ننھے احتجاجی – یوسف بلوچ

243

ننھے احتجاجی

تحریر: یوسف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شاہراؤں کے اوپر کیا مزاحمت درج ہے۔ مسکراتی آنکھوں کو نم ہوتے ہوئے دیکھ کر کون چیخ اٹھے، جو آنکھوں کی آشنائی، دل کے سکون تھے۔ اٹھا لیے گئے۔ بیٹا، جو اپنی جنّت کو جبری لاپتہ ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ ننگے پاؤں گھسیٹے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ بلوچ ماں کا دوپٹّہ گِرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔

شاہ فیصل کی ماں لاپتہ اور شاہ فیصل ہوشاپ کی شاہراہِ سی پیک پر دو دنوں سے دھوپ کا مہمان۔ فیصل یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ سی پیک سے خوشحال ہوشاپ غمزدہ ہے۔

شاہ فیصل کے کھیلنے کے دن،کم عمر شہزادوں کے ساتھ بچپن کی یادیں حافظے میں محفوظ کرنے کے دن، شاہ فیصل کے حافظے میں ایک ماں کے ساتھ وحشت کو محفوظ کر رہے ہیں۔ شاہ! نورجان کے ساتھ کی گئی عمل کو آپ کب بھول پائیں میں نہیں جانتا مگر شاید آپ نورجان کی بازیابی کے لیئے شاہراہِ ہوشاپ کو اپنے سیاسی ٹھکانہ بنائیں وہ ٹھکانہ جو آپ کو بچپن سے دور کر رہا ہے۔ قائدے کی غین غبارے سے دور کر رہا ہے شاید آپ کو سیاسی تربیت دے رہا ہے۔ حقوق کے لیے لڑنا سکھا رہا ہے۔ مستقبل کے لیے مزاحمت کا درس دے رہا ہے۔
شاہ کبھی اکیلے میں بیٹھ کر یہ گِلہ نہیں کرنا کہ میں کیوں؟ ہوشاپ کے کم عمر شہزادوں سے یہ گِلہ بھی نہیں کرنا کہ میری ماں کیوں لاپتہ ہے؟

شاہ ماں سانجھی ہوتی ہیں۔ آپ کا کرب ہر بلوچ کے دل میں ہے۔شاید آج آپ نہ سمجھیں،کل آپ کو علم ہوگا کہ نورجان بلوچ تھا اور نورجان کی بازیابی کے لیے بلوچ پُر احتجاج تھے۔

شاہ! شاید تمھیں آج علی حیدر یاد نہ ہو۔ کل ضرور پتہ ہوگا۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ محمد رمضان کی پیار، باپ کی بازیابی کے لیے مزاحمت علی حیدر کو کراچی،کوئٹہ سے اسلام آباد لے گیا۔ دو ہزار پانچ سو کلومیٹر طویل مسافت کا مسافر بنا ڈالا۔ موہن داس کرم چند گاندھی کا ریکارڈ توڑنے پر مجبور کر ڈالا۔

علی حیدر بھی تو اسکول کے بجائے مزاحمت کے شاہراؤں پر چل پڑے تھے اور چلتے رہے۔

شاہ نرگس اور فیاض کی اکلوتا بچا آپ نے دیکھا ہے؟ وہ جو کوئٹہ پریس کلب،چوراہے پر ماں کی گود میں بیٹھ کر فیاض کے لیے مزاحمت کر رہا ہے۔ وہ جو نو ماہ کا شیر خوار بلوچ ہے۔ شاید نرگس اور فیاض کو نہیں جانتے پر اماں،ابّا جانتا ہے۔کبھی ملے تو شاباش کہنا،آپ کی طرح مزاحمت کر رہا ہے۔

فضل بلوچ کے شاہ فیصل! آپ کو پتہ ہے کہ تعلیم کتنے بلوچ طلبا کو لاپتہ کر چکا ہے۔ کتنے بلوچ طلبا کو اسلام آباد کی پریس کلب کے سامنے تشدد کا نشانہ بنوایا، لاہور کی لبرٹی چوک میں بلوچ طلبا کی آواز آپ نے سنی ہے۔ سرگودھا،ملتان،فیصل آباد،کراچی،کوئٹہ اور تربت کے فدا چوک پر بلوچ طلبا کو بازیابی کے نعرے، ہراسگی بند کریں، ہم پڑھنا چاہتے ہیں کہ نعرے کہتے ہوئے دیکھا ہے۔

اگر ہاں تو سوچنا کہ بلوچ طلبا یونیورسٹی کے بجائے زندان کی کوٹھڑی اور باقی طلبا اسلام آباد پریس کلب میں۔

شاہ کبھی پریشان نہ ہونا کیونکہ آپ کا ہر طبقہ،آپ کی طرح مزاحمت کر رہا ہے۔ رمضان کے لیے علی حیدر اور فیاض کے لیے نومولود بچہ بھی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں