شبنم کے قطروں جیسی مقدس محبت تم بھی دیس پر قربان
تحریر:محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
تم بہت خوبصورت ہو، تمہارے جسم کی خوشبو میں شیمپین کے نشے جیسی خوشبو ہے۔
جب تمہارا جسم بانہوں میں آتا ہے تو میں کہاں پہنچ جاتا ہوں؟مجھ سے بیان نہیں ہوپاتا
جب تمہا رے ہونٹوں پر نظر جاتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ دیس کے پہاڑوں کے پیچھے سورج ڈھل رہا ہے
تمہاری زلفوں کا مزہ لینے جبرائیل بھی نیچے اتر آتا ہے
بس میں ہی کیا معلوم نہیں تمہا ری زلفوں کا کون کون اسیر ہے؟
سنو!میں نے تمہارے چہرے میں دن بھی دیکھا ہے اور رات بھی
جب تمہارے سیاہ بالوں کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ سیاہ رات اپنے جوبن پر ہے اور جوہی تم ہنس کر میری طرف اپنا رُخ کرتی ہو تو دن کا اجلا اپنی پوری طاقت سے چمک اُٹھتا ہے
جب تمہا رے پیارے پیارے پستانوں پر نظر جا تی ہے تو شاہ جو رسالوں یاد آنے لگتا ہے لطیف نے بھی تو دل کھول کر اپنی محبوبہ کے پستانوں کو گایا ہے جسے آج بھی شاہ کے فقیر فخر سے گا رہے ہیں
سچ پستان عشق کا تیل ہیں
جس عشق سلگتا ہی رہتا ہے
آہستہ،آہستہ۔۔۔۔۔
تمہیں نہیں معلوم کہ پستان کیا ہیں؟
ایسے ہی جیسے امیر کو کیا معلوم کہ بھوک اور روٹی کیا ہے؟
اک بار،ہاں بس ایک بار
میں تم بن جاتا ہوں اور تم میں بن جاؤ
پھر بتانا یہ پستان کیا ہیں جسے لطیف نے گایا بھی اور بھگتا بھی
تمہیں یاد ہے ایک بار تم مجھ سے روٹھ گئی تھیں
میں تمہیں مناتا رہا،مناتا رہا پر تم نہیں مان رہیں تھیں
پھر مجھے غصہ آنے لگا۔تم نے میرا غصہ بھانپ لیا اور کہا
”ادھر آؤ!“
میں تمہا رے پا س آیا
تم نے کہا مجھے اپنی بانہوں میں لو
میں تمہا رے قریب آیا اور تمہیں اپنی بانہوں میں لے لیا تمہاری نازک نفیس کمر کو میں نے اپنی بانہوں کی زنجیروں میں جکڑ لیا
تم نے آہستگی سے کہا
زور سے بانہوں میں لو اور اپنے قریب کر لو
میں نے اپنے ہاتھوں کی زنجیر کو تمہا ری نازک کمر میں اور زور سے کس لیا
تم نے کہا
اور زور سے!
کچھ اور قریب کر کے کہا
کیا اور زور سے؟
پورے جسم کی طاقت بانہوں میں سمٹ آئی تھی اور تم سے چیخ نکل گئی تھی
”بس بس!“
میں نے بہانوں کا زور بڑھا دیا تھا اور تم نے ہنس کر اور رو کر کہا تھا
”مر جاؤں گی!“
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ تم شاہ کا آخری جوگی ہو جو کہیں جانے سے رہ گئی ہے اور جیسے ہی تمہا رے جو گی لوٹیں گے تم چلو جاؤ گی
نہیں معلوم تم کیا ہو
پر جو بھی ہو لاجواب ہو
سنو!تم اتنی لاجواب کیوں ہو؟
کبھی محسوس ہوتا ہے کہ پھر کوئی لطیف آئیگا تمہیں دیکھے گا اور وہ سُرلکھے گا جو شاہ جو رسالوں میں نہیں ہے
جس سُر کو کسی نے نہیں گایا
جس سُر کو کسی نے نہیں لکھا
جس سُر کو کسی نے نہیں پڑھا
تم محبت کا سُر ہو جب لاہوت کے فقیر ان پہاڑیوں سے واپس لوٹیں گے میرے مہمان بنے گے میں انہیں تمہارا دیدار کر کے ان سے کہوں گا اپنے مرشد سے کہ دینا
”صرف تم ہی لاجواب نہیں
یہ بھی لاجواب ہے
صرف تم ہی کمال نہیں
یہ بھی کمال ہے“
اپنے مرشد سے کہہ دینا
”اب بھی تمہا ری بات ادھوری ہے
میرے ہجرے میں آئےاور اپنی بات پو ری کرے‘‘!
جب تم اپنے سفید جسم پر تنگ گلابی چولہ پہنتی ہو اور پستان کُھل کر اپنے ہونے کا اظہار کرتے ہیں جب یوں محسوس ہوتا ہے کہ گلاب کے پھولوں پر دو بھونرے بیٹھ کر گلاب کی خوشبو سے لطف اندوز ہو رہے ہیں
تمہا رے ہنسنے پر مور اپنی ہنسی بھول جاتا ہے
تمہا ری ہنسی سے سارے دیس میں اک خوشبو بھری روشنی چھا جا تی ہے اور پورا دیس روشن ہوجاتا ہے
تمہا ری آواز سے کائینات میں اک سحر طاری ہوجاتا ہے
اور کوئیلیں ایک دوسرے سے پوچھتی پھرتی ہیں کہ یہ
کس کی آواز ہے؟
سنو!تم میری محبت ہو
تم میری سب کچھ ہو
پر شبنم کے قطروں جیسی میری مقدس محبت
تم بھی دیس پر قربان!
اول مٹی
آخر مٹی
مٹی زندہ باد!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں