منی واجہ شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ
تحریر: قاضی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ اپنے شہیدوں اور محسنوں کو کبھی بھی نہیں بھولتی، بلوچ قوم کے محسن وہ ہیں جو بلوچوں کی بقاء کی خاطر بلوچ قوم کے آنے والے اچھے دنوں اور خوشحالی کی خاطر سالوں سے دشمن کے اذیت گاہوں میں اذیت سہہ رہے ہیں۔ بلوچوں کے محسن وہ ہیں جو سردی گرمی بھوک پیاس اور تکلیف میں بھی اپنے مادر سرزمین کو اغیار کے یلغار سے بچانے کے لیئے اپنی مادر سرزمین کی آزادی کے لیئے اپنے جان اپنے گھر والوں کی پرواہ کیئے بغیر بندوق ہاتھ میں لیئے بلوچ سرزمین کے کونے کونے میں اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بلوچ قوم کے محسن وہ سیاسی جہد کار ہیں جو آج بلوچستان اور بیرونی ملکوں میں بلوچ سرزمین کے مسئلے کو اجاگر کر رہے ہیں، بلوچ قوم سلام پیش کرتی ہے اپنے ان محسنوں کو، بلوچ سرزمین کے لیئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو قیامت تک خراجِ عقیدت اور سلام پیش کرتے رہینگے۔
بلوچ جہد آزادی کے لیئے قربانی دینے والے بلوچ سرزمین کے عظیم بیٹے ہیں، وہ دشمن کے اذیت گاہوں میں ہوں یا بندوق ہاتھ میں لیئے پہاڑوں میں ہوں یا اپنے گھروں اور اپنے سرزمین سے دور تحریک آزادی کو آگے لے جانے والوں میں ہوں یا جسمانی لحاظ سے ہم سے جدا ہوگئے ہوں، بلوچ قوم اپنے ان جہد کاروں کو کبھی بھی نہیں بھول سکتا ، شہدائے مرغاپ شہید واجہ چیرمین غلام محمد بلوچ ، شہید واجہ لالہ منیر بلوچ ، شہید واجہ شیر محمد بلوچ پانچویں بلوچ تحریک آزادی کے وہ رہنما اور پیغمبر تھے جنہوں نے تحریک آزادی کے لیئے اپنے شب و روزِ ایک کر دیئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیئے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے ہمارے انہی شہداء اور دوستوں کے محنت اور جد و جہد کے بدولت بلوچ تحریک آزادی ہر بلوچ گھر تک پہنچ گیا تھا۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کا قیام 2004 میں ہوا جب شہید واجہ غلام محمد اور اس کے نظریاتی دوستوں نے نیشنل پارٹی سے اختلاف رکھتے ہوئے علیحدہ کونسل سیشن منعقد کیا اور بی این ایم کا بنیاد رکھا بی این ایم کے بنتے ہی اسے ریاستی کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا بی این ایم کے مرکزی فنانس سیکرٹری حاجی نصیر اور سی سی ممبر فضل بگٹی خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہوگئے۔ مرکزی سیکرٹری جنرل رحیم ایڈوکیٹ، مرکزی سینئر جوائنٹ سیکرٹری انور ایڈووکیٹ کے گھروں پر چھاپے پڑے مرکزی صدر شہید واجہ غلام محمد اور مرکزی سینئر نائب صدر شہید واجہ لالہ منیر پر جھوٹے بے بنیاد کیس بنائے گئے بعد میں سی سی ممبر شہید رحمت اللہ شوہاز اور ماسٹر ستار بھی خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہوگئے۔ بی این ایم اور اس کے قیادت کے خلاف جھوٹے پروپگنڈوں کا محاذ شروع ہوا کہ یہ ایجنسیوں کے لوگ ہیں یہ بلوچوں کو مروانا چاہتے ہیں۔
نیشنل پارٹی جو مکران میں چند سیٹوں کے لیئے خفیہ اداروں کے پے رول پر چل رہی تھی انہوں نے بلوچستان کی زمین بی این ایم کے دوستوں کے لیئے تنگ کیا ہوا تھا تو بی این ایم کے قیادت نے یہ فیصلہ کیا ہمیں کراچی کو اپنا بیس بنانا ہے کراچی انٹرنیشنل شہر ہے جہاں عالمی میڈیا کے سامنے ہم اپنے لاپتہ دوستوں کا کیس لڑ سکتے ہیں اور بلوچ تحریک آزادی کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دے سکتے ہیں۔
جب شہید واجہ کراچی آئے تو اُن کے ہمراہ تاج بلوچ تھے شہید واجہ لالہ منیر پہلے سے کراچی میں موجود تھا، کراچی میں شہید واجہ کے دیرینہ ساتھی اور دوست شہید واجہ شیر محمد تھے واجہ یوسف نسکندی، وہاب بلوچ، شہید واجہ نثار بلوچ لیاری سے شہید حاجی رزاق اور بہت سارے دوست تھے جنکا نام لینا میں مناسب نہیں سمجھتا۔ یہاں میں بی این ایم کے ان دوستوں اور جہد کاروں کا ذکر کرونگا جنہوں نے مادر سرزمین کے لیئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور ان دوستوں کا ذکر کرونگا جو آج دوسرے ملکوں میں اپنے اس فرض کو سر انجام دے رہے ہیں۔ جنہوں نے یہ سفر شہید واجہ کے ساتھ شروع کیا تھا اور آج تک اسی منزل کے مسافر ہیں۔
ملیر سے شہید محمد رند ، شبیر نور، حکیم واڈیلہ ، محمد علی زیب یہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے دوست تھے لیکن بلوچ جہد آزادی میں شہید واجہ کے شانہ بشانہ تھے شبیر نور اور حکیم واڈیلہ پھر بی این ایم میں شامل ہوئے کراچی سینٹرل سے شہید امین، شہید فرہاد ، شہید وڈیرہ شکیل اور بھی بی ایس او آزاد بی این ایم اور تنظیموں کے بھی جہد کار اور ہمدرد تھے۔ انہوں نے شہید واجہ کے ساتھ مل کر بلوچ جہد آزادی کے پروگرام کو ہر بلوچ علاقوں اور گھروں تک پہنچایا کراچی میں جب بی این ایم منظم ہوا تو گوادر ، پسنی ، خضدار ، کوئٹہ اور حب چوکی میں بھی وہاں کے دوستوں نے اپنی شب و روزِ محنت سے تنظیم سازی کی نیشنل پارٹی اور پیٹ پرست سیاستدانوں کو یہ توقع نہیں تھا کہ بی این ایم اور شہید واجہ اتنے کم وقت میں لوگوں میں مقبول ہونگے۔
کراچی میں شہید واجہ اور دوستوں کی محنت اور کوششوں سے جس میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، بلوچ رائٹس کونسل، بلوچ یونٹی کانفرنس کے دوست تھے، جب سیمینار کارنر میٹنگ احتجاجی مظاہرے اور جلسے ہونے لگے جس میں میں بلوچ کثیر تعداد میں شرکت کرتے تھے اور شہید واجہ کے باتوں کو بہت غور اور تحمل سے سنتے تھے اس وقت فیس بک یا اور کوئی ذرائع نہیں تھے کہ ان باتوں کو آگے شئر کرسکتے لیکن اس پر ہمارے دوست اور بی این ایم کے جہد کار قاضی داد ریحان نے کچھ کام کیا تھا، جس میں شہید واجہ کے ہر تقریر لیکچرز اور انٹرویوں کو محفوظ کر سکے اسی طرح شہید واجہ کی بہت ساری باتیں اور بہت ساری یادیں ہیں جو میرے دل و دماغ میں محفوظ ہیں۔ میں ان باتوں کو زبانی دوستوں کے محفلوں مِیں کرتا رہتا ہوں آج تحریری طور پر دوستوں کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ شہید واجہ پر بلوچ قوم کو کتنا یقین کتنی محبت اور کتنا عقیدت تھا۔
رواں اپریل کے شروع میں میرا ایک دوست جو خضدار کا رہائشی ہے جس سے میں تقریباً 13 سالوں کے بعد ملاقات ہوئی تو وہ مجھے شہید واجہ کا خضدار کے دورے کے بارے میں بتا رھا تھا چونکہ شہید واجہ اور انکے ہمراہ دیگر دوست خضدار میں اسی دوست کے بیٹھک میں قیام پذیر تھے خضدار میں بلوچ نیشنل فرنٹ کے دوستوں نے جلسہ عام کا اعلان کیا تھا اور خضدار میں بی این ایم کا سینٹرل کمیٹی کا میٹنگ بھی تھا میں خود بھی بی این ایم کا سی سی ممبر تھا اس وقت میں اپنے فیملی کے ایک شادی میں دبئی جا رہا تھا ہمارے دبئی کے ٹکٹ تھے میں نے کراچی سے خضدار کے لیئے شہید واجہ غلام محمد شہید واجہ لالہ منیر مرکزی انفارمیشن سیکرٹری سنگت قاضی داد ریحان اور بی این ایم کے ایک جہد کار عرفی میر جان کے ٹکٹ بک کئے ہمارا یہ خضدار والا دوست جو میرا اور عرفی میر جان کا دوست تھا یہ بھی اس بس میں خضدار جا رھا تھا ہمارا دوست ایک کاروباری شخص اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا، اس کا سیاست سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا ہمارے اس دوست نے نہ کبھی شہید واجہ کو دیکھا تھا صرف لوگوں کے زبانی سنا تھا کوئی غلام محمد ہے جو بلوچستان کی آزادی چاہتا ہے۔ میرا یہ دوست کہتا ہے جب ہم خضدار کے قریب پہنچے تو شہید غلام محمد اور دوستوں نے خضدار کے دوستوں سے رابطہ کرنا چاہا تو کسی کا نمبر بند جا رہا تھا توکوئی فون ریسیو نہیں کر رہا تھا میرا دوست کہتا ہے ہم خضدار پہنچے تو میں شہید واجہ اور دوستوں کو اپنے گھر لے گیا صبح معلوم ہوا کہ فورسز نے خضدار میں کریک ڈاؤن کر رکھا ہے وہ دن خضدار کے دوستوں پر بہت بھاری تھا فورسز اور انتظامیہ جلسہ ہونے نہیں دے رہا تھا۔ فورسز نے اسٹیج توڑ کر جلسہ گاہ کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا بی ایس او اور بی این ایم کے دوستوں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا تھا۔
اُس وقت خضدار میں جو کچھ ہوا تھا ہمارے دوست جس کے گھر میں شہید واجہ اور دوست موجود تھے، وہ بتا رہا تھا شہید غلام محمد سے مل کر اس کی باتیں سن کر مجھے بلوچستان اور بلوچ قوم کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا تھا میرا یہ دوست کہہ رہا تھا جب فورسز یہ سب کچھ کر رہا تھا تو خضدار کے زیادہ تر لوگ خوفزدہ تھے کہ آگے کیا ہوگا لیکن شہید غلام محمد اور اس کے دوست پر امید تھے اپنے مقصد اور پروگرام پر ڈٹے ھوئے تھے نہ ان کو اپنے گرفتاری کا خوف تھا نہ موت کا میرا دوست بیان کرتا ہے کہ میرے زندگی کے یہ دو دن بہت اہم تھے شہید غلام محمد اور اسکے دوست میرے مہمان تھے۔ میں ان کے قریب بیٹھا ہوا ان کی باتیں سن رھا تھا وہ کہتا ہے شہید غلام محمد جو باتیں ہم سے کر رہا تھا ایک دن مرنا تو سب کو ہوتا ہے لیکن مرو بھی تو اپنے حق کے لیئے لڑتے ہوئے عزت کی موت مرو تاکہ تمہارے مرنے کے بعد بھی لوگ تمہیں یاد رکھیں اپنے اس دوست کی باتیں سنتے ھوئے مجھے شہید واجہ کی وہ بات جو وہ اکثر کرتے رہتے تھے “مرد پہ نام ءَ مریت نا مرد پہ نان ءَ”، اور اسی طرح بہت سارے تنظیمی دورے اور سفر ھوتے تھے جس میں میں شہید واجہ کے ساتھ ھوتا تھا میں نے یہ دیکھا ہے جہاں بھی جلسہ ھوتا تھا لوگ بہت بڑی تعداد میں آتے تھے اس علاقے کے لوگ یہی کہتے تھے اس علاقے میں ہم نے اس سے پہلے اتنا بڑا جلسہ اتنے تعداد میں لوگ نہیں دیکھے ہیں۔
وہ کراچی ہو گوادر ہو پسنی ہو بلیدہ ہو پنجگور ہو یا نوشکی ہو ہر جگہ لوگ جوق در جوق آتے تھے شہید واجہ کو سنتے تھے ان کو شہید واجہ سے پیار تھا عقیدت تھی کیونکہ شہید واجہ نے ان کو شعور دیا آگہی دی بلوچ سرزمین کی اہمیت کو ان پر ظاہر کیا ان کو آنے والے اچھے دنوں کی نوید دیا شہید واجہ ہر کسی سے بہت محبت اور خلوص سے ملتے تھے۔
شہید واجہ غلام محمد پر بلوچ قوم حتیٰ کہ بلوچ مزاحمتی قوتوں کی قیادت بھی حد سے زیادہ یقین اور بھروسہ کرتے تھے ایک دن شہید ڈاکٹر منان شہید امین بادشاہ چیئرمین خلیل اور میں بیٹھے ھوئے تھے بلوچ بار کے صدر ایڈوکیٹ صادق رئیسانی کا چیرمین خلیل کو فون آیا انہوں نے چیرمین خلیل سے کہا کچھ دوستوں کو کام ہے وہ کراچی کے قریب ہیں آپ لوگ ان کے لیئے کچھ کر سکتے ہو، چیرمین خلیل نے کہا آنے دو اللہ مالک ہے دیکھتے ہیں کچھ کرینگے پھر چیرمین خلیل نے ایڈووکیٹ صادق رئیسانی سے ان کا نمبر لے کر ان کو آنے کا کہا وہ دوست آگئے اس وقت ہمیں معلوم نہیں تھا یہ کون ہیں، بعد میں معلوم ھوا یہ شہید واجہ ایڈووکیٹ امیر بخش لانگو اس کے ساتھ اس کا چھوٹا بھائی شہید مجید ثانی ایک اور بلوچ جہد کار تھا۔ سب سے پہلے ان کے جو مسئلے تھے وہ حل کیئے تو شہید واجہ امیر بخش جس کو شہادت کے بعد سگار بلوچ کا لقب دیا گیا اس نے کسی کو فون کرکے کہا ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے ہیں، ہمارے تمام کام بھی ہوگئے تو سامنے والے دوست نے شاید پوچھا ھوگا تو اس نے کہا ہم بلکل ٹھیک ہیں جی ایم کے دوستوں کے پاس ہیں۔ یہ تھا ہمارے قائد ہمارے رہبر شہید واجہ غلام محمد کا کردار اس پر لوگ یقین کرتے تھے اس کی وجہِ سے اس کے دوستوں اور بی این ایم کے جہد کاروں پر بھروسہ کرتے تھے۔
اس طرح ہمارا شہید سگار سے تعلق بن گیا پھر میں نے شہید واجہ کو بتایا وہ بھی آگئے پھر شہید واجہ اور شہید سگار ہر روز گھنٹوں تک اکیلے میں بلوچ جہد بلوچ سرزمین اور آگے کے لائحہ عمل پر بات کرتے تھے شہید سگار تقریباً 14 سے 15 دن تک ہمارے پاس تھے ان کے مسئلے بھی حل ھو گئے تھے اور وہ ہمارے اور شہید واجہ کے رابطے میں تھے ، ایک دن شہید واجہ نے مجھے کہا آپ قلات میں فلاں دوست سے آغا محمود جان کا نمبر لے لو ہمیں سفر پر جانا ہے میں نے قلات میں بی این ایم کے ایک جہد کار جس کے ذریعے ہم ایک مرتبہ پہلے بھی شہید آغا محمود جان سے ملے تھے جب ہم شہید واجہ کے ساتھ نوشکی جا رھے تھے، جس میں بی این ایم کے اسیر رہنما ڈاکٹر دین محمد ڈاکٹر کے بی اور کچھ دوست بھی تھے اس سفر کے بارے میں پھر کسی وقت لکھونگا تو میں نے قلات والے دوست کو فون کرکے کہا آپ مجھے آغا محمود جان کا نمبر سینڈ کرو واجہ چئرمین اس سے بات کرنا چاہتا ہے،تھوڑی دیر کے بعد ایک فون آیا میں نے فون ریسیو کیا تو وہ شہید آغا محمود جان تھے اس نے کہا میں آغا محمود بات کررہا ہوں جی ایم سے بات کرنا ہے، یہاں میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں ہمارے مکران کے دوست شہید واجہ کو چئرمین کہہ کر پکارتے تھے اور ہمارے کوئٹہ اور اس طرف کے دوست شہید واجہ کو جی ایم کے نام سے پکارتے تھے، بلوچ رہنما شہید واجہ بالاچ مری بھی شہید واجہ کو جی ایم کے نام سے مخاطب کرتے تھے تو میں نے فون شہید واجہ کو دیا حال و احوال کے بعد شہید واجہ نے شہید آغا جان سے کہا ہم دو دن کے بعد آپ کی طرف آئینگے اور وہاں سے ہمیں آگے کی طرف سفر میں جانا ہے اور پھر شہید سگار کو فون کرکے کہا ہم دو دن کے بعد قلات آئینگے آغا محمود کے پاس اس نے کہا آپ صحیح جگہ پر آرہے ہو میں اس سے کہونگا وہ آگے خود آپ کو لے آئیگا جس دن ہم جا رہے تھے تو میں نے شہید آغا جان کو فون کرکے کہا ہم آج رات کو آپکی طرف آرہے ہیں، اس نے کہا آپ کا اپنا سواری ہے میں نے کہا نہیں ہم کوئٹہ والے کوچ میں آرہے ہیں اس نے کہا ٹھیک ہے جب قلات نزدیک ہو تو مجھے فون کرنا اور کوچ والے سے کہو ہمیں فلاں جگہ پر اتارے خیر ہم صبح 3 سے 4 بجے کے درمیان قلات پہنچے تو شہید آغا جان اور بی این ایم قلات کا ایک دوست ہمیں لینے آئے تھے۔
شہید آغا جان ہمیں اپنے مہمان خانے میں لے آئے پھر صبح تک حال و احوال گپ شپ ہنسی مذاق ہوتا رہا پھر شہید آغا نے کہا آپ آرام کریں ظہر کے بعد سفر پر نکلیں گے ، آرام کرنے کے بعد کھانا وغیرہ کھا کر اپنے سفر پر نکل گئے تقریباً 3 گھنٹے کے بعد ہم ایک جگہ پر پہنچے جہاں شہید واجہ امیر بخش شہید واجہ کے استقبال کے لیئے پہلے سے کھڑے تھے، شہید سگار سے دعا سلام کے بعد وہ ہم کو لے کر ایک گھر میں گئے جہاں تین اور بھی دوست موجود تھے۔ جنہوں نے بہت احترام اور عقیدت کے ساتھ شہید واجہ کے ہاتھ کو بوسہ دے کر اپنے پیشانی سے لگایا ان میں ایک دوست شہید واجہ سے بہت کلوز تھا، ان کی تقریباً پرانی جان پہچان تھی، حال و احوال پوچھنے کے بعد پھر وہی تنظیم اور تحریک کی باتیں ہوتی رہیں۔ شہید واجہ جس دوست سے سب سے زیادہ ہنسی مذاق کر رھا تھا اس کو چئرمین کہہ کر مخاطب کر رہا تھا۔ چائے پی کر ہم آگے کے سفر کے لیئے روانہ ہوئے یہ تینوں دوست بھی سفر میں شہید سگار کے ساتھ تھے، مغرب کے بعد ہم اپنے منزل کو پہنچ گئے وہاں پر تقریباً 12 کے قریب لوگ موجود تھے۔ جن میں زیادہ تر سفید ریش کماش تھے، وہ سب شہید واجہ اور دوستوں کو عزت دے رہے تھے ، میں نے بلوچی حال و احوال کے بارے میں سنا تھا کہ بلوچی حال و احوال میں اپنے ہر کام اور سفر کا حال بیان کرتے ہیں وہاں پر میں نے پہلی بار دیکھا بلوچی حال و احوال کس طرح ہوتا ہے۔
سب سے پہلے شہید واجہ سے حال پوچھا گیا وہ شروع ھوگئے کس طرح ہم کراچی سے نکلنے قلات پہنچے وہاں ہم آغا محمود جان کے مہمان تھے وہاں سے ہم ایڈوکیٹ امیر بخش کے پاس پھر یہاں تک کے سفر کا سارا احوال بتا دیا اس کے بعد شہید سگار نے حال و احوال شروع کیا اسکے بعد ایک کماش نے اپنے احوال بیان کیئے اس نے اپنے احوال کے آخر میں کہا ہم جی ایم سے ملنے اس کے دیدار کے لیئے یہاں تک آئے ہیں ان میں سے ایک کماش شہید واجہ ماموں رحمدل مری تھے جس کو میں نے شہید واجہ ماموں سعادت مری کے ساتھ مشکے میں بلوچ رہنما واجہ ڈاکٹر اللہ نذر کے پاس دیکھا تھا۔ اس کے بعد شہید واجہ نے بلوچ جہد آزادی اور ہماری ذمہ داریاں کے موضوع پر ایک بہت ہی پراثر اور دل کو چھونے والا لیکچر دیا اس کے بعد شہید واجہ شہید سگار اور دوست ہم سے دور جا کر بیٹھ گئے جو دوست شہید سگار کے ساتھ تھے ان میں سے ایک دوست جو شہید واجہ سے بہت کلوز اور فری تھے، اس کی شہادت کے بعد اس کا تصویر دیکھا تھا تو مجھے معلوم ہوا وہ دوست بلوچ رہنما شہید چیرمین واجہ حمید شاہین تھے پھر وہاں کے دوستوں نے مجھے اور شہید آغا محمود جان کو سلیپنگ بیگ لا کر دیئے کہ آپ آرام کریں پھر شہید آغا مجھ سے بلوچ تحریک بی این ایم اور کراچی کے بارے میں باتیں کرتے رہے اس نے کہا میں اخبار دیکھتا رہتا ہوں کراچی کے دوستوں نے بہت کام کیا ہے کراچی کے مظاہروں میں مرد تو مرد ہماری مائیں بہنیں اور بچوں کی اتنی تعداد ہوتی ہے ک ہمیں فخر ہوتا ہے اپنے ماؤں اور بہنوں پر۔
شہید آغا جان بہت دیر تک باتیں کرتے رھے پھر اس نے آسمان کی طرف اشارہ کرکے کہا جو ستاروں سے بھرا ھوا تھا اس نے کہا شہر میں اس طرح کے نظارے کبھی دیکھا ہے، میں نے کہا نہیں اس طرح کے نظارے دیکھنے کے لیئے اپنے مادر سرزمین پر آنا پڑتا ہے میں نے شہید آغا جان سے پوچھا آپ کو شاعری کا شوق ہے اس نے کہا عشق و عاشقی والا نہیں مزاحمتی شاعری سنتا ہوں تو میں نے اس سے کہا تو میں آپ کو واجہ غلام حسین شوہاز کے کچھ نظمیں سناتا ھوں میں نے اس کو ؛؛؛ چراغِ ء دیم ء ماہکان ودارے دوزائے شپ ء اور زرد ء گنوکی ماء تو نوک رستگوں ورناہا تے ؛؛؛؛ سنایا تو اس اس نے کہا جب واپس جائینگے تو میں یہ ریکارڈ کر لونگا شہید آغا محمود جان ایک خوش لباس، خوش مزاج دھیمے لہجے میں بات کرنے والا ایک خوبصورت شہزادہ تھا اور میں نے اس میں سب سے بڑی خوبی یہ دیکھا وہ ایک عاجز درویش ٹائپ کا خوبصورت ہیرو تھا اس کا سب کچھ بلوچ سرزمین اور اسکی آزادی تھی وہ شہید محراب خان کا سچا وارث اور جہد کار تھا۔
ہم صبح اٹھے تو شہید واجہ نجانے رات کو کس وقت سوئے تھے اٹھنے کے بعد پھر ان کماشوں کے ساتھ بیٹھک لگا لیا دن کو شہید واجہ نے ان دوستوں سے جانے کی اجازت مانگی اور ہم اپنے واپسی کے سفر میں روانہ ہوئے جب ہم شہید سگار والے علاقے میں پہنچ گئے تو انہوں نے شہید واجہ اور ہمیں زبردستی روک لیا کہ رات کو آپ لوگ میرے پاس رکو گے شہید واجہ نے بہت کہا لیکن شہید سگار اور شہید حمید شائین نے بہت مجبور کر کے شہید واجہ اور ہمیں روک لیا ہم رات کو ان کے مہمان تھے، شہید آغا جان نے کہا کل قاضی نے مجھے بہت خوبصورت نظمیں سنائے تھے، تو شہید سگار اور شہید حمید نے مجھ سے فرمائش کیا میں نے ان کو نظمیں سنائے اس کے بعد شہید حمید شائین نے شہید واجہ سے کہا آپ بھی ہمیں کچھ سنائیں تو شہید واجہ نے کچھ غزلیں سنائے اور ماتی منی والا شاعری گانے کے طرز پر گنگنایا وہ ایک یادگار رات تھا شہید واجہ ، شہید سگار، شہید حمید، شہید آغا جان، شہید مجید ثانی یہ سب ایک دائرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔
اگلی صبح دوستوں کو الوداع کیا راستے میں شہید واجہ نے شہید آغا جان سے کہا ہمارے ٹکٹوں کا بندوبست کرو، ہم رات کو کراچی جائینگے شہید آغا جان نے کہا آپ ایک دو دن ہمارے مہمان ہو پھر میں خود آپکو کراچی پہنچاونگا لیکن شہید واجہ نے کہا نہیں ابھی ہم جائینگے انشاء اللہ پھر آئینگے، شہید آغا نے ہمارے رات کے ٹکٹ لیئے ہم کراچی کے لیئے روانہ ھوئے۔
یہ تھے ہمارے قومی جہد کے رہبر ہمارے رہشون شہید واجہ غلام محمد جس سے ہر طبقہ ہر عمر کے کے لوگ محبت کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں۔ میرا خضدار والا دوست 13 سال گزرنے کے بعد بھی شہید واجہ کی باتوں کو نہیں بھولا ہے، بلوچ جہد کاروں کے دلوں میں آج بھی شہدائے مرغاپ اور بلوچستان کا ہر وہ شہید جو اپنے مادر سرزمین پر قربان ہوئے وہ زندہ ہیں جب تک بلوچ سرزمین پر مزاحمت باقی ہے وہ زندہ ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں