”واجہ“ گانا اور بلوچستان کے زخم ۔ رامین بلوچ

499

”واجہ“ گانا اور بلوچستان کے زخم

تحریر: رامین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

نوآبادیاتی قوتیں صرف جبر وتشددسے اپنا قبضہ قائم نہیں کرتے بلکہ وہ جبر کے ہروہ زرائع استعمال میں لاتے ہیں جو اس کے تسلط کے لے جواز پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لئے راہ ہموار کرے تاکہ وہ اپنی مصنوعی وجود کو تا دیر زندہ رکھ سکے۔ بلوچستان میں ترقی و انفراسٹکچر اور سبز باغ دکھانے کے تمام منصوبوں کے پیچھے نوآبادیاتی زہنیت کار فرما ہے یہ نوآبادیاتی زہنیت کھبی ایک سمت کام نہیں کرتے بلکہ یہ بلوچ نسل کشی کے ساتھ ساتھ اس کی نفسیات کے ساتھ بھی کھیلتی ہے۔ یہ مختلف شعبوں کو استعمال میں لاکرقومی آزادی کی جدوجہد سے توجہ ہٹانے اور نان ایشوز کو ابھاکر بلوچ قوم کو گمراہ کرنے کی مسلسل کوشش کرتی ہے۔ اپنے نصاب سے لے کر وہ مختلف کرداروں کو استعمال میں لاکر ان سے مرحلہ وار اپنی قبضہ گیرانہ پالیسیوں کے تشہیر کرواتی ہے اس کے دانشور سے لے کر صحافی،تجزیہ کار، گلوکار ادیب سیاسی پارٹیاں مذہبی پیشو اس کے تابعداری میں رہ کر اس کی جھوٹی پروپیگنڈوں کے زریعے غلام قوم کی زہنی و نفسیاتی استحصال میں کوئی خلاء خالی نہیں چھوڑتی۔

حالیہ دنوں میں ایک پنجابی گلوکار شہزاد رائے کا ایک گاناریلیز ہوچکاہے جس کا عنوان”واجہ“ہے جس میں بلوچستان اور بلوچ قوم کو موضوع بنا یاگیاہے، جسے گوادر سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فلمایا گیاہے شہزاد رائے کے ساتھ مل کر اپنا منہ سیاہ کرنے والے بلوچستان کے گلوکار نعیم دلپل شانی حیدر،واسو خان اور رہیسہ رہیسانی بھی شامل ہیں۔ گانے میں بلوچی ساز دمبورہ بینجو کی ساز و آواز بھی شامل کئے گئے ہیں ویڈیو کی شروعات بحر بلوچ سے ہوتی ہے جہاں ایک شخص مشعل اٹھائے چہرہ سمندر کی جانب کرکے کھڑا ہے اور گانے کے اختتام پر غیر فطری ریاست پاکستان کا جھنڈا دکھایاگیاہے۔

گانے کی ابتدا ء ایک خاتون براہوئی زبان میں ان الفاظ سے کرتی ہے کہ(داسہ ننا وخت بسونے) یعنی اب ہمارا وقت آگیاہے گانے کے پر فریب بول مضحکہ خیز حدتک کچھ اس طرح ادا کئے گئے ہیں
دیکھ کے کالی رات ختم، تجھ کو بھٹکانے والے حالات ختم
کیا تیری کیا میری، اس دھرتی کی خاطر ہر ذات ختم
جس بات پے تو ناراض ہے، آج کر دیں وہ بات ختم
امبر کو چھونے چلا میرا بلوچستان
یہ میرا پاکستان ہے، یہ تیرا بلوچستان

گانے کا جو تھیم ہے یا مجموعی طور پر اس کے پیچھے جو زہنیت کام کررہی ہے وہ پنجابی کالونائزر ہے، اس بیانیہ کو لے کر اس گانے کے بول کے لئے جو الفاظ چنے گئے ہیں اس کی تیاری میں جو منظر استعمال کئے گئے ہیں جو اشارہ دیئے گئے جو نعرے ہم سے مخاطب کئے گئے ہیں یاجو سکرپٹ تیار کئے گئے ہیں اختتام میں جوریاستی جھنڈا دکھایا یا گیا ہے یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ آئی ایس پی آر کا دستخطی گاناہے یہ بلوچ قوم کے نفرت غصہ جذبات اور جدوجہدآزادی کے جزئیات کو زائل کرنے اور نوآبادیاتی استحصال کے پیش قدمی میں جو رکاوٹیں حائل ہیں ان کو دور کرنے اور عوام کو گمراہ کرنے کی ایک سوچی سمجھی منصوبہ جاتی نغمہ ہے، یہ زہر کی بوتل پر شہد کا سٹیکر چسپاں کرنے کی مترادف ہے۔

یاد رکھا جائے جب تک غلامی موجود ہے ہمارے لئے ہردن سیاہ اور کالی ہے اس کالی رات کا اختتام آزادی کے سرخ سویرا پر ہوگا۔ جب تک ہماری سرزمین پر قبضہ گیر موجود ہے اس کا استحصال موجود ہے اس کی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ جب تک موت کی بیوپاری پنجابی ساہوکاراور اس کے اتحادی چینی سامراج ہمارے وطن سے اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹاتے اس وقت بلوچ قوم سے وہ خیر سگالی کی توقع نہ کرے بلوچ اب کسی کے فریب میں نہیں آئے گا، بلوچ قوم ماضی کے تلخ تجربات سے بہت کچھ سیکھ کر کندن بن چکاہے۔ وہ پنجابی کالونائزر کی ہر ہنر ہر چال اور ہر فریب سے شعوری طور پر آگاہ ہیں بلوچ قوم کسی پیکج خیرات،مراعات نام نہاد شہری حقوق استحصالی ترقی اور شراکت اقتدار کی کسوٹی پر جدوجہد نہیں کررہابلکہ بلوچ جہد آزادی کا موقف واضح صاف اور سیدھا ہے قومی آزادی کے علاوہ بلوچ قوم کا تیسرا کوئی موقف نہیں۔

شہزاد رائے یہ آپ کے اسلاف کے حصہ میں آیاہے یعنی جب چاہے آپ کو عالمی طاقتیں خرید سکتے ہیں آپ اپنی ضمیر اور ذہن کو کوڑیوں کے بھاؤ میں نیلام کرنے میں دیر نہیں کرتے آپ منافعوں اور کمیشنوں کے لئے اپنی عزت غیرت اور نام نہاد تقدس بیچنے سے گریز نہیں کرتے، پنجابی کالونائزرہمیں حب الوطنی کا سبق نہ سکھائے ہمیں ہمارے وطن گل زمین کے ساتھ محبت ہے گہری محبت ہے اس خاک سے جو ہماری وجود کواپنی امرت دھار سے زندگی بخشتی ہے لیکن ہماری اس محبت کو جبر کے زریعہ دھوکہ کے زریعہ تشدد کے زریعہ حتی کہ اس طرح کے نام نہاد غیر فطری مصنوعی نغموں کے زریعہ کوئی خرید نہیں سکتا۔

جو کوئی بلوچستان کی جمہوری آزادی کی اہمیت و ضرورت کو تسلیم کرتاہے اس نقطہ پر بلوچ ہر اس قوت سے ممکنہ طورپر بات چیت کرسکتاہے لیکن جو بلوچ آزادی کی وجود سے انکاری ہے بلوچ اس سے کسی صورت قریب نہیں آسکتاآزادی کی قیمت ہمارے لئے سب سے اہم ہے آج بلوچ تاریخ کے اس موڑ کو عبور کرتے ہوئے آزادی کے لئے اپنی جان کی قیمت ادا کررہاہے وہ اس گانے سے کیسے فریب کھائے گابلوچستان نہ توآدھا پاکستان ہے نہ تو پورا پاکستان یہ تو الگ خطہ اور جغرافیہ ہے بلوچ اور پنجابی کے درمیاں کوئی قدر مشترک نہیں ہم کسی بھی صورت کسی بھی زاویہ سے لازم و ملزوم نہیں نہ تہذیبی نہ تاریخی صورت میں نہ ہمارے اور پنجابی قبضہ گیر کے درمیان کوئی قومی نسلی لسانی یا ثقافتی رشتہ موجود ہے ا گر بالفرض ایک رشتہ بنتاہے تو قابض اور مقبوضہ کا اس کے سواہمارے اور ان کے درمیان کسی بھی قسم کا تعلق نہیں بن سکتا۔

پنجابی کالونائزر جس کی اپنی کوئی تاریخ نہیں جس کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ ہر حملہ آور کا خیر سگالی کے ساتھ استقبال کرتا آرہا ہے دنیا کے جو بھی فاتح آئے پنجابی کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے ہمیشہ ان کے سامنے ایک جھکنے کا کردار ادا کیااس کی جینز میں مزاحمت کا جراثیم فطری طور پر شامل نہیں ہے بلکہ اس کی پوری تاریخ تابعداری جی حضوری اور باج گزاری میں گزری ہے آج بھی ان کاکرداردنیا میں سامراجی ایجنٹ کا ہے۔ عالمی دنیا اسے کرایہ کے قاتل کے طور پر جانتی ہے افغانستان کی جنگ میں وہ عالمی طاقتوں کے لئے دہشت گردی کی ایک نرسری کا کردار ادا کرچکاہے پوری دنیا میں پاکستانی ویزے کا معیار انتہائی درجے کی گراوٹ کا شکار ہے کہ ہمارے بلوچ لوگ جب پاکستان کا ویزہ باہر دکھاتے ہیں تو انہیں مشکوک نگاہ سے دیکھاجاتاہے جب تک وہ اپنی پہچان بلوچ کی طور پر نہ کرے۔

ایک پنجابی دانشور احمد سلیم نے اپنے ایک کتاب میں اپنی ہی قوم کے بارے میں لکھتاہے کہ جب میں آس پاس کے قوموں کی تاریخ پڑھتاہوں تو مجھے فخر محسوس ہوتاہے کہ انہوں نے انگریز سمیت تمام نوآبادیاتی طاقتوں کے خلاف جس شاندار انداز میں مزاحمت کرتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں لیکن جب میں اپنے قوم کے تاریخ پڑھتاہوں تو وہ مجھے شرمسار کرتاہے کہ ہمارے قوم کس طرح حملہ آوروں کی باج گزار رہے ہیں وہ آگے لکھتاہے کہ پنجابیوں کی آبادی ہندوستان کی تیس فیصد تھی لیکن انگریز فوج میں ان کی بھرتی کا تناسبی شرح 60 فیصد سے زیادہ تھی وہ آگے لکھتاہے کہ ایسا لگتا تھاکہ انگریز قبضہ کو شکست سے بچانے کے لئے پنجابیوں نے اپنا آخری بچہ بھی انگریز کی جھولی میں ڈال دیئے تھے وہ مزیدلکھتاہے کہ جلیانوانہ باغ میں جو اندوہناک قتل عام کیا گیا اس میں انگریز فوجیوں سے زیادہ پنجابی رنگروٹوں کا کردار اہم تھا۔

میں ان تاریخی حوالوں کا زکر کرتے ہوئے اس کالم کے توسط سے پنجابی گلوکارشہزاد رائے اور اس اسکرپٹ کے لئے اسے مواد فرائم کرنے والی قوتوں کو بتادینا ضروری سمجھتاہوں کہ ذلت اور رسوائی کے اس حشر میں پنجابی ریاست کو بلوچ جدوجہد سے سبق سیکھنا چاہیے ہماری زخموں کو بار بار کرید کر ان کی کسک اور تکلیف کو مزید ازیت ناک نہ بنایاجائے ہمیں لاچارگی اور بے بسی کا تصویر بناکر اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کی ہتکھنڈے استعمال نہ کئے جائیں آج بلوچ قوم کی جدوجہد سوچ ساخت اور شعورہر اول بلند ہے بلوچ قوم نے کشتیاں جلادی ہیں، بلوچ عوام کے شریانوں میں کھولتا ہوا لہوا تمہارے تمام فریب کاریوں اور تدبیروں کو کمزور کردیا ہے۔ جب بلوچ قومی جدوجہدکو تشدد اور طاقت کے زریعہ ختم نہیں کیا جاسکا ریاست اپنی انرجی وسائل اور چین و امریکہ سے ملنے والی اسلحہ جنگی ساز و سامان اپنی دہشت گردانہ فوجی بجٹ تک اس جنگ میں جونکھ کر بلوچ آزادی کے موقف اور جنگ کو کمزور نہیں کرسکا تو اس نام نہاد غیر فطری نغمہ کے زریعہ بلوچ ریاستی دھارے کو کیسے قبول کرسکتاہے؟

جدوجہد آزادی میں اپنی جان مال اور خاندان تک کی قربانی دینے والے بلوچ کے لے اس گانے کی اہمیت ردی کی ٹوکری کی سی ہے حتی کہ بلوچ قوم کے نزدیک معروف بلوچ گلوکا نعیم دلپل بھی اپنے فن اور ضمیر کے سودے کے لین دین میں زاتی مفادات کے گٹر میں گرچکے ہیں بلوچ قوم کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر انہیں شدید تنقید اور رد عمل کا سامناہے وہاں ان کے خلاف بلوچ سیاسی ادبی اورصحافتی محاذپر بھی ایک شدید ردعمل موجود ہے اس کے پس منظر اس کی افادی اور تکنیکی پہلووں میں جو نوآبادیاتی زہنیت کار فرماہے اس سے عام بلوچ سرسری طور پر نہیں بلکہ گہرے شعور کے ساتھ جانکاری رکھتاہے ٹیوٹر اور یوٹیوب پر کمنٹس بکس میں انہیں جس طرح پٹکار کیا جارہاہے اس سے اندازہ لگا یا سکتاہے کہ عام بلوچ یا جن کی ایک اکثریت جو سوشل میڈیا سے لنک ہے کاؤنٹر انسر جنسی کے ان حربوں سے موثر جانکاری رکھتے ہیں جو مجموعی طور ایک مثبت اور امید حاصل سوچ ہے ”واجہ“ گانا جس کے سکرپٹ رائٹنگ ایکشن لائنزتاثرات باڈی لینگویج کرداروں کے مختلف لہجے مجموعی طور پر اس گانے کی تھیم میں جو مجرمانہ پیغام سننے اور دیکھنے کو ملتی ہے وہ ایک اتفاق نہیں بلکہ بلوچ قومی تحریک کےخلاف اس قسم کے پروپیگنڈوں کا ایجنڈا بہت پرانی اور بوسیدہ ہے شہزاد رائے سمیت ساتھ مل کر گانے والے بلوچ گلو کار یہ سمجھتے ہوں گے کہ بلوچ قوم اس گانے کے منظر عام آنے پر ان کی مداح بن جائیں گے یا ان کی تعریف کریں گے یا انہیں واہ واہ کہیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے یا بلوچ اس گانے سے متاثر ہو کر ریاست کے وحشیانہ و حیوانی نظام کو قبول کرکے اپنی تاریخ آزادی اور وطن پر سمجھوتہ کریگا شہزاد رائے اور سکرپٹ کو لکھنے والے مائنڈ سیٹ بلوچ قوم کے تاریخ تہذیبی و ثقافتی و ادبی ورثہ و تعلیمات فکر و نظریات اور شعور کو سمجھنے میں اب تک عجلت سے کام لے رہے ہیں بلوچ قوم کے لے یہ گانے پانی پر پڑے لکیر کی مانند ہے۔


”واجہ“ گانا اور بلوچستان کے زخم

تحریر: رامین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

نوآبادیاتی قوتیں صرف جبر وتشددسے اپنا قبضہ قائم نہیں کرتے بلکہ وہ جبر کے ہروہ زرائع استعمال میں لاتے ہیں جو اس کے تسلط کے لے جواز پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لئے راہ ہموار کرے تاکہ وہ اپنی مصنوعی وجود کو تا دیر زندہ رکھ سکے۔ بلوچستان میں ترقی و انفراسٹکچر اور سبز باغ دکھانے کے تمام منصوبوں کے پیچھے نوآبادیاتی زہنیت کار فرما ہے یہ نوآبادیاتی زہنیت کھبی ایک سمت کام نہیں کرتے بلکہ یہ بلوچ نسل کشی کے ساتھ ساتھ اس کی نفسیات کے ساتھ بھی کھیلتی ہے۔ یہ مختلف شعبوں کو استعمال میں لاکرقومی آزادی کی جدوجہد سے توجہ ہٹانے اور نان ایشوز کو ابھاکر بلوچ قوم کو گمراہ کرنے کی مسلسل کوشش کرتی ہے۔ اپنے نصاب سے لے کر وہ مختلف کرداروں کو استعمال میں لاکر ان سے مرحلہ وار اپنی قبضہ گیرانہ پالیسیوں کے تشہیر کرواتی ہے اس کے دانشور سے لے کر صحافی،تجزیہ کار، گلوکار ادیب سیاسی پارٹیاں مذہبی پیشو اس کے تابعداری میں رہ کر اس کی جھوٹی پروپیگنڈوں کے زریعے غلام قوم کی زہنی و نفسیاتی استحصال میں کوئی خلاء خالی نہیں چھوڑتی۔

حالیہ دنوں میں ایک پنجابی گلوکار شہزاد رائے کا ایک گاناریلیز ہوچکاہے جس کا عنوان”واجہ“ہے جس میں بلوچستان اور بلوچ قوم کو موضوع بنا یاگیاہے، جسے گوادر سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فلمایا گیاہے شہزاد رائے کے ساتھ مل کر اپنا منہ سیاہ کرنے والے بلوچستان کے گلوکار نعیم دلپل شانی حیدر،واسو خان اور رہیسہ رہیسانی بھی شامل ہیں۔ گانے میں بلوچی ساز دمبورہ بینجو کی ساز و آواز بھی شامل کئے گئے ہیں ویڈیو کی شروعات بحر بلوچ سے ہوتی ہے جہاں ایک شخص مشعل اٹھائے چہرہ سمندر کی جانب کرکے کھڑا ہے اور گانے کے اختتام پر غیر فطری ریاست پاکستان کا جھنڈا دکھایاگیاہے۔

گانے کی ابتدا ء ایک خاتون براہوئی زبان میں ان الفاظ سے کرتی ہے کہ(داسہ ننا وخت بسونے) یعنی اب ہمارا وقت آگیاہے گانے کے پر فریب بول مضحکہ خیز حدتک کچھ اس طرح ادا کئے گئے ہیں
دیکھ کے کالی رات ختم، تجھ کو بھٹکانے والے حالات ختم
کیا تیری کیا میری، اس دھرتی کی خاطر ہر ذات ختم
جس بات پے تو ناراض ہے، آج کر دیں وہ بات ختم
امبر کو چھونے چلا میرا بلوچستان
یہ میرا پاکستان ہے، یہ تیرا بلوچستان

گانے کا جو تھیم ہے یا مجموعی طور پر اس کے پیچھے جو زہنیت کام کررہی ہے وہ پنجابی کالونائزر ہے، اس بیانیہ کو لے کر اس گانے کے بول کے لئے جو الفاظ چنے گئے ہیں اس کی تیاری میں جو منظر استعمال کئے گئے ہیں جو اشارہ دیئے گئے جو نعرے ہم سے مخاطب کئے گئے ہیں یاجو سکرپٹ تیار کئے گئے ہیں اختتام میں جوریاستی جھنڈا دکھایا یا گیا ہے یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ آئی ایس پی آر کا دستخطی گاناہے یہ بلوچ قوم کے نفرت غصہ جذبات اور جدوجہدآزادی کے جزئیات کو زائل کرنے اور نوآبادیاتی استحصال کے پیش قدمی میں جو رکاوٹیں حائل ہیں ان کو دور کرنے اور عوام کو گمراہ کرنے کی ایک سوچی سمجھی منصوبہ جاتی نغمہ ہے، یہ زہر کی بوتل پر شہد کا سٹیکر چسپاں کرنے کی مترادف ہے۔

یاد رکھا جائے جب تک غلامی موجود ہے ہمارے لئے ہردن سیاہ اور کالی ہے اس کالی رات کا اختتام آزادی کے سرخ سویرا پر ہوگا۔ جب تک ہماری سرزمین پر قبضہ گیر موجود ہے اس کا استحصال موجود ہے اس کی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ جب تک موت کی بیوپاری پنجابی ساہوکاراور اس کے اتحادی چینی سامراج ہمارے وطن سے اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹاتے اس وقت بلوچ قوم سے وہ خیر سگالی کی توقع نہ کرے بلوچ اب کسی کے فریب میں نہیں آئے گا، بلوچ قوم ماضی کے تلخ تجربات سے بہت کچھ سیکھ کر کندن بن چکاہے۔ وہ پنجابی کالونائزر کی ہر ہنر ہر چال اور ہر فریب سے شعوری طور پر آگاہ ہیں بلوچ قوم کسی پیکج خیرات،مراعات نام نہاد شہری حقوق استحصالی ترقی اور شراکت اقتدار کی کسوٹی پر جدوجہد نہیں کررہابلکہ بلوچ جہد آزادی کا موقف واضح صاف اور سیدھا ہے قومی آزادی کے علاوہ بلوچ قوم کا تیسرا کوئی موقف نہیں۔

شہزاد رائے یہ آپ کے اسلاف کے حصہ میں آیاہے یعنی جب چاہے آپ کو عالمی طاقتیں خرید سکتے ہیں آپ اپنی ضمیر اور ذہن کو کوڑیوں کے بھاؤ میں نیلام کرنے میں دیر نہیں کرتے آپ منافعوں اور کمیشنوں کے لئے اپنی عزت غیرت اور نام نہاد تقدس بیچنے سے گریز نہیں کرتے، پنجابی کالونائزرہمیں حب الوطنی کا سبق نہ سکھائے ہمیں ہمارے وطن گل زمین کے ساتھ محبت ہے گہری محبت ہے اس خاک سے جو ہماری وجود کواپنی امرت دھار سے زندگی بخشتی ہے لیکن ہماری اس محبت کو جبر کے زریعہ دھوکہ کے زریعہ تشدد کے زریعہ حتی کہ اس طرح کے نام نہاد غیر فطری مصنوعی نغموں کے زریعہ کوئی خرید نہیں سکتا۔

جو کوئی بلوچستان کی جمہوری آزادی کی اہمیت و ضرورت کو تسلیم کرتاہے اس نقطہ پر بلوچ ہر اس قوت سے ممکنہ طورپر بات چیت کرسکتاہے لیکن جو بلوچ آزادی کی وجود سے انکاری ہے بلوچ اس سے کسی صورت قریب نہیں آسکتاآزادی کی قیمت ہمارے لئے سب سے اہم ہے آج بلوچ تاریخ کے اس موڑ کو عبور کرتے ہوئے آزادی کے لئے اپنی جان کی قیمت ادا کررہاہے وہ اس گانے سے کیسے فریب کھائے گابلوچستان نہ توآدھا پاکستان ہے نہ تو پورا پاکستان یہ تو الگ خطہ اور جغرافیہ ہے بلوچ اور پنجابی کے درمیاں کوئی قدر مشترک نہیں ہم کسی بھی صورت کسی بھی زاویہ سے لازم و ملزوم نہیں نہ تہذیبی نہ تاریخی صورت میں نہ ہمارے اور پنجابی قبضہ گیر کے درمیان کوئی قومی نسلی لسانی یا ثقافتی رشتہ موجود ہے ا گر بالفرض ایک رشتہ بنتاہے تو قابض اور مقبوضہ کا اس کے سواہمارے اور ان کے درمیان کسی بھی قسم کا تعلق نہیں بن سکتا۔

پنجابی کالونائزر جس کی اپنی کوئی تاریخ نہیں جس کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ ہر حملہ آور کا خیر سگالی کے ساتھ استقبال کرتا آرہا ہے دنیا کے جو بھی فاتح آئے پنجابی کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے ہمیشہ ان کے سامنے ایک جھکنے کا کردار ادا کیااس کی جینز میں مزاحمت کا جراثیم فطری طور پر شامل نہیں ہے بلکہ اس کی پوری تاریخ تابعداری جی حضوری اور باج گزاری میں گزری ہے آج بھی ان کاکرداردنیا میں سامراجی ایجنٹ کا ہے۔ عالمی دنیا اسے کرایہ کے قاتل کے طور پر جانتی ہے افغانستان کی جنگ میں وہ عالمی طاقتوں کے لئے دہشت گردی کی ایک نرسری کا کردار ادا کرچکاہے پوری دنیا میں پاکستانی ویزے کا معیار انتہائی درجے کی گراوٹ کا شکار ہے کہ ہمارے بلوچ لوگ جب پاکستان کا ویزہ باہر دکھاتے ہیں تو انہیں مشکوک نگاہ سے دیکھاجاتاہے جب تک وہ اپنی پہچان بلوچ کی طور پر نہ کرے۔

ایک پنجابی دانشور احمد سلیم نے اپنے ایک کتاب میں اپنی ہی قوم کے بارے میں لکھتاہے کہ جب میں آس پاس کے قوموں کی تاریخ پڑھتاہوں تو مجھے فخر محسوس ہوتاہے کہ انہوں نے انگریز سمیت تمام نوآبادیاتی طاقتوں کے خلاف جس شاندار انداز میں مزاحمت کرتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں لیکن جب میں اپنے قوم کے تاریخ پڑھتاہوں تو وہ مجھے شرمسار کرتاہے کہ ہمارے قوم کس طرح حملہ آوروں کی باج گزار رہے ہیں وہ آگے لکھتاہے کہ پنجابیوں کی آبادی ہندوستان کی تیس فیصد تھی لیکن انگریز فوج میں ان کی بھرتی کا تناسبی شرح 60 فیصد سے زیادہ تھی وہ آگے لکھتاہے کہ ایسا لگتا تھاکہ انگریز قبضہ کو شکست سے بچانے کے لئے پنجابیوں نے اپنا آخری بچہ بھی انگریز کی جھولی میں ڈال دیئے تھے وہ مزیدلکھتاہے کہ جلیانوانہ باغ میں جو اندوہناک قتل عام کیا گیا اس میں انگریز فوجیوں سے زیادہ پنجابی رنگروٹوں کا کردار اہم تھا۔

میں ان تاریخی حوالوں کا زکر کرتے ہوئے اس کالم کے توسط سے پنجابی گلوکارشہزاد رائے اور اس اسکرپٹ کے لئے اسے مواد فرائم کرنے والی قوتوں کو بتادینا ضروری سمجھتاہوں کہ ذلت اور رسوائی کے اس حشر میں پنجابی ریاست کو بلوچ جدوجہد سے سبق سیکھنا چاہیے ہماری زخموں کو بار بار کرید کر ان کی کسک اور تکلیف کو مزید ازیت ناک نہ بنایاجائے ہمیں لاچارگی اور بے بسی کا تصویر بناکر اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کی ہتکھنڈے استعمال نہ کئے جائیں آج بلوچ قوم کی جدوجہد سوچ ساخت اور شعورہر اول بلند ہے بلوچ قوم نے کشتیاں جلادی ہیں، بلوچ عوام کے شریانوں میں کھولتا ہوا لہوا تمہارے تمام فریب کاریوں اور تدبیروں کو کمزور کردیا ہے۔ جب بلوچ قومی جدوجہدکو تشدد اور طاقت کے زریعہ ختم نہیں کیا جاسکا ریاست اپنی انرجی وسائل اور چین و امریکہ سے ملنے والی اسلحہ جنگی ساز و سامان اپنی دہشت گردانہ فوجی بجٹ تک اس جنگ میں جونکھ کر بلوچ آزادی کے موقف اور جنگ کو کمزور نہیں کرسکا تو اس نام نہاد غیر فطری نغمہ کے زریعہ بلوچ ریاستی دھارے کو کیسے قبول کرسکتاہے؟

جدوجہد آزادی میں اپنی جان مال اور خاندان تک کی قربانی دینے والے بلوچ کے لے اس گانے کی اہمیت ردی کی ٹوکری کی سی ہے حتی کہ بلوچ قوم کے نزدیک معروف بلوچ گلوکا نعیم دلپل بھی اپنے فن اور ضمیر کے سودے کے لین دین میں زاتی مفادات کے گٹر میں گرچکے ہیں بلوچ قوم کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر انہیں شدید تنقید اور رد عمل کا سامناہے وہاں ان کے خلاف بلوچ سیاسی ادبی اورصحافتی محاذپر بھی ایک شدید ردعمل موجود ہے اس کے پس منظر اس کی افادی اور تکنیکی پہلووں میں جو نوآبادیاتی زہنیت کار فرماہے اس سے عام بلوچ سرسری طور پر نہیں بلکہ گہرے شعور کے ساتھ جانکاری رکھتاہے ٹیوٹر اور یوٹیوب پر کمنٹس بکس میں انہیں جس طرح پٹکار کیا جارہاہے اس سے اندازہ لگا یا سکتاہے کہ عام بلوچ یا جن کی ایک اکثریت جو سوشل میڈیا سے لنک ہے کاؤنٹر انسر جنسی کے ان حربوں سے موثر جانکاری رکھتے ہیں جو مجموعی طور ایک مثبت اور امید حاصل سوچ ہے ”واجہ“ گانا جس کے سکرپٹ رائٹنگ ایکشن لائنزتاثرات باڈی لینگویج کرداروں کے مختلف لہجے مجموعی طور پر اس گانے کی تھیم میں جو مجرمانہ پیغام سننے اور دیکھنے کو ملتی ہے وہ ایک اتفاق نہیں بلکہ بلوچ قومی تحریک کےخلاف اس قسم کے پروپیگنڈوں کا ایجنڈا بہت پرانی اور بوسیدہ ہے شہزاد رائے سمیت ساتھ مل کر گانے والے بلوچ گلو کار یہ سمجھتے ہوں گے کہ بلوچ قوم اس گانے کے منظر عام آنے پر ان کی مداح بن جائیں گے یا ان کی تعریف کریں گے یا انہیں واہ واہ کہیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے یا بلوچ اس گانے سے متاثر ہو کر ریاست کے وحشیانہ و حیوانی نظام کو قبول کرکے اپنی تاریخ آزادی اور وطن پر سمجھوتہ کریگا شہزاد رائے اور سکرپٹ کو لکھنے والے مائنڈ سیٹ بلوچ قوم کے تاریخ تہذیبی و ثقافتی و ادبی ورثہ و تعلیمات فکر و نظریات اور شعور کو سمجھنے میں اب تک عجلت سے کام لے رہے ہیں بلوچ قوم کے لے یہ گانے پانی پر پڑے لکیر کی مانند ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں