں خرچ کیے۔
سامراجی خباثتوں کا سلسلہ یہی نہیں رک جاتا بلکہ دفتر میں کام کرنے والے مقامی شخص کو فرانسيسی افسروں کی جانب سے طعنے سننا پڑتا تھا کہ تم نے اپنی بیوی کو گنوار رکھا ہوا ہے تم اسے ہوٹل،سینما اور پارکوں میں کیوں نہیں لے جاتے ہو۔
آگے چل کر استعمار قومی، ثقافتی اور مذہبی تہواروں کے نام پر مقامی لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے لوگوں کو اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں تاریخ کو ہمارے یہاں بہت بڑا تقریب ہونے والا ہے جس میں آپ اپنے اہليہ کے ساتھ شرکت کرکے یہ عزاز حاصل کریں۔
یہاں مقامی ملازمين مشکل امتحان سے دوچار ہوتے تھے اگر وہ اپنی اہليہ کو تقریب میں لے جاتے تو اس کا مطلب اپنی اہليہ کا عزت نیلام کرنے کے مترادف تھا اور نہ لے جانے کے صورت میں اپنی ملازمت سے فارغ ہونا تھا۔
جب فرانس نے الجزاٸر پر قبضہ کرنے کے خاطر قتل و غارت ظلم و تشدد شروع کرکے الجزاٸری عورتوں کو نشانہ بناتے ہوۓ مقامی ثقافت پر حملہ آور ہوا تو مظلوم عورتيں جاگ اٹھیں اور دیکھا کہ ہمارے باپ، بھاٸیوں کے بعد اب ہمارے اپنی عزت سامراجی درندوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہے تو یہی عورتوں نے خاموشی ختم کرکے اپنی روایات اور ثقافت کو پس پشت چھوڑ کر استعمار کے خلاف جنگ کا علان کرکے آزادی کے تحریک میں شامل ہوکر پہاڑوں کا رخ کیا۔
(جب غلام استعمار کے خلاف مزاحمت کرنا شروع کرتا ہے تو مزاحمتکاروں کیلۓ وقتی طور پر قدیم رسم و روایات کی پیروی کرنا ضروری نہیں ہوتا، کیوں ان مشکل حالات میں ان کا کام محض دشمن کو ہر حال میں نقصان پہنچانا ہوتا ہے)
1955 تک جدوجہد کا سہرا مردوں کے سر رہا اور انہوں نے کبھی عورت کو میدان میں لانے کا نہیں سوچا تھا، جب عورت نے استعمار کے خلاف جنگ کا علان کرکے انقلابی جہت اختيار کی تو خود تحریک آزادی کے رہنما بھی اس صورتحال سے پریشان ہوگے تھے کہ آیا عورت کی میدان جنگ میں آنے سے ان کی منزل قریب ہوجاۓ گی یا تحریک کو نٸے مشکلات سے دوچار کردیگا۔
تحریک آزادی کے رہنماؤں کی جانب سے اس طرح کے خدشات محض مبالغہ آراٸی یا قدامت پسندی نہ تھا کیوں ان رہنماؤں میں سے اکثر استعماری قید خانوں میں ذلت ناک صعوبتیں برداشت کرنے کا تجربہ رکھتی تھی اور اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اگر عورت دشمن کے ہاتھ آگہی تو اُسے تشدد کا نشانہ بناکر اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد قتل کرنے سے بھی گریز نہیں گریں گے۔
طویل مشاہدے کے بعد ایک حکمت علمی تیار کیا گیا جس کے تحت شادی شدہ عورتوں کو تحریک کا حصہ بنایاگیا اس کے بعد مزید پابندیاں عاٸد کرکے ان عورتوں کا انتخاب کیاگیا کہ جن کے شوہر پہلے سے Liberation front کا حصہ تھے۔
جب جنگ کا میدان وسيع ہوا تو پھر تمام تر عورتوں کو تحریک میں شامل کرنے کا علان کیاگیا اور عورت گوریلا جنگ میں مرد کے شانہ بشانہ سامراج کے خلاف لڑنے کیلۓ تیار ہوگئی اور اپنی ذمہداریاں سنھبالتے ہوۓ پہاڑوں میں جدوجہد آزادی کی جنگ لڑنے والے اپنی زخمی بھاٸیوں کی مرہم پٹی،بیماروں کی تیمارداری ،جہدکاروں کو خوراک فراہم کرنا اور دوشمن کے خلاف Secret agent کا فرائض سرانجام دیکر اپنی پرس bag میں Handgernades، پستول اور گولياں ڈال کر دشمن پر حملہ آور ہوتی تھی۔
الجزاٸری عورتوں نے اپنے حسن عمل اور پختہ کردار سے ثابت کردیا کہ وہ آزادی کے خاطر اپنی جان تو دے سکتی ہے لیکن دشمن کے ہاتھوں بِک نہیں سکتی۔
جب فرانسيسی سامراج نے عورت کو نشانہ بناتے ہوۓ الجزاٸری ثقافت کو ننگا کرنے کی کوشش میں ناکام ہوٸی تو اس نے ریڈیو( اس زمانے میں کمپيوٹر کی حیثیت رکھتی تھی) کو متعارف کرکے ایک نٸی سازش کی شروعات کی، جو محض نوآبادیاتی نظام کا ایک نماٸندہ تھا جس کو اپنے ذاتی مفادات کیلۓ استعمال کرتے ہوۓ جہدکاروں کے خلاف جھوٹے خبریں پھیلا کر پراپگنڈے کو مزید فروغ دیا، جس کا مقصد عوام کو مایوس کرکے جہدکاروں کو مشکلات میں ڈالنا تھا۔
مقبوضہ الجزاٸر میں ریڈیو قابض کے ہاتھوں ایک تکنیک تھا جس کو اس نے بڑی چالاکی اور مکاری سے جہدکاروں کے خلاف استعمال کیا، جس میں پراپگنڈے، میوزیکل پروگرام،فرانسيسی ثقافت، قومی ترانہ اور دیگر پیغامات کو بڑی مکاری سے چلا کر ان جرنلوں کو خراج تحسين پیش کی جاتی تھی کہ جن کے ہاتھوں الجزاٸری عوام کے خون سے رنگین تھے اور مظلوم عوام کو حالات سے بے خبر رکھنے کیلۓ سامراج نے وہاں بڑے بڑے زرعی فارم بناکر وہان کے لوگوں کو بطور مزدور رکھ کر مصروف کردیا، زرعی فارم میں کام کرنے والے مزدور جو حالات سے وقفت رکھتا تو اس کو کھانے میں زہر دے کر قتل کردیا جاتا تھا۔
1955 کو جب ریڈیو جہدکاروں کے ہاتھوں میں آیا تو صورتحال تبدیل ہوگئی عوام اور انقلابیوں کے درميان جو خلا تھا وہ پُر ہوگیا اب لوگ جہدکاروں کے حملوں کے بارے میں آگاہ ہونے لگے اور ان میں سامراج کے خلاف جنون پیدا ہوگیا اور وہ سڑکوں پر آکے جذباتی حالت میں آزادی کے نعرے لگاتے جب کہ سامراجی فوج ان پر گولياں برساتا تھا اس سے بڑھ کر سامراج ہر عام الجزاٸری کو Nationalist کے نظر سے دیکھنے لگا، انہیں بلاوجہ تنگ کرتے ہوۓ اغوا کرتا اور بعد میں ان کا مسخ شدہ لاش پھینک دیا جاتا تھا۔
جب استعمار نے دیکھا میرا لایا ہوا ریڈیو میرے لۓ روز بہ روز خطرے کا گھنٹی بجا رہا ہے تو اس نے ریڈیو پر سخت پابندی لگا دی اور اپنی سامراجی یلغار کا پرچار کرنے کے خاطر پریس میڈیا کو متعارف کروایا مگر بہت جلد جہدکاروں نے مقامی پریس کو ترقی دینے کیلۓ مقامی مالکان کوآمادہ کیا اس طرح مقامی پریس ترقی سے ہمکنار ہوا اور اخبارات بازاروں میں بڑی تعداد میں بکنا شروع ہوگٸے تو پھر سامراج نے پریس میڈیا پر بھی سخت پابندی لگا دی۔
آگے فرانز فینن لکھتے ہیں کہ جب ایک غلام اور قدامت پرست معاشرے میں تحریک آزادی شروع ہوتی ہے تو معاشرے کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتی ہے۔
مصنف فرانز فینن الجزاٸری خاندان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اکثر خاندان ایک ہی فرد پر انصار کرتے تھے، جب خاندان کا کوٸی فرد تحریک آزادی میں حصہ لیتا تو اس کیلۓ ایک طرف بیوی، بچوں کی کفالت اور دوسری طرف مادرِوطن جو ایک چیلنج ہوتا تھا مگر وہ خاندان کو پس پشت چھوڑ کر یہی سوچ کر وطن کی آزادی کے خاطر نکل پڑتا کہ یاتو آزادی کے جنگ میں لڑتے ہوۓ شہيد ہوجاٶںگا یا پھر دشمن سے لڑتے ہوۓ اپنی مادرِوطن کو آزادی سے ہمکنار کرونگا۔
انقلابی جدوجہد میں مصنف باپ اور بیٹے کے بارے میں لکھتا ہے کہ سامراجی تشدد کے خوف کی وجہ سے باپ اپنے بیٹوں کو سامراج کے خلاف خاموش اور آزادی کے تحریک سے دور رہنے کی تاکید کرتے ہوۓ انہیں ان کی پسند کی شادی دینے کی لالچ دیا کرتے تھے مگر بیٹوں میں قومی ضمير پیدا ہوچکا تھا وہ غلامی کے زندگی سے تنگ آچکے تھے،اور وہ غلامی کی اس cycle سے نکلنا چاہتے تھے،انہوں نے اپنی ساری محبت مادرِوطن کے نام کر دیا تھا اس طرح انہوں نے اپنے باپ کو انکار کردیا تو آخرکار والد ان کے قومی سوچ سے متاثر ہوگیا اور بیٹے کے ساتھ پہاڑوں کا رخ کیا۔
آگے مصنف باپ اور بیٹی کے بارے میں لکھتا ہے کہ باپ کی جانب سے بیٹی کو مردوں کے ساتھ بات کرنے کی اجازت نہ تھا،والد کی کوشش ہوتی تھی کہ بیٹی کو جنگی معاملات سے بالکل بےخبر رکھا جاۓ جب کہ بیٹی کو ہر وقت پردے میں رہنا ہوتا، سامراج کی ظلم سے تنگ آکر بیٹی نے خود کو پردے میں غیر محفوظ سمجھا اور وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنی نقاب اُتار کر انقلابی بھاٸیوں کا ساتھ دیا، خود کو مسلح بناکر اب وہ عورت یا لڑکی نہیں بلکہ ایک انقلابی بہن بن گئی۔
تحریک آزادی نے جس طرح باپ بیٹے اور بیٹی کے تعلقات میں تبدیلی پیدا کی اس طرح بھاٸیوں کے باہم تعلقات میں بھی انقلاب برپا کیا، اس سے پہلے وہ آپس کے لڑائی جھگڑے اور مختلف رنجشوں میں الجھے ہوۓ تھے،جب آزادی کی تحریک شروع ہوٸی تو انہوں نے آپس کے لڑائی جھگڑوں کو ختم کرتے ہوۓ اپنے سروں پر کفن باندھ کر دشمن کو شکست دینے کے خاطر پہاڑوں کا رخ کیا۔
الجزاٸر کے تحریک آزادی میں بلاشبہ عورت نے ایک انتہائی اہم کردار ادا کیا، تحریک آزادی کے دوران عورتيں اپنے شوہر کو بزدل ہونے کا طعنہ دیتی ہوۓ کہتے تھے کہ تمہارے ماں، بہنوں کی سامراج کے ہاتھوں عزتیں محفوظ نہیں، تمہارے بھاٸی سامراج کے عقوبت خانوں میں ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں، مادرِوطن چیخ چیخ کر تمہیں پکار رہا ہے مگر تمہیں کچھ بھی دیکھاٸی نہیں دے رہا ہے،
اس طرح کے طعنے مردوں کو زہر قاتل لگتے تھے،آخرکار مردوں نے اپنے اہليہ کے ساتھ ملکر پہاڑوں کا رخ کیا اور دشمن پر حملہ آور بوٸیں۔
کتاب کے آخری باب میں مصنف مغربی ڈاکٹروں کی مکاری اور الجزاٸری طلبا و طالبات کے بارے میں لکھتا ہے کہ اس نوآبادیاتی نظام میں استعمار کا آلہ کار بن کر ڈاکٹروں نے الجزاٸری لوگوں کے ساتھ انتہائی نفرت آمیز اور غضبناک رویہ اختيار کیا تھا، جب کوٸی شخص زخمی حالت میں ان کے پاس جاتا تو وہ مریض کے نام،پتہ،والدیت، جگہ اور دوسرے معلومات لیکر فوج کو دیتے۔
جب فرانسيسی فوج نے الجزاٸری جہدکاروں کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کردی تو ہزاروں جہدکار شہید اور زخمی ہوگٸے اور فرانسيسی سامراج نے ڈاکٹروں اور ادویات کی ترسيل پر پابندی لگا کر جہدکاروں کو بڑی مشکلات سے دوچار کردیا اور ان میں ایک مایوسی پھیل گٸی تو الجزاٸری طلبا و طالبات جوکہ مختلف میڈیکل اور نرسنگ کالجوں میں پڑھ رہے تھے نے سامراج کے عزائم کے خلاف اور اپنے انقلابی بھاٸیوں کا علاج کرنے کیلۓ پہاڑوں کا رخ کیا جس سے تحریک کو ایک روح ملا۔
فرانز فینن کے اس کتاب کی مدد سے دینا کو الجزاٸر میں فرانسيسی ظلم کے بارے میں معلوم ہوا اور جولاٸی 1963 کو فرانس الجزاٸر سے نکل گیا، آخرکار 133 سال بعد الجزاٸر کو غلامی سے نجات ملی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں