میرا روحانی اُستاد اور معلم خادم حسین بلوچ
تحریر: ڈاکٹر شکیل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج میں ایک ایسے عظیم شخصیت کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں، جس نے مجھے اُٹھنے بیٹھنے اور اپنے پاؤں پر چلنے کے گُر سکھائے۔ میں کچھ بول نہیں سکتا تھا جس نے مجھے بولنے کے سلیقے سکھائے، شاید میرے قلم میں یہ قوت و طاقت اور میرے زہن میں ایسے الفاظ کا زخیرہ موجود نہ ہو کہ میں اس عظیم استاد اور معلم کی شخصیت کو الفاظ کے سانچے میں ڈالکر انہیں تحریر کرسکوں۔ میری دنیا میں آپ ایک ایسا معلم اور استاد ہیں جو شاید کسی خوش نصیب انسان کو آپ جیسے عظیم شخصیت کی تربیت اور رہنمائی حاصل ہو۔ میں آج خود کو ایک خوش نصیب انسان سمجھ کر فخر محسوس کرتا ہوں کہ میری تعلیم اور تربیت آپ جیسے عظیم اُستاد کے سایہ شفقت میں ہوئی ہے۔
آج میں ہر شعبہ زندگی میں قدم رکھتا ہوں تو آپ کی نصیحت اور دی ہوئی تربیت قدم قدم پر میری رہنمائی کرتی ہے۔ ایک اُستاد کے بغیر تعلیمی ادارہ محض خالی کمروں کے علاوہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا، اور ماں باپ کے علاوہ گھر قبرستان ہے۔
چونکہ اُستاد کسی خاص شعبے میں آپ کو تعلیم سکھاتی ہے، اور معلم ایک شاگرد کو تعلیمی، سماجی اور طرز معاشرت کے علوم سکھاتی اور انکو تربیت دیتی ہے۔
لیکن آپ وہ عظیم اُستاد اور مُعلّم ہیں جس نے میری علمی، روحانی، اخلاقی اور فکری تربیت کی ہے، چاہے وہ پرائمری کا درجہ ہو یا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تعلیم یافتہ، آپ نے بچپن سے لیکر آج تک میری ہر قدم پر رہنمائی کی ہے۔ خاص طور پر آزمائش اور امتحانات کے دوران آپ کی حوصلہ کن نصیحت اور رہنمائی نے مجھے جوش وجذبے کے ساتھ کامیابی کے راستے پر چلنے کی قوت بخشی ہے۔
آپ کی حوصلہ کن باتیں مجھے کبھی اپنے مقصد اور منزل تک جانے کیلئے ہٹنے نہیں دیتی کیونکہ جب بھی میں آپ کے مجلس میں بیٹھا ہوں تو انہوں نے میری بے انتہا حوصلہ افزائی کی ہے۔ آپ نے میری زندگی میں نکھار پیدا کرکے ایک خوبصورت اور حسین راستے کا انتخاب کرنے میں رہنمائی کی ہے۔
ویسے جب فارغ اوقات اپنے آبائی گاؤں ماشی میں اپنے کزن اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ کبھی آپ کے قیمتی مجالس میں بیٹھتے اور انکی باتیں سنتے، دوران گفتگو جب کوئی کارکردگی سرانجام دینے کیلئے موضوع زیر بحث آتی تو آپ اپنی توجہ میری طرف مرکوز کرتے ہوئے یہ بیان فرماتے کہ ” یہ کام شکیل جوہر بہتر انداز میں سر انجام دے سکتا ہے کیونکہ ان میں ایسے جوہر پائے جاتے ہیں”۔ حالانکہ آپ کے دیوان میں ہمارے دوسرے چچازاد بھائی اور رشتہ دار موجود ہوا کرتے تھے لیکن آپ نے مجھے کافی عزت اور احترام دے کر میری حوصلہ افزائی کی ہے۔
میرے والد صاحب اور میرا روحانی اُستاد خادم حسین بلوچ اکثر مجھے “جوہر” کہا کرتے تھے۔ آپ کی حوصلہ افزا باتوں نے میرے اندر انتہائی ہمّت اور جزبہ پیدا کیا، وہ کام جو میرے لئے ناممکن تھے لیکن اس عظیم شخصیت کی تربیت اور حوصلہ کن باتوں نے میرے اندر جدوجہد کرنے کا احساس اور جزبہ پیدا کیا۔
واجہ خادم حسین صاحب ایک متاثر کن شخصیت کے مالک ہیں، آپ کو اپنے گاؤں ماشی نہیں بلکہ آواران کے بیشتر علاقوں میں لوگ عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، آپ کی خاموش مزاجی، راست گوئی اور خوش اخلاقی سے لوگ انتہائی متاثر ہیں۔
آپ کی خاموش مزاجی میں اپنے شاگردوں کیلئے ایک ڈر و خوف پوشیدہ ہے، وہ خوف جو کسی بُرائی کے خلاف انسان کو روکے، وہ ڈر جو کسی غلط کام سر زد ہونے سے روکے۔ یعنی آپ کے گراں لہجے میں شاگردوں کیلئے ایسی تربیت پنہاں ہے کہ وہ انہیں کبھی غلط کام سر زد ہونے نہیں دیتی۔
بچپن میں گاؤں میں شادی اور دیگر تقاریب میں آپ نے مجھ سمیت ہمارے دیگر چچا زاد بھائیوں اور رشتہ داروں کو جانے کی ہر گز اجازت نہیں دیتے، اُس وقت ہم بہت پریشان رہتے کیونکہ ہمارے گاؤں کے دوسرے دوستوں پر پابندی نہیں تھی اس کیفیت کو دیکھ کر ہم سارے کزن اور رشتہ دار خود کو پابند سلاسل سمجھتے، چونکہ ہمارا خاندان الحمدللّہ بڑا ہے، ہم ایک بڑے چاردیواری میں رہتے ہیں، کسی اور جگہ جانے کی ضرورت بھی نہیں تھی ہمارے خاندان کا اپنا ایک فٹبال ٹیم تھا ہم گھر کے قریب و جوار کھیلتے تھے۔ لیکن آج ہمیں احساس ہے کہ آپ کی گراں لہجے اور خاموش مزاجی نے ہمیں ایک انسان بنایا۔
جب ہم پرائمری سکول ماشی میں پڑھ رہے تھے تو اسکول میں چھٹی کے بعد آپ روزانہ ہمارے ہوم ورک کی نگرانی کرتے تھے، جن میں لکڑی کے تختی پر خوش خطی لکھنے، اسکول میں ٹیچرز کے سوالات لکھنے اور سبق یاد کرنے میں آپ ہم پر انتہائی زور دیتے، اسکول میں اکثر طالب علم کوتاہی کرکے تختی پر پِنسل کے لگائے گئے کاٹ کوٹ کو مٹاتے تھے دوبارہ تختی کو صاف کرنے اور لکھنے کی زحمت نہیں کرتے، لیکن ہم چاہتے ہوئے بھی یہ غلطی ہر گز نہیں کرسکتے ہمیں ڈر تھا کہ اگر یہ بات آپ تک پہنچی تو ہماری خیر نہیں ہوگی۔
پرائمری کے بعد جب میں ماڈل ہائی سکول آواران نیابت میں داخل ہوا تو آپ ہمارے دیگر کزن کو موٹر سائیکل کے پچھلے زین پر بٹھاتے اور مجھے آگے بٹھاکر اپنے ساتھ اسکول لے جاتے، لوگ حیران تھے کہ چھٹی جماعت کا طالب علم ایک بچّے کی طرح موٹر سائیکل کے آگے بیٹھا ہوا ہے۔ یہ آپ کی شفقت اور محبت تھی جو مجھ جیسے ناچیز کو ہمت اور حوصلہ بخشا۔
میں نے آپ کی شخصیت سے کافی تربیت حاصل کی ہے، بردباری، خوش اخلاقی، حوصلہ اور ہر وہ کام جو بظاہر ناممکن ظاہر ہو، انکو ہمت کے ساتھ سرانجام دینے کی ہمت، آج میں جس شعبے میں قدم رکھتا ہوں تو یقینََا آپ کی رہنمائی ہر قدم مجھے حوصلہ فراہم کرتا ہے۔
آپ کی شخصیت کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا، کیونکہ ان میں وہ ساری خوبیاں پائے جاتے ہیں جو ایک عام انسان میں موجود نہیں، میں ایک نامعلوم شاعر کے شعر کو لکھتے ہوئے اپنے تحریر کا اختتام کرتا ہوں۔
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں