ممتا کی چھاؤں میں ۔ میرک بلوچ

607

ممتا کی چھاؤں میں

تحریر: میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ابّا مات کُجْ اِنت ؟
ھیبتان : منی چُک تئی مات کیت اِنت ۔
منی مات کدی کیت ؟ من ایوکا منی امّاں کدی کیت ؟
ھیبتان : تو ایوک نہ ایں من تئی گوما آں دُرست تئی کِرا اَنت۔۔۔

شاری اپنے عظیم مقصد کے لیے سر بلند ہوکر چلی گئی،اس کا معصوم بیٹا میر حسن اور معصوم بیٹی مہروش اسکی ممتا کی چھاؤں  سے محروم ہو گئے ابھی تو ان کو ضرورت تھی اسکے ممتا کے چھاؤں کی، ہاں شاری کے معصوم بچوں کو اس کی ضرورت تھی اور ضرورت ہے، کیا شاری کا اس طرح جانا ضروری تھا ؟ کیا شاری کو اس بات کا ادراک نہیں تھاکہ ان کے بچوں کی عمریں اتنی کم ہیں کہ ان کمسن معصوموں کو ہر پل ہر وقت اس کی ضرورت ہے۔ ان نوخیز کھلیوں کو تناور درخت بننے کے لیے اس کے ممتا کے چھاؤں کی ضرورت پڑسکتی ہے ؟ ہر وقت پڑسکتی ہے ہر لمحے پڑ سکتی ہے ہر قدم ہر پل ؟ کیا ھیبتان یہ نہیں جانتے کہ شاری کے بغیر ان کمسن معصوموں کو سنبھالنا اسکے لئے اتنا آسان نہیں ؟ ماں کے بغیر ان معصوموں کی آبیاری کرنا کتنا مشکل ہے ؟ کیا باپ کا سایہ ممتا کے چھاؤں کی جگہ لے سکتی ہے ؟ کیا کریں ؟ ان سوالوں کا جواب کیسے ڈھونڈیں؟ کیا ان سوالوں کو چھوڑ کر اور بے حس بن کر آگے بڑھیں؟ کیا ان سوالوں کو اپنی عظیم نظریاتی انقلابی عمل کی توہین سمجھیں؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ ان سوالوں کا جواب ہمیں ڈھونڈنا ہے۔ایک دیانت دار انسان کی حیثیت سے ڈھونڈنا ہے،ایک باعمل سچے انقلابی کی حیثیت سے ڈھونڈنا ہے، اپنا فرض سمجھ کر ڈھونڈنا ہے، تو آ ئیے ان سوالوں کا جواب لائیں۔

شاری ایک با ہمت اور با شعور خاتون ہونے کے ساتھ ،ایک عظیم ماں تھی ،بیٹی تھی، بہن تھی،  با وفا بیوی تھی ، اعلیٰ تعلیم یافتہ استاد تھی، اسے کسی چیز کی کمی نہیں تھی ۔ شاری کا سارا خاندان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ صاحب ثروت بھی ہے۔ بانک شاری کی ذاتی زندگی اتنی بھرپور اور پر آسائش تھی کہ کوئی شخص صرف اس کی خواہش اور تصور ہی کرسکتا ہے۔بلکہ اس کے حصول کے لیے خود غرض بن کر اپنی ساری توانائیاں صرف کرتا ہے۔ بانک شاری نے ان تمام کیریئر سٹ جو حصول تعلیم کے بعد ہر قسم کے حربے استعمال کرکے اعلیٰ عہدے پر پہنچے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی افسر بن کر کوئی لیکچرار و پروفیسر بن کر سرکاری اداروں سے مراعات و تنخواہیں لیکر اور سرکار کے دلال بن کر ذاتی عیش و آرام کے لیے حد سے زیادہ گر جاتے ہیں۔ لیکن بانک شاری نے ان سب کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ مارکر یہ باور کرادیا کہ وہ اگر چاہتی تو بہت ہی آسانی کے ساتھ لیکچرار، پروفیسر اور اعلی افسر بن کر عیش کی زندگی گزار سکتی تھی، مگر عظیم بانک شاری نے ایسا نہیں کیا۔ بانک شاری ایسا اس لیے کرسکتی تھی کہ بانک کا خاندانی پس منظر تین نسلوں سے اعلی عہدوں پر فائز چلا آرہا ہے اور بانک ڈبل ماسٹر ڈگری ہولڈر تھی ۔ ایم ایڈ اور ایم ایس سی زولوجی۔  مگر بانک شاری نے ان تمام وقتی اور زوال ہونے والی چیزوں کو ٹھکرا کر تاریخ رقم کردی۔ ایسا صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو خود کی نفی کرتے ہیں۔ اور خود کی نفی وہی انسان کرسکتا ہے جو سائنسی فکر و سوچ کے ساتھ کسی اہم نظریاتی فلسفے سے وابسطہ ہو ، اور بانک شاری شعوری طور پر بلوچ قومی آزادی سے وابسطہ نظریاتی کیڈر و ساتھی تھی۔

یہ بات بھی یاد رہے پاکستانی زوال پذیر ریاست کی فرسودہ اور طبقاتی تعلیمی نظام علم فراہم نہیں کرسکتا وہ صرف کاغذی ڈگریاں دیکر اور کچھ لوگوں کو ملازمتیں دیکر ذہنی غلام بناکر اپنے کارندے ہی بنا سکتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ پاکستانی قابض ریاست نے چند سالوں سے قومی آزادی کی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کے لیے بلوچ نوجوانوں کو ورغلانے اور لالچ دلانے کے لیے اپنی فرسودہ تعلیم کا حربہ آزمانا شروع کیا ہے تھوک کے حساب سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی جارہی ہے۔اس کے علاوہ بلوچ نوجوانوں کو اسلام آباد، لاہور اور کراچی کی یونیورسٹیوں میں داخلے دئیے جارہے ہیں۔ مگر قابض ریاست اور اس کے حکمران یہ بات بھول گئے ہیں کہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک اس بلندی پر پہنچ چکی ہے کہ اسے ان منفی اور شاطرانہ چالوں سے زیر نہیں کیا جاسکتا۔ جب کوئی بھی بلوچ نوجوان ان تعلیمی اداروں سے باہر نکل کر آتے ہیں تو انہیں اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ بلوچ ہزاروں کی تعداد میں شہید اور لاپتہ ہوچکے ہیں اور بلوچ وطن پر آتش و آہن کی برسات ہورہی ہے اور قابض پاکستان و توسیع پسند چین خطرناک حد تک اپنے مفادات کے لیے بلوچ نسل کشی میں مصروف ہیں تو یہ بلوچ نوجوان چنگاری بن کر قابض ریاست اور اسکے سرپرست چین پر قہر بن کر ٹوٹ پڑتے ہیں ، جسکی مثالیں تواتر سے پیش آرہی ہے۔

عظیم بانک شاری نے اپنی تمامتر شعوری سطح پر بی ایل اے میں شمولیت اختیار کرکے اور مجید برگیڈ کا فدائی بن کر قابض ریاست اور توسیع پسند چین پر ایک کاری ضرب لگائی ہے ، جس کی وجہ سے ساری دنیا میں ایک بونچھالی کیفیت پیدا کی ہے ۔ شاری پہلی بلوچ فدائی خاتون بنی اور شاری نے کسی جنت کے حصول اور دوزخ کے خوف سے یہ قدم نہیں اٹھائ بلکہ اپنے مادر وطن کی آزادی کے لیے خود کو قربان کر کے تاریخ میں امر بن گئی۔

پاکستانی قابض ریاست اور اس کے سرپرست چین سکتے کی حالت میں ہیں کیونکہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک عظیم ماؤں کے ہاتھ آگئی ہے ۔ ایک جانب لمہ یاسمین اپنے لخت جگر ریحان جان کو اپنے ہاتھوں سے سنوار کر وطن پر فدا ہونے کے لیے بھیج دیتی ہے،تو دوسری جانب عظیم ماں بانک شاری اپنی دو معصوم بچوں کو چھوڑ کر خود فدائی بن کر توسیع پسند چین اور قابض ریاست کی چولیں ہلادیتی ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ آج بلوچ بہین، بیٹیاں اور مائیں سڑکوں پر عظیم الشان مظاہروں میں جوک در جوک شامل ہو کر تحریک کو بلندیوں کی سمت  پہنچا رہی ہے۔ وہ پاکستانی قابض ریاست کو للکار رہی ہے کہ تم نے ہمارے بیٹوں اور بھائیوں کو ہزاروں کی تعداد میں شہید و اغوا کر کے یہ سمجھ لیا کہ بلوچ قومی آزادی کا جزبہ ختم ہوگیا ہے۔ مگر ایسا نہیں اب بلوچ قومی آزادی کی تحریک ان عظیم ماؤں نے سنبھالی ہے۔  اب بلوچ قومی تحریک ممتا کی چھاؤں میں اپنے منزل کی جانب گامزن ہوچکی ہے اور ماؤں کو شکست دینا ناممکن ہے۔ پاکستانی حکمران اگر طاقت کے گھمنڈ میں اس بات سے واقف نہیں تو الجزائر، ویتنام، نکاراگوا کی تاریخ پر نظر ڈالیں جب وہاں مائیں باہر نکلی تو امریکہ اور فرانس جیسی طاقتیں دم دبا کر بھاگ گئے۔ زوال پذیر بھکاری پاکستان کی کیا اوقات کہ ماں کی ممتا کو شکست دے۔


دی بلوچستان پوسٹاس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں