ظلم پر خاموشی، صبر، حکمت یا منافقت اور بزدلی؟ ۔ دیدوک ریکی

872

ظلم پر خاموشی، صبر، حکمت یا منافقت اور بزدلی؟

تحریر: دیدوک ریکی

دی بلوچستان پوسٹ

دینِ اسلام کا ظلم کے بارے میں یہ حکم ہے کہ پہلے اصلاح کی کوشش کریں، پھر ظالم اپنے ظلم سے باز نہ آئے تو اس کے خلاف کھڑے رہو۔ نیز آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے سماج کو حکیمانہ طریقہ سے ظلم کے خلاف بولنے، اور مظلوم کی مدد کا حکم دیا (الحديث).

ہم بظاہر بڑے حق گو، دین کے رکھوالے، انسانیت کے علمبردار اور روایات کے تابع ہیں مگر جب بات ظالم و مظلوم کے آتی ہے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ہم صرف لفاظی ماہر ہیں۔ ظالم نے ظلم و جبر کی تمام حدیں پار کئے اور مظلوم نے بے حسی اور خاموشی پر حد درجہ اکتفا کیا۔ ماشکیل میں اس ظلم کا شکار وزیر ریکی ہے جسے 3 مارچ 2015 کو رات کے تاریکی میں 2 بجے گھر سے جبری طور گمشدہ کیا گیا جو تاحال لاپتہ ہیں۔ اس سے بڑھ کر ظلم اور کرب کیا ہوسکتا ہے کہ بغیر کسی جرم کے، بغیر کوئی ثبوت کے، بغیر کوئی قانونی دستاویزات کے، بغیر ایف آئی آر اور وارنٹ کے وزیر ریکی کو بزور طاقت گھر سے گھسیٹ کر لے جایا جاتا ہے۔ اٹھانے والوں کا گھر میں گھس کر یہ رویہ ہے آپ سوچ لیں کہ تاریک عقوبت خانوں میں وہ وزیر کیساتھ کیسے پیش ہوں گے۔ 

وزیر ریکی ایک مخلص دوست تھا جو ہر گھڑی ہر آن ہمارے ساتھ تھا۔ اسے ہمارے ہوتے ہوئے اٹھایا گیا اور گزشتہ 8 سالوں سے ہمارے درمیان اس کا جگہ خالی ہے۔ وزیر کے گھر عیدین صرف وزیر ریکی کے انتظار میں ہی گزرتی ہیں مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہم (ماشکیل عوام) نے وزیر ریکی کی بازیابی کیلئے ایک احتجاج تک ریکارڈ نہیں کیا۔ 

ہم ظلم کے شکار ہیں مگر حق گوئی سے کوسوں دور ہیں، ہماری دین داری کا درجہ یہ ہے کہ ہم دین کے اُن تمام احکامات سے باغی ہیں جو ظلم کے خلاف بولنے کا درس دیتے ہیں۔ ہم انسانیت کے اس مقام پر نہیں پہنچے کہ وزیر ریکی کے درد کو محسوس کرکے وزیر نہیں بلکہ ایک انسان کو بچا سکیں۔ ظالموں نے رات کی تاریکی میں چادر و چاردیواری کو پامال کرکے وزیر ریکی کو گھسیٹ کر لے گئے اور ہم نے مذمت تک نہیں کی، یوں ہمارے بلوچی روایات بھی یہاں دم توڑ گئیں۔

ہم نے جوش و خروش سے عید منائی، احباب اور رشتہ داروں کے گھر گئے مگر 8 سالوں سے لاپتہ وزیر ریکی کے منتظر والدین کے درد کو کبھی محسوس نہیں کی کہ اس گھر میں کیا بیتی ہوگی۔ اگر زرّا برابر ہم اس کرب و درد کو محسوس کرتے تو ان 8 سالوں میں ہم وزیر ریکی کی بازیابی کیلئے اپنا کردار ادا کرتے مگر کجا۔ ۔۔! ہم نے ابھی تک ذاتی ڈبے سے نکل کر اجتماعی دنیا میں قدم رکھا ہی نہیں۔ ۔ ۔ آہ ہماری بے حسی!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں