شاری بلوچ کون تھی؟
تحریر: اسد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں گذشتہ بیس سالوں سے سرگرم کالعدم علیحدگی پسند تنظیم بی ایل اے کی مجید بریگیڈ کی پہلی خود کش حملہ آور خاتون شاری بلوچ عرف برمش کون تھی؟ اس کا خاندانی پس منظر کیا ہے؟ اور خود شاری بلوچ کی شخصیت، ان کی سہیلیوں، کلاس فیلوز، خاندان یا ان کے زیر تربیت طالبات اور ساتھی اساتذہ کے ساتھ ان کا رویہ کیسا تھا؟ اس بارے جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
شاری بلوچ کا گھرانہ بلوچستان کی سیاست میں ابتدا سے ایک سرگرم خاندان کے طور پر نظر آتا ہے۔ ان کے والد اور بھائیوں کا گو کہ کبھی سیاست میں بظاہر کردار نہیں رہا تاہم ان کے چچا پروفیسر غنی پرواز زمانہ طالب علمی سے سیاسی طور پر ایک متحرک کردار رہے ہیں۔ اسی طرح ان کے ایک ماموں صدیق آزات بھی بلوچستان کی سیاست میں نمایاں نام کے طور پر یوں جانے جاتے ہیں کہ وہ بلوچ طلبہ تنظیم بی ایس او کی تشکیل کے بنیادی کرداروں میں سے ایک ہیں۔ اس کے علاوہ شاری بلوچ کا گھرانہ علمی اور ادبی لحاظ سے بھی ایک معروف گھرانہ ہے۔ ان کے اپنے والد محمد حیات اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہوتے ہوئے ایک سال قبل بطور رجسٹرار تربت یونیورسٹی ریٹائرڈ ہو گئے جبکہ شاری بلوچ کی دو بہنیں اور ان کے بھائی اہم سرکاری عہدوں پر ملازمت کر رہے ہیں۔ شاری بلوچ خود ایم ایس زوالوجی اور ایم ایڈ کرنے کے بعد شعبہ ایجوکیشن میں ایم فل کا ارادہ رکھتی تھیں۔ وہ اپنی وفات تک گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کلاتک ضلع کیچ میں جے وی ٹیچر (پرائمری ٹیچر) رہیں۔
شاری بلوچ کا نظر آباد میں آبائی گھر کا بیرونی منظر
ان کے ماموں صدیق آزات بلوچی زبان میں ایک معروف ادیب کے طور پر پہچان رکھتے ہیں اور اپنے ادبی وسیاسی خیالات کے سبب کئی سالوں سے سویڈن میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر چکے ہیں۔
شاری بلوچ کے چچا پروفیسر غنی پرواز علمی، ادبی اور سماجی سرگرمیوں کے لیے پورے بلوچستان میں ایک نمایاں نام ہیں۔ ادب، فلسفہ، شاعری، انسان دوستی کے علاوہ متعدد موضوعات پر انہوں نے 40 سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔ ایک سال قبل ان کی آپ بیتی شائع ہوئی تھی۔ وہ بنیادی طور پر افسانہ اور ناول لکھتے ہیں۔ تاہم شاعری اور دیگر اصناف ادب پر بھی ان کی تخلیقات موجود ہیں۔
1991ء کو محمد حیات کے گھر پیدا ہونے والی 31 سالہ شاری بلوچ سات بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھی۔ شاری بلوچ نے بنیادی تعلیم گورنمنٹ گرلز ہائی سکول تربت سے حاصل کی۔ ایف ایس سی گورنمنٹ گرلز کالج تربت سے کیا اور بعد ازاں بلوچستان یونیورسٹی میں ایم ایس زوالوجی کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی تربت برانچ سے ایم ایڈ کی ڈگری بھی حاصل کی۔
شاری بلوچ کے سیاسی خیالات
جب وہ گورنمنٹ گرلز کالج تربت میں زیر تعلیم تھیں، تب ان میں سیاسی خیالات در آنا شروع ہوئے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب بلوچ سیاسی تحریک نوجوان طبقے کو متاثر کر رہی تھی اور کریمہ بلوچ ایک متحرک خاتون لیڈر کے طور پر خصوصاً نوجوان لڑکیوں کو سیاست میں حصہ دار بنا رہی تھی۔
بلوچستان یونیورسٹی میں شاری بلوچ کی ایک بیچ فیلو نغمہ بلوچ (فرضی نام) جو ان کی آبائی گاؤں نظر آباد سے تعلق رکھتی ہیں کے مطابق شاری بلوچ کو یونیورسٹی میں بی ایس او آزاد کی سرگرمیوں میں ہمیشہ دیکھا گیا۔ نغمہ بلوچ کے مطابق جب علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں ان کے والد کا قتل کیا گیا تو شاری بلوچ تعزیت اور دلاسہ دینے کے لیے میرے پاس آئی۔ ان کے مطابق شاری بلوچ ایک بولڈ اور ہمدرد لڑکی تھی۔ ان کی سیاسی سرگرمیاں اپنی جگہ لیکن اپنے لیے جو موت اس نے چنی، کم از کم ہم نے کبھی ان کے بارے میں اس حد تک چلے جانے کا نہیں سوچا تھا۔
ڈاکٹر سمی پرواز شاری بلوچ کے فرسٹ کزن ہونے کے علاوہ لیڈی ڈاکٹر اور بلوچی ادب کے ایک معروف لکھاری ہیں۔ ڈاکٹر سمی پرواز کہتی ہیں کہ شاری بلوچ خاندان میں ہر ایک کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھنے والی لڑکی تھی۔ ان کا رویہ ایک غیر روایتی لڑکی جیسا تھا۔ اپنے خاندان میں گھل مل جانا، ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ، تعلیم کا شوق، یہ ان کے اوصاف تھے۔ ہم نے کبھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ وہ ایک دن اپنے لیے موت کا یہ پرخطر اور المناک راستہ چنے گی۔
شاری بلوچ کے والدین کا نیا گھر
شاری بلوچ کی شادی ڈاکٹر ہیبتان بشیر کے ساتھ یکم مئی 2014ء کو ہوئی۔ ان کے دو بچے 7 سالہ ماہ روش اور چار سالہ میر حسن ہیں۔ وہ این ٹی ایس پاس کرکے 2017ء کو جے وی ٹیچر بھرتی ہوئی۔ ان کی فرسٹ اپوائنٹمنٹ آرڈر گرلز پرائمری سکول نظر آباد میں ہوئی اور پھر 20 اکتوبر 2018ء کو ان کا تبادلہ ان کے شوہر کے قصبے کلاتک کے گرلز ہائی سکول میں کیا گیا۔ یہاں پرائمری سیکشن کے بجائے ٹیچرز کی کمی اور ان کے اعلیٰ تعلیمی اسناد اور قابلیت کی بنا پر ان کو سیکنڈری سیکشن کی کلاسیں دی گئیں۔ وہ گرلز ہائی سکول کلاتک میں جماعت نہم اور جماعت دہم کی طالبات کو سائنس کے مضامین اور اردو پڑھاتی تھیں۔
ایک سٹاف ممبر نے شاری بلوچ کو یاد کرتے ہوئے ان کے اس موت پر افسوس کیا۔ ان کے مطابق شاری بلوچ میں قطعاً ایسی چیز کبھی نہیں دیکھی گئی جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرے کہ وہ خود کش حملہ آور کی صورت اختیار کرے گی۔ ان کا رویہ ناصرف ٹیچنگ سٹاف کے ساتھ بلکہ نان ٹیچنگ سٹاف کے ساتھ بہت زیادہ مشفقانہ رہا۔ وہ سب کی دوست اور سہیلی تھی۔ ان میں پڑھنے کا جنون تھا لیکن سکول میں کبھی اسے سیاسی موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔
شاری بلوچ کی ایک طالبہ کے مطابق کلاس روم میں وہ ایک ٹیچر سے زیادہ ایک بڑی بہن دکھتی تھی۔ تمام طالبات کے ساتھ پیار اور انسیت کے ساتھ پیش آتیں۔ ان کا رویہ کبھی تلخ نہیں رہا۔ وہ غریب طالبات کی مدد بھی کرتی تھیں۔
محکمہ ایجوکیشن کے ریکارڈ کے مطابق شاری بلوچ 22 اکتوبر 2021ء سے سکول سے غیر حاضر تھیں۔ انہوں نے ایم فل کے لیے 27 اکتوبر 2021ء کو سٹڈی لیو کی سکول کو درخواست دی تھی لیکن محکمہ ایجوکیشن نے ان کی چھٹیاں منظور نہیں کیں۔ اس نے 22 اکتوبر 2021ء سے اسکول آنا چھوڑ دیا تھا اور شوہر کے ہمراہ کراچی چلی گئی تھیں۔ سکول میں مسلسل غیر حاضری پر ان کو شوکاز کیا گیا تاہم اس نے اس شوکاز کا جواب نہیں دیا۔
گرلز ہائی سکول کلاتک جہاں شاری بلوچ بطور استاد پڑھاتی رہیں
شاری بلوچ کے والد محمد حیات نے بتایا کہ وہ ان کی سب سے ہنس مکھ اور پیاری بیٹی تھی۔ میڈیا میں ان کے حوالے سے چلائی گئی ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ ان کے تعلقات شادی کے بعد فیملی سے خراب رہے۔ محمد حیات کے مطابق موت سے کچھ دن قبل ایک رات فون کرکے شاری بلوچ نے گھر والوں سے بات کی اور ان کو اپنی عید شاپنگ کے بارے میں بتایا۔ اس نے تمام گھر والوں سے پیار اور محبت سے بات کی۔ ہم عید پر اس کی آمد کے منتظر تھے۔
والد کے مطابق شاری بلوچ کی میت ابھی تک ہمارے حوالے نہیں کی گئی۔ البتہ سرکاری حکام سے ہماری بات ہو رہی ہے۔ امکان ہے کہ عید کے بعد ضروری کارروائی مکمل کرکے میت کی باقیات ہمارے حوالے کی جائیں گی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ شاری بلوچ کی تدفین کو سیاسی رنگ دینے کے حق میں نہیں ہیں، البتہ اگر کوئی جنازہ میں آنا چاہے تو انہیں زبردستی روکا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ شاری بلوچ کو آبائی گاؤں نظر آباد میں دفن کریں گے۔
کلاس کا اندرونی منظر جہاں شاری بلوچ بچیوں کو تعلیم دیتی تھیں
کراچی میں چینی ثقافتی مرکز پر مہلک حملے کے بعد جہاں پاکستان میں حال ہی میں بننے والی حکومت پر ملک میں چینی مفادات کے تحفظ کے لیے شدید دباؤ ہے، وہیں بلوچ معاشرہ منقسم ہے اور ایسے لوگ ہیں جو اس حملے کو حیران کن سمجھتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں ایک خاتون جو دو بچوں کی ماں تھی جو خود ایک استاد تھی، نے تین اساتذہ کی جان لے کر بلوچ سوسائٹی کو کونسا فائدہ پہنچایا۔ بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کی اس کارروائی پر شاری بلوچ اور ہیبتان کے اہل خانہ سمیت بہت سے لوگ ناخوش ہیں۔ ہیبتان کے اہل خانہ نے کھل کر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس فعل کو غیر انسانی اور بلوچ ثقافت کی روایات کے خلاف قرار دیا ہے۔ بلوچوں میں منقسم رائے اور ناخوشی کے پیش نظر یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا بی ایل اے مستقبل میں خواتین کو ایسے مہلک حملوں کے لیے استعمال کرتی رہے گی یا نہیں؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں