شاری
تحریر: سلیمان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اگر مورخ سے پوچھو گے کہ بلوچ کون ہے؟ تو وہ پھول اور تلوار کی طرف اشارہ کرکے لکھے گا کہ بلوچ امن، محبت اور مزاحمت کا نام ہے۔ دنیا کی تاریخ پر بلوچ کی وسیع امن دوستی اور مزاحمت کی تاریخیں نقش ہیں، بلوچ کی سرزمین پر جہاں محبت کے پھول اجاڑے گئے تو وہاں مزاحمت کے جنگلات نے جنم لیا، یہ جنگلات کسی باہری دنیا کی مہربانی نہیں بلکہ یہ سرزمین بلوچ کی پھولوں کے بیج تھے جسے کانٹے بننے پر مجبور کیا گیا۔ تاریخ کی کتابوں کو پلٹ کر دیکھا جائے تو بلوچ نے اپنی زمین پر کسی مہمان یا باہری مدد لینے والے فرد کو کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجا تو دوسری طرف جب کسی فرعونیت نے بلوچ زمین پر گندے نظروں سے بلوچستان کا رخ کیا تو بلوچ کی مزاحمت نے اسے باور کرایا کہ بلوچ کی زمین پر کسی دوسرے فریق کی کوئی گنجائش نہیں۔
پہاڑوں کے چشمے اور بلوچ کی مزاحمت کبھی ختم ہی نہیں ہوئی، صدیوں سے بلوچستان جنگ کا میدان رہا ہے کہیں نا کہیں کسی نا کسی جگہ پر بلوچ اپنی زمین کی دفاع کیلئے پہاڑوں میں یا زیرزمین مزاحمت کرتا رہا۔
آج یہ اس مزاحمت کا نتیجہ ہے کہ بلوچستان پر کسی کا بھی قبضہ مستحکم نہیں ہو پایا، سینکڑوں سالوں سے بلوچ اپنی زمین کی حفاظت کررہی ہے اور بلوچ کی زمین بلوچوں کی حفاظت میں ہیں۔ اسی زمین کی عشق میں ایک خاتون کب سے اپنی زمین کی حفاظت کے لئے فدا ہونے کے لئے تیار تھی اور کب سے وہ اس دن کی بے صبری سے انتظار میں تھی کہ زمین مجھے پیغام بھیجے گی اور میں قربان ہو جاؤں، پتہ ہے انقلاب میں سب تعریفیں اپنی جگہ لیکن جن سے ملاقات کی خواہش ہو اور وہ بنا بتائے زمین پر قربان ہوجائیں وہاں تکلیف اور افسوس کی کوئی حد نہیں، کوئی بدنصیب ہی ہوگا جو شاری بلوچ سے نہیں ملا ہوگا وہ کہتے ہیں نا کہ موت انقلابی کو اور خوبصورت بناتا ہے۔ شاری کی مسکراہٹیں، شاری کی پیار سے بات کرنا آپکی علم دوستی وہ شاہد ہی کہیں ملیں۔
شاری ایک بات بتاتا چلوں آپ کے بعد آپ کے گاؤں گیا یوں تو دیکھا بظاہر سب اپنے اپنے کام پر لگے ہوئے تھے لیکن کسی گھر کے ایک کمرے میں چار ہم خیال دوست آپکی تعریف میں لب خشک بولے جارہے تھے، پتہ ہے کسی بحث میں لفظ شاری آیا تو وہ بحث ساز پکڑتا گیا اور جملوں میں لبوں پر لفظ شاری اس طرح ادا ہورہی تھی گویا اس لفظ میں کوئی خاص لذت تھی۔
شاری آپ کی تعریف میں کیا لکھوں، آپ کی قربانی نے بلوچ تحریک کو مکمل کردیا۔ پتہ ہے کوئی جنگی منافع خور جو خود کو بلوچ مزاحمت میں کنارے پر گھسیٹا کرتے تھے کہ اگر جنگ کامیاب ہوا تو آزادی کا لیبل لگا کر جہد میں شامل ہونگا اور اگر جنگ ناکام ہوئی تو کنارہ ہو کر پڑا رہونگا کسی کے رحم و کرم پر، لیکن شاری آپ نے ثابت کردیا کہ بلوچ مزاحمت میں جنگی یا مالی منافع خوروں کی جگہ نہیں ہے، آپ نے ثابت کردیا کہ قربان ہونا ہی اصلی انقلابیوں کی نشانی ہے۔
یوں تو ہزاروں کی تعداد میں آپکو انقلابی ملیں گے لیکن اصل انقلابی وہ ہے جو قربان ہونا جانتا ہو۔ اپ نے ثابت کردیا کہ ایک عاشقِ وطن ایک ہی وقت میں ایک ماں، باپ، بیٹا ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خطرناک جنگجو بھی ہے جو اپنی وطن کی دفاع کیلئے سب کی قربانی دینے کیلئے تیار ہے۔
ہم خوش قسمت ہیں ایک تاریخ ساز دور میں زندہ ہیں وگرنہ ایسی تاریخیں تو اکثر کتابوں میں نقش ہوتے ہیں۔ شاری آپ ایک سکول ٹیچر تھی اور آپ نے اپنے طالب علموں اور دشمن کو وہ سبق سکھایا کہ آپ رہتی دنیا تک تاریخ کے کتابوں میں امر ہوگئے یہ وہ عظیم جنگجو اور تاریخ ساز ہوتے ہیں جو موت بھی احترام کا چادر لے کر پہلے تو ان سے اجازت مانگتے ہیں اور پھر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
شاری پہلی بار آپ کو دیکھا تو لگا نہیں تھا کہ آپ وطن کیلئے زمین و آسمان ایک کردینگی پتہ نہیں تھا کہ آپ اس بارودی گروہ کا حصہ ہیں جو دشمن پر قہر برسائیں گی۔ آج سے آٹھ مہینے پہلے اس نوجوان نے آپ کے اور ہیبتان کے بارے میں بتایا کہ آپ دونوں مکمل انقلابی اور بے ترس جہدکار ہو۔ سوچا تھا اگلے مشن میں پھر ملینگے لیکن آپ دونوں کی جہد نے ایسا رنگ بھر دیا کہ اب ہر مشن میں شاری کی شکل میں ملیں گے۔ شاری کی قربانی نے محض جنگ کو ایک رخ نہیں دیا بلکہ ان جنگی منافع خوروں کے منہ پر طمانچہ دیا جو بلوچ جنگ کے نام پر اپنی خواہشات اور بے مقصد تنقید پر مصروفِ عمل ہیں، شاری نے ہمیں پیغام دیا کہ جب تک آپ قربان ہورہے ہیں تب تک ہارو گے نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں