وہ بائبل جیسی باتیں کس سے کرے؟
محمد خان داؤد
تحریر: دی بلوچستان پوسٹ
میٹھی میٹھی باتیں، بارشوں جیسی، ایسی باتیں جن کی ادائیگی سے تتلیوں کے پروں میں رنگ بھر جائیں ایسی باتیں جب شہید کی مکھیاں سنیں تو وہ مٹھاس سے حاملہ ہو جائیں،ایسی باتیں اگر بھنوروں کے کانوں پر گریں تو وہ زندگی میں کبھی پھولوں پر پھیرا نہ دیں۔کنواری باتیں،حاملہ باتیں،ایسی باتیں جن میں محبت کی گُٹھی ہو،ایسی باتیں جب پتھروں کے سروں پر محبت بن کر برسیں تو پتھروں میں بھی گلاب کھل آئیں۔دور کی باتیں، قریب کی باتیں، وہ باتیں جو بارش بن کر برسیں۔ وہ باتیں جو رنگ بن کر نکھریں بعد از بارش کی باتیں۔قوس و قزاح کی باتیں۔حمل کی شہہ مرید کی حانی کی باتیں۔دانا کی نہیں دیوانوں کی باتیں ایسی باتیں جن باتوں میں مہ کشی ہو سر کشی ہو ایسی سرکشی جو اگر جسم کو نہیں۔روح کو نہیں جب بھی دل کو تو پھانسی گھاٹ پر ضرور لے جائیں
مقتل میں محبت کی باتیں!
کتابوں کی باتیں کی باتیں،کتابوں میں لکھی دکھوں کی باتیں۔عالموں کی باتیں۔عاشقوں کی باتیں
ایسی باتیں جو بے وزن ہوکر بھی پو ری پو ری ہوں اور ایسی باتیں جو پوری پو ری ہوکر بھی بے وزن ہوں!
اُلٹی سُلٹی باتیں۔شاعروں کی باتیں۔شاعری کی بستی کی باتیں۔شاعری کی گلیوں کی باتیں
بے قرار باتیں۔بے چین باتیں!
جوگیوں جیسی
صوفیوں جیسی
پرانی مزاروں پر نئے کبوتروں جیسی
مسافروں جیسی
منزلوں جیسی
دور ہو تی قریب کی باتیں!
گلیوں کی باتیں جن گلیوں میں محبت کی خوش بو ہو تی ہے اور آتے جاتے مسافروں کو گلیاں پہچان جاتی ہیں کہ کون کل یہاں سے گزرا اور کون کل یہاں آئے گا؟!گھروں کی سرگوشیوں کی باتیں۔کہی ان کہی باتیں ایسی باتیں جو ہر روز کہی جا تی ہیں اور ایسی باتیں جو کبھی زباں سے ادا نہیں ہوئی دل کی باتیں!
بہت سی باتونی باتیں۔خاموش باتیں۔ڈھلتے سورج کی باتیں۔طلوع ہوتے چاند کی باتیں۔عید کی باتیں۔عید میں اداسی کی باتیں
ماتمی باتیں!
ایسی باتیں جن باتوں کا ہر سو شور ہے اور ایسی باتیں جو دل میں ہی دفن ہو جائیں
جن باتوں کو کبھی جسم کے گوش نہ سن پائیں کہ ان باتوں میں ایسا کیا تھا کہ ان باتوں کا جنم ہی نہیں ہوا
ہجوم کی باتیں۔اکیلائی کی باتیں۔بند در کی باتیں۔اداس گھر میں اکیلے جاگتے دئیے کی باتیں اور ماؤں کی نیند کی باتیں۔طویل راتوں کی باتیں۔اداس شاموں کی باتیں۔بے قرار کرتے تمام صبحوں کی باتیں۔ایسی باتیں جو یاد رہ جائیں۔اور ایسی باتیں جو یاد کرنے کے باجود یاد نہ آئیں
خوشی کی باتیں اور خوشی میں دکھ کی باتیں وہ باتیں جو دل کو بے چین رکھیں اور وہ باتیں جو دل کا بوجھ بڑھا دیں مسافر باتیں۔روتی چیختی ماتم کرتی باتیں۔اور وہ باتیں جو راہوں میں رُل گئیں اور پھر کبھی نہ لوٹیں
اور وہ باتیں جو میلے دامنوں کے ساتھ ایسے لپٹ گئی ہیں جیسے دودھ پیتے بچے!
چھوٹی بچیاں سفروں میں جوان ہوگئی وہ باتیں،معصوم بچوں نے اپنے باباؤں کو تصویروں میں دیکھا جانا اور پھر بڑے ہوکر نام پڑھا”ڈاکٹر دین محمد۔۔۔۔“
بہت سی باتیں ہیں جو سمی کہنا چاہتی ہے۔
منصور کی اناالحق کی باتیں۔سرمد کی ابھی چند سے باتیں۔دیش بھگتی کی باتیں!!
مریم کی یسوع سے باتیں۔یسوع کی مریم سے باتیں
ماں سے صلیب کی باتیں اور صلیب سے ماں کی باتیں
وہ بہت کچھ کہنا چاہتی ہے
وہ بہت رونا چاہتی ہے
شکستہ پرچموں جیسے دوپٹوں کی باتیں۔گیلے نینوں کی باتیں۔دھول آلود پیروں کی باتیں،ہاتھوں میں تھامیں میلے بینروں کی باتیں۔ہاتھوں میں مٹتی تصویروں اور نام اور بے نام تصویروں کی باتیں
وہ بہت کچھ کہنا چاہتی ہے، آنکھوں سے تو سب رو تے ہیں
وہ دل سے رونا چاہتی ہے
خدا سے درد کی باتیں
اور درد سے خدا کی باتیں
ایسی باتیں جس کے لیے کسی شاعر نے کہا تھا کہ
”گرخدا ہے بھی تو کیا
گر نہیں ہے بھی تو کیا“
کوئی تو ایسا خدا بھی ہو جو اسے سنے اور اس کے ساتھ دل سے روئے
کوئی خدا نہیں
کوئی مریم
یسوع نہیں
وہ بائبل جیسی باتیں کرے تو کس سے کرے؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں