طلباء سیاست میں قیادت کا فقدان ۔ جی آر بلوچ

412

طلباء سیاست میں قیادت کا فقدان

تحریر: جی آر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

طلباء سیاست پہ بحث کرنے سے پہلے طلباء کو یہ علم ہونا چاہیے کہ لفظ “سیاست” کسے کہتے ہیں ؟ اور طالب علموں نے کیوں سیاست سے وابستگی رکھی ہے۔ سیاست ایک سائنس ہے، جو ریاست اور اس کے عوام کی عام فلاح و بہبود کو فروغ دینے سے متعلق ہے. جس طرح سائنس کے قوانین ہوتے ہیں، اسی طرح سیاست کے بھی اپنے قوانین، آئین ہوتے ہیں جو آئینی دائروں میں رہ کر طلباء کے حقوق کی تحفظ کرتے ہیں۔

طلباء سیاست کو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں فروغ دینے کا مقصد صرف یہی تھا کہ طلباء حقوق کی تحفظ اور عوام میں علم و شعور کو اجاگر کرنا، قومی مسائل کو سامنے لانا، کرپٹ حکمرانوں اور اداروں کے خلاف جنگ لڑنا اور سارے طالب علموں کو منظم طریقے سے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا عمل ہے۔ طلبہ تنظیموں کا مقصد یہ رہا ہے کہ ادارے اور خارجہ کے اندر دونوں طالب علموں کی نمائندگی کرنا، بشمول مقامی اور قومی مسائل پر طلبا کے اتحادیوں کو مختلف قسم کی خدمات فراہم کرنے کے لیے بھی ذمہ دار ہیں۔

کسی بھی معاشرے کی کامیابی و کامرانی میں نوجوان نسل کا اہم کردار ہوتا ہے۔ کوئی بھی سیاسی، مذہبی، لسانی، قومی و دیگر تحریکیں نوجوان نسل کی حمایت سے ہی کامیاب و مقبول ہوتی ہیں۔

دنیا میں جتنے بھی انقلابات برپا ہوئے ہیں ان کی کامیابی اور کامرانی میں نوجوانوں کا اہم کردار رہا ہے۔ تحریکِ خلافت اور جد وجہد آزادی میں بھی نوجوان کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ نوجوانوں کی قوت کے دھاروں کو صحیح سمت ، شعور اور قائدانہ کردار تعلیم و تربیت ہی سے حاصل ہوتا ہے۔

تعلیم صرف غوغائے علم کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا واضح راستہ ہے جس پر گامزن ہو کر آدمی کامیابی اور خوشحالی کو گلے لگاتا ہے۔تعلیم کسی بھی ملک و قوم کے لئے موت و حیات کا مسئلہ ہوتی ہے۔ اور ساتھ ساتھ سیاسی شعور اور سیاسی تعلیم عام نصابی علم سے بھی کئی بڑھ کر ہے۔

طلباء سیاست میں قیادت کا بحران کی جب بات ہے تو طلبہ کی زندگی استاد کی تعلیم و تربیت کی زیر اثر پروان چڑھتی ہے۔ چاہے وہ نصابی اُستاد ہو یا سیاسی۔ طلباء اپنی زندگی کے ہرشعبے میں استاد کی رہنمائی و رہبرئی کے محتاج رہتے ہیں۔ سکندر اعظم سے پوچھا گیا کہ وہ کیوں والدین سے زیادہ اپنے استاد کی تکریم و عزت کرتا ہے۔ملاحظہ فرمائیے سکندر اعظم کا وہ جواب جو آج تاریخ کا ایک روشن مکالمہ ہے۔ “والدین اولاد کوآسمان سے زمین پر لاتے ہیں جبکہ استاد اپنے شاگرد کو زمین کی پستیوں سے آسمان کی بلندیوں پر فائز کرتا ہے”۔

دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی ترقی و کامرانی میں تعلیم اور لیڈرشپ (قیادت) کا کلیدی کردار رہا ہے۔ ملک و قوم کی پائیدار ترقی و استحکام کے لئے طلباء میں لیڈرشپ کوالیٹی(قیادت کے ہنر) کو فروغ دینا اشد ضروری ہے۔ نئی نسل میں قیادت کے اوصاف پیدا کیئے بغیر وطن اور قوم کو استحکام اور دیرپا خوشحالی فراہم کرنا بے حد دشوارہے۔ طلباء میں علم و دانش اور قائدانہ صلاحیتوں کے فرو غ کے ذریعے وطن و قوم کے زوال کو کمال میں بدلا جاسکتا ہے۔ چین کی ایک مشہور کہاوت ہے جو تعمیر و ترقی کے اسی جذبے کی عکاس ہے۔ ’’ اگر ایک سال کی منصوبہ بندی کرنی ہو تو مکئی اُگاؤ، اگر دس سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو درخت اُگاؤ اور اگرصدیوں کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو اپنے عوام کی تربیت کرو انھیں بہترین تعلیم دو‘‘۔

مگر افسوس ہمارے ہاں طلبء سیاست کے ساتھ ساتھ ہر طبقائے فکر کے لوگوں کے ساتھ قیادت کا بحران ہے۔ خود احتسابی کو کوئی اپنا شیوہ نہین بناتا۔ نام و نہاد کے لیڈر، رہنماء اور اُستاد بہت ملیں گے مگر کوئی سچا، مُخلص اور ایماندار شخص نہیں ملے گا۔ جو بھی کسی اچھے عہدے پے فائز ہوتا ہے وہ نرگیست کا شکار ہوکر خود کو اعلی رہنماء سمجھنے لگتا ہے۔ مگر حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں۔ انسان اپنے نام سے نہیں کام سے پہچانا جاتا ہے۔ خود کو پہچانو، اپنے ذمے داریوں کو جان لو تاکہ آپ قوم کو پہچان سکو اور قومی ذمے داریوں کو جان سکو۔ سُننے اور سمجھنے کی صلاحیت کو اپناؤ، سنو، سمھجو پھر عمل کرو، جب تک طلبہ سیاست کے لیڈر زوال تب تک آنے والی تمام نسلیں زوال۔ آنے والوں کی تربیت کریں، اُنہیں سیاسی شعور سے آبیار کریں، سیکھیں اور سکھائیں، اچھے کردار کے مالک بنیں، اپنے آنے والے نسلوں کی اچھی تربیت کریں، آنے والوں کے ذہنوں میں سوال دیں نہ کہ اُنہیں زوال کریں۔

قیادت کے تعمیری عناصر میں علم اور کردار کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ وطن و قوم کی ذمے داریاں نئی نسل کو سونپ نے سے پہلے انھیں ایک خدا ترس اور نیک انسان بنانا ہوگا، مستقبل سازی اور مثبت تعمیری اوصاف سے متصف کرنا ہوگا، صلاحیتوں کو سِمت اور رفتار دینی ہوگی، احترام انسانیت کے درس کے ساتھ عزت نفس کے جوہر سے انھیں آراستہ کرنا ہوگا، شخصی مفادات پر اجتماعی مفادات کو ترجیح دینے کی صلاحیت کو پروان چڑھانا ہوگا، ایثار و قربانی کے جذبے سے آراستہ کرنا ہوگا، صبر و تحمل کا مادہ پیدا کرنا ہوگا، تشکیک کی گلیاروں سے نکال کر اعتماد کے راہوں پر گامزن کرنا ہوگا، رسمی اور رواجی ذہن و فکر کے شکنجوں سے آزاد کرنا ہوگا، ارتقاء، ترقی اور کامیابی کے حقیقی معنی سے انھیں آگاہ کرنا ہوگا، قوت فیصلہ اور قوت نافذہ کی صلاحیت ان میں پیدا کرنی ہوگی۔ معیاری تعلیم اور بہترین سیاسی تربیت کے ذریعے ہی ان ناممکنہ امور کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

ہندوستانی طلباء میں قیادت و سیاست کی مقبولیت کارجحان برطانوی نو آبادیاتی نظام کے خلاف آزادی کے شعور اور جدوجہد آزادی کی بدولت پروان چڑھا۔ تحریک آزادی میں طلبہ نے ہر اول دستے کا کام کیا۔ آزادی کے بعد طلبہ قیادت و سیاست نظریاتی بنیادوں پر دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم ہو گئی۔ طلبہ میں سیاسی شعور کی آبیاری اور قومی شعور کو بیدار کرنے والی سیاست آج اپنے جارحانہ غیر تعمیری اور پرتشدد رویوں کی وجہ سے اپنی مقبولیت کھو بیٹھی ہے۔ تعلیمی اداروں کی غلط پالیسیوں، پر تشدد کا ماحول، آمریت پسندی، مذہبی، لسانی اور علاقائی بنیادوں نے طلبہ میں تخریبی مزاج کو پھلنے پھولنے کے خوب مواقع فراہم کئے جس کے سبب تعلیمی اداروں کے معیار کو کافی نقصان پہنچا۔ تعصب اور نفرت کے اسی بطن سے عدم برداشت، صوبائی عصبیت اور انتہا پسندی نے جنم لیا۔ تعلیمی اداروں کے غیر صحت مند ماحول سے تعلیمی اداروں میں ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں محدود ہوتی چلی گئیں۔

ایک قائد یا لیڈر کا یہ اہم وصف ہے کہ وہ دوسروں کے لئے ایک مثالی نمونہ ہو اور ان میں تحریک، جوش و ولولہ پیدا کرے۔ ایک رہنماء کی جامع تعریف اور عام فہم تعریف یہ ہے کہ ’’قائد ایک ایسے شخص کا نام ہے جسے نہ صرف راستے کا علم ہوتا ہے بلکہ وہ دوسروں کی رہنمائی کرتا ہے اور خود اسی راستے پر گامزن رہتا ہے۔۔‘‘(A leader is a person who knows the way,shows the way and goes the way

چیئرمین اور سیکریٹری جنرل ہونا یا کسی عہدے پے فائز ہونےسے کوئی لیڈر نہیں کہلاتا۔ نہ کہ دن رات سونے والا، اپنے ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بجائے دوسروں پے حُکم چلانے والا، اپنے آپ کو لیڈر سمجھ کر نرگیست کا شکار ہوکر غیر سیاسی، لاشعوری، اپنے ممبران اور دوستوں کو خود سے کمتر سمجھنے والا، اپنی تصویر کو کسی کے اسٹیٹس پے دیکھ کر ہوا میں اُڑنے والا، اپنے کو بڑا سمجھ کر دوسروں کو دھمکی دینے والا، خود مُخلص نہ ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی مُخلص نہ ہونے کا درس دینے والا، خود کے ساتھ احتساب نہ کرکے دوسروں کے ساتھ احتساب کرنے والا لیڈر نہیں۔ بلکہ لیڈر وہ جو خدا ترس ہو۔ ،ایماندار، سچا، مُخلص، انسان دوست، قوم دوست، علم دوست، وطن دوست، قانون کا پاسدار، جہدکار، ایثار و قربانی کا پیکر، کمزور اور محروموں کا ہمدرد، اساتذہ، بزرگوں اور خواتین کا احترام کرنے والا شخص ہوتا ہے جس کے اندر گفت و شنید کے آداب ہوتے ہیں، نامساعد حالات میں بھی آگے بڑھنے کی لگن پائی جاتی ہے، جس کے اندر بحث و مباحثہ کا سلیقہ ہوتا ہے، وہ فیصلہ سازی کے فن سے واقف ہوتا ہے، مسائل پیدا کرنے کے بجائے وہ مسائل حل کرتا ہے، مخالفت کو خندہ پیشانی سے قبول کرتا ہے، مزاحمت کے آداب جانتا ہے، حوصلہ مندی، جرات،حق گوئی و بے باکی کی مثال ہوتا ہے ظلم کے خلاف بامردی سے کھڑا رہتا ہے۔ایسے انسانوں کی تعمیر کے باعث ہی لیڈر کو قوم کا معمار کہا جاتا ہے اور ایسے ہی لوگ لیڈر کہلاتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں