لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4661 دن ہو گئے، نوشکی سے سیاسی اور سماجی کارکنان فیض امیر، داد محمد اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ریاست بلوچ جبری لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کے بجائے اس میں مزید شدت لارہے ہیں، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچ طلباء اور علمی طبقے کے لوگوں کو جبری اٹھا کر لاپتہ کیا جا رہا ہے، حالیہ دنوں کراچی سے چار طالب علموں کو جبری لاپتہ کیا گیا ، اس سے پہلے لاہور سے ایک طالب علم بیبگر امداد کو عینی شاہدین کے سامنے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اٹھا کر لاپتہ کر دیا جس کے ویڈیو فوٹیج بھی موجود ہیں، یونیورسٹی سیکورٹی انتظایہ اس گمشدگی میں براہ راست ملوث پائے گئے لیکن اس پہ اب تک کوئی عملدرآمد نہیں ہوا ہے.
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے جبری گمشدگیوں اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پہ فوری نوٹس لیں اور ریاستی اداروں پہ زور دیں کہ وہ ہزاروں جبری گمشدہ افراد کو منظر عام پر لائیں، سیول سوسائٹیز کو چاہیے کہ ان مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں اور لواحقین کا ساتھ دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین اپنی عید پریس کلب کے سامنے احتجاج میں گزاریں گے، جنکے پیارے لاپتہ ہیں وہ کیسے عید منا سکتے ہیں؟ ہزاروں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین اس پر مسرت دن کے موقع پر اپیل کرتے ہیں کہ انکے پیاروں کو بازیاب کرایا جائے