شاری کے بعد بلوچ جنگ ۔ جیئند بلوچ

1683

شاری کے بعد بلوچ جنگ

تحریر: جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچ دنیا میں جہاں کہیں ہیں، جس حال میں رہتے ہیں، خوش حال ہیں یا بدحال 26 اپریل 2022 کی دوپہر کے بعد وہ ایک قومی سرشاری کی عجیب کیفیت کا شکار ہیں، خلیجی ممالک میں سالوں سے بسنے والے مالی حیثیت میں خوش حال بلوچ ہوں یا یورپ وغیرہ میں رہنے والے وہ عام بلوچ گھرانے جو معاشی بہتری کا خواب سجائے یورپ و دنیا کے دیگر ممالک اور خطوں میں جابسے ہیں اگر ان میں کسی نے 26 اپریل کی دوپہر کا واقعہ سنا ٹی وی یا سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر دیکھا تو وہ اپنے آپ میں فخر محسوس کرتے ہیں، میری اپنی کیفیت یہ ہے کہ میں گزشتہ کئی سالوں سے عید کے مواقع پر روایتی خوشیوں سے خود کو دور کرچکا ہوں، بلوچستان میں خوشیاں ویسے بھی انفرادی ہوتی ہیں یا بہت محدود لیکن میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ اپنی زمین باسیوں کے ساتھ یکجہتی کا کم از کم وہ طریقہ اپنایا جائے جو ممکن ہو لیکن مجھے نہیں معلوم کیوں اس عید پر میں نے فخر سے بلکہ ایک شان سے نہ صرف ایک چھوٹے بچے کی طرح عید منائی بلکہ دل میں بلوچیت کا غرور بھی ابھر آیا۔

اس کا سبب بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کی پہلی فدائی شاری بلوچ عرف برمش کا ادا کیا گیا عظیم کارنامہ ہوسکتا ہے، میں 26 اپریل سے ایک عجیب کیفیت میں ہوں مجھے خامخواہ اپنے بلوچ ہونے پر خوشی نہیں بلکہ غرور ہورہا ہے۔ میں صبح اٹھتا ہوں یا رات سونے جاتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ بلوچیت دنیا کا اعلی ترین وصف ہے پھر میرا سینہ تن جاتا ہے۔ 

میں بار بار نم آنکھوں سے وہ ویڈیو پیغام دیکھتا اور خود کو کریدتا ہوں جسے بی ایل اے نے کراچی میں کنفیوشس ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر اور دیگر عملے پر فدائی حملے کے بعد شائع کیا، ویڈیو پیغام پہلی خاتون بلوچ فدائی شاری بلوچ کی ہے جو ایک خوشی کی کیفیت میں بلوچ، دنیا، پاکستان اور چائنا کو اپنا پیغام دے رہی ہیں۔ 

شاری بلوچ اور بی ایل اے کا کمانڈر اپنے پیغام میں بلوچ سرزمین کی غلام واسیوں کو زندہ رہنے، پاکستان سے اپنی بدترین نفرت کا اظہار اور چائنا کو بلوچ دشمنی سے باز رہ کر بلوچستان سے نکلنے کی وارننگ دی رہی ہیں۔ شاری بلوچ جب اپنی زندگی کا حوالہ دیتی ہیں تو جو مسکراہٹ ان کے چہرے پر عود آتی ہے وہ دیکھنے اور محسوس کرنے کے لائق ہے، شاری بلوچ ایک ادا سے موت کے لیے مسکراہٹ سجاتی ہیں یہی وہ ادا ہے جو ایک پختہ نظریاتی شخص کی اپنے کاز کے ساتھ اٹوٹ کمٹمنٹ آشکار کرتی ہے۔

بلوچ صدیوں سے اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے جنگ لڑتے رہے ہیں، موجودہ زمانے میں پاکستان کی ریاست اور اس پر بلوچستان کی جبری قبضے سے قبل بلوچ انگریزوں سے بھی لڑے ہیں اپنی وطن کا دفاع کیا ہے اور قربانی کی تاریخ رقم کی ہے مگر جو تاریخ 26 اپریل کی دوپہر 2.30 بجے رقم ہوئی وہ الگ اور منفرد ہے۔ شاری بلوچ نے جنگ کا نقشہ ہی بدل دیا جنگ کو ایک نئی آہنگ عطا کی، انقلاب کو روایتی معنوں سے ایک جدید آدرش فراہم کی۔

شاری بلوچ عرف برمش بلوچستان کی جنگ آزادی میں اپنی بے بہا قربانی کے سبب پہلی عظیم الشان شخصیت کے طورپر نظر آئے جو مرد بالادست سماج میں عورت ہیں۔

ہم بلوچ جب بھی جنگ اور آزادی کی لڑائی میں گر کوئی مثال لاتے تو جمیلہ، لیلی یا اپنی بانڑی سے آگے نہیں جاسکتے تھے لیکن مجھے یقین ہے کہ بلوچ نہیں اب گر دنیا کا کوئی غلام اپنی قومی آزادی کے لیے بندوق اٹھائے ان کی جنگ علمی طور پر مضبوط اور سیاسی لحاظ سے متحرک جنگ ہو تو وہ شاری بلوچ کی مثال دیے بغیر اپنے نوجوانوں کو متاثر نہیں کرپائے گا، شاری جنگی کیفیات میں ایک انمٹ استعارہ بن گئے ہیں اس کے بغیر آزادی کی جنگیں بے رنگ ہوں گی۔ غلام قوموں کو شاری بلوچ کی صورت ایک بنیاد مل گئی ہے۔

بلوچ آزادی کی تحریک شاری کی عظیم ترین شھادت کے ساتھ ایک دور مکمل کرکے ایک دوسرے دور میں داخل ہوئی ہے آنے والا بلوچ جنگ شاری کی سرشاری سے منسوب ہوگا، شاری کی قربانی بلا شبہ عظیم الشان قربانی ہے جو ہر لحاظ اور ہر حوالوں سے پوری تحریک پر اثر انداز ہوگا، بلوچ نوجوان مرد ہوں یا عورتیں شاری کے اثرات سے کسی طرح بے اثر نہ ہوں گے بلوچستان میں شاری ارا نے جنم لیا ہے۔

یہ دور جنگ آزادی میں شاری بلوچ دور سے شروع ہوئی ہے۔

فدائی شاری عرف برمش کی عظیم المرتبت کارنامے سے پوری نسل خود کو سرزمین پر قبضہ گیری کے خلاف ایک توانا قوت سمجھ رہی ہے۔

شاری بلوچ ہر محفل میں ہر فورم پر، ہر جگہ، ہر گھر میں، ہر خاندان میں ڈسکس ہورہی ہے یہ ڈسکشن دراصل ایک شعوری فیصلہ کے بعد ابدیت کا مقام پانے والی شخصیت کی نہیں بلوچستان کی آزادی کی تحریک پر ہورہی ہے جس کا ماخذ اور بنیاد شاری بلوچ ہیں۔

ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھنے والی شاری بلوچ جو اعلی تعلیم یافتہ مالی طور پر مستحکم اور سماجی لحاظ سے ایک حیثیت رکھتی ہے جن کا بظاہر کہیں دور تک قومی تحریک سے تعلق نظر نہیں آتی نکل کر اس اعلی ترین نہج پر جاکر خود کو ابدیت کے درجے پر لے جا یہ ظاہر کرتی ہے کہ بلوچ جنگ کسی بیرونی قوت کی محتاج نہیں نہ یہ بیرونی فنڈڈ ہے اور ناہی اس پروپیگنڈہ میں دم کہ بلوچ جنگجو ان پڑھ اور جاہل ہیں، شاری بلوچ نے غیر معمولی قربانی سے جتادیا کہ بلوچ جنگ اب جنگی طریقہ کار کے مطابق ہورہی ہے، یہ کوئی بیرونی فنڈڈ جنگ ہے نا ہی بلوچ نوجوان اس جنگ سے مالی فائدہ لے رہے ہیں۔ 

جلد یا بدیر اس جنگ میں بدترین شکست دشمن کا مقدر ہے۔ کیوں کہ دشمن کے پاس اب یہ سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں کہ ان پر کب کیسے اور کہاں سے حملہ کیا جائے گا۔ بلوچ کے پاس قربانی کا اعلی ترین جزبہ پیدا ہوگیا ہے۔

شاری بلوچ کی عظیم الشان اور انمٹ شھادت کے ساتھ ان کے ویڈیو پیغام نے بلوچ سماج پر ایک الگ سحر طاری کی ہے۔ شاری بلوچ کی ہر چیز پر بلوچ نوجوان فخر کررہے ہیں حتی کہ آخری پیغام میں قربانی کا زکر کرتے وہ جب مسکراتی ہیں تو اس مسکراہٹ پر بھی بلوچی ادب میں شاعری کے انبار نظر آتے ہیں اس مسکراہٹ کے اسکرین شاٹ لے کر نوجوانوں نے ایک فخر سے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کیے ہیں۔

معروف بلوچ دانشور انور ساجدی کے بقول شاری بلوچ پر ایک ہی رات میں بلوچستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ لٹریچر لکھا گیا، پوری دنیا میں مقیم بلوچوں نے اس قربانی پر فخر کیا۔

اب ضرورت ہے کہ شاری ارا میں بلوچ اپنی جنگ آزادی کو لٹریچر کی ایک وسیع بنیاد فراہم کریں، شاری بلوچ نے ایک شعوری فیصلہ کے بعد نہ صرف خود کو بلکہ پوری تحریک کو ابدیت کے معراج پر لا کھڑا کیا، اس پہ شان سے لکھا جائے، نوجوانوں کو سمجھانے کے لیے جتنی زیادہ ہوسکے لٹریچر کا سہارا لیا جائے یہ جنگ اب کوئی روایتی عام سا جنگ نہیں شاری بلوچ کے بعد یہ جنگ اب پاکستان کی کسی بدبودار پراپگنڈہ سے متاثر نہیں ہوگی۔ 

شاری ارا میں داخل اس جنگ کو ہر حوالے سے مضبوط بنانے اسے لٹریچر کے ایک وسیع زخائر سے مالا مال بنانے کی ضرورت زیادہ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں