زندگی
تحریر: جلال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کبھی کبھی کچھ ہونے سے پہلے کچھ کھونے کاغلبہ چھا جاتا ہے اور شاید یہی کھونا ہی ہونے کی اصل ضمانت ہو۔ زندگی کی بحث زندگی کے ہونے سے ہوسکتی ہے۔ اس کا نہ ہونا تو اٹل ہے اس پہ کیا بحث بازی ممکن ہو سکتی ہے۔ مگر بہت سے مفکر اس نہ ہونے کو ہی زندگی کی اصل ضمانت سمجھتے ہیں۔ بحث زندگی کے دائرے کے سکڑنے اور پھیلانے کی ہو سکتی ہے۔ بحث زندگی کے اندر زندگی کے ہی بنے بنائے اصولوں پہ ہی ہوسکتی ہے۔ بحث زندگی کو زندگی سے ملانے کی ہوسکتی ہے۔ اب یہاں پہ ایک سوال لاگو ہوگا کہ زندگی ہے کیا؟ ایک بہت ہی مشکل سوال اور اس کا آسان جواب کیا ہوسکتا ہے؟
جیسا کہ سائنس کی دنیا میں زندگی سانس لینے اور اعضا کے بروقت کام کرنے پر منحصر ہے اور مذہبی معنوں میں زندگی موت ہی پر منحصر ہے یا دوسرے لفظوں میں اصل زندگی موت ہی کے بعد شروع ہوتی ہے اور بہت سے قول و اقوال پسند لوگ زندگی کو زندہ دلی سے تشبیہہ دیتے ہیں۔
ان کے علاوہ اگر کسی مکتبہ ِ فکر نےصحیح معنوں میں زندگی کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے تو وہ ہے فلسفہ۔ زندگی کی جانچ پڑتال سے پہلے فلسفے نے یہ سوال اٹھایا کہ زندگی بذاتِ خود ہے کیا؟ اور اس کے بعد یہ سوال اٹھایا کہ زندگی کا معنی کیا ہے یا کیا ہیں؟ لیکن حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو فلسفے کی زیادہ تر بحث دوسرے سوال پر محیط ہے کہ زندگی کے معنی اور مقصد کیا ہے۔ اگر دنیا کے دوسرے مکتبہِ فکر کو دیکھا جائے تو سارے پہلے سوال کے ارد گرد گھومتے ہیں اور کہیں نہ کہیں اس پہ مادی اور روحانی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور آپ کیا سمجھتے ہیں زندگی کو، زندگی آپ کے لئے کیا ہے اور کیا معنی رکھتی ہے، یا میں کیا سمجھتا ہوں زندگی کو میرے لئیے کیا معنی و منشا رکھتی ہے یا ہم کیا سمجھتے ہیں زندگی کو ہمارے لئیے اسکی کیا اہمیت اور وقعت ہے۔ ایسا بھی تو ممکن ہے کہ زندگی کو یا زندگی کے معنی کو جانے بغیر بھی تو زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ پھر کیا ان چکروں میں پڑے رہیں کہ زندگی کیا ہے؟ کیا ہمارا ہونا ہماری زندگی کی ضمانت ہے ؟اگر ہم نہ رہیں زندگی ہوگی؟ اگر ہو بھی جائے تو کیا فائدہ جہاں ہم نہ ہوں ۔ اگرہم ہوبھی جائیں وہاں یا یہاں تو ہم کیا زندہ ہیں تا ابد؟ کیا سے کیا ہے زندگی کہاں تک جا سکتی ہے زندگی ، یہ سب ہمارے ذہنی سوالات اور کاوشوں کے نتیجے ہیں ۔ اور یہ نتیجے صحیح ہیں یا غلط کون ان پہ گواہی دے سکتا ہے۔ اگر گواہی دینا ہی انسان کی ضمانت ہے تو سجدہ بھی جائز ہے۔ اگر سجدہ جائز ہے تو زندگی کی بحث بازی کیا جو شروع ہوتی ہی ہے مرنے کے بعد۔
اگر نتیجہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی یہی ہی ہے اس کے بعد زندگی ہے ہی نہیں تو اس کا مطلب ایک سانس سے دوسرے سانس کے درمیان کا فاصلہ ہے زندگی۔ نتیجے اور دعوے بہت سے ہیں انسان کی زندگی کم پڑ جاتی ہے ان نتیجوں کو جانچھنے اور پرکھنے میں۔ ایک جملہ میں نے کہا کہ انسان کی زندگی کم پڑ جاتی ہے ۔اس کا مطلب میرے شعور میں یہ نتیجہ ہے کہ اس دنیا میں زندگی وقتی ہے جو ختم ہونے والی ہے۔ اگر ختم ہونے والی ہے تو ہم کیوں اتنی بے چین بے یار و مددگار سے ہیں۔
آخر ہمیں ایسی زندگی کیوں ملی جس پر ہمارا کوئی سروکار یا دسترس نہیں! اس کا مطلب زندگی اپنے آپ کو جی رہی ہے اور مر رہی ہے ، اس میں ہم کہاں؟ ہوسکتا ہے ہم اپنے آپ کو اس زندگی میں ڈھونڈ رہے ہیں اور وہ بھی جس کی کم مدّت میں۔ اس کامطلب ہم زندگی اور موت کے درمیان تیسرے فریق ہیں جس کی کوئی اہمیت نہیں ، وہ جو کچھ سمجھتا ہے اپنے آپ ہی سمجھتا ہے۔ اُف! دِل میں درد سی ہوجاتی ہے جب یہ تیسرا فریق اپنے شعور میں پہلا فریق ہے ورنہ ہنسی کا مقام ہے۔ اور ہنس کربھی کیا اکھاڑوگے جبکہ انجام ہی سب چیزوں کی کایا پلٹ دیتی ہے۔ اور المیہ یہ کہ ہم جیسے لوگ زندگی میں کچھ کرنےسے پہلے انجام کا انتظار کرتے ہیں اور جب انجام سامنے آتی ہے تو ہمارے پیر لرز نے لگ جاتے ہیں۔ اور دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ معاشرے میں تبدیلی لانے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو تبدیلی ہی کو جمود سمجھتے ہیں۔ اب ان سے کیا گلہ جو اپنے اندر فطری تبدیلیوں کو برداشت نہیں کرسکتے تو وہ معاشرے کو کہاں تبدیلی کی عروج تک پہنچاسکیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ زندگی میں تبدیلی چاہئیے ہی کیوں؟ اس لئے کہ اس کے بغیر نشونما نہیں ہوگی یاکسی چیز کا حلیہ بگڑنا ہی سٹیک ہے کسی چیز کو پروان چڑھانے میں یا کسی چیز کو کسی چیز کی ماہیت سے جڑنے کی یاکسی چیز کو کسی چیز سے معنی دینے کی، آخر اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟
اگر وجہ کو پرے دھکیل کر یہ سوچا جائے کہ ہر کسی چیز کی وجہ تھوڑی ہوسکتی ہے بس چیزیں ہو ہی جاتی ہیں۔ اگر حقیقت کے طور پر ہم اس جملے کو مان بھی لیں تو ہمارے اندر شک و شبہات کی لہریں دوڑ جائیں گی اور ہم محض اس دوڑ میں ایک ایسی سپاہی بن کر ابھریں گے جس کی کوئی اہمیت نہیں علم کی صحرا میں کیونکہ علم حقیقت اور غیر حقیقت کے درمیان ایک لکیر کھینچ لیتی ہے اور ہم جیسے لوگ حقیقت کو دیکھ کر ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ اور کبھی یہ سوچ عاوی ہوجاتا ہے کہ کاش علم ایک دھوکہ ہی ہوتا جہاں ہماری معمول کی زندگی اجڑ نہ جاتی۔ اگر یہاں ہم یہ کہیں کہ زندگی کی بحث بازی علم ہی کے ذریعے ممکن ہوسکتی ہے تو پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا علم ہے کیا۔
ہم عموماً یہ سوچتے ہوں گے کہ علم ایک ایسی بڑی شے یا جاننا ہے جو ذہن کے اندر ہوتی ہے۔ مگر ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ علم کا دروازہ یا چشمہ ایک نہیں ہوسکتا کیونکہ ایک علم کو پروان چڑھانے میں دوسرے علم کا گلا گھونٹنا مقرر ہے۔
اگر علمی دنیا کے اندر دیکھا جائے زیادہ تر انسان کی یہی کوشش رہی ہے۔ صدیوں سے انسان کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ہر چیز کو جانے اور اس کی حقیقت اور ماہیت کو پہچانے، بھلا وہ چیز یا ہستی انسان کے دسترس سے باہر یا محاورہ کیوں نہ ہو۔ کھبی کھبی یہ فطری صلاحیت انسان کو لے ڈوبتی ہے زیادہ جاننا اس کے لئے زہرِ قاتل بن جاتی ہے۔ میرے نزدیک زندگی میں اصل چیز محض جاننا نہیں ہے بلکہ جاننے کے باوجود اس کو اپنے اندر ہضم کرنا اصل جاننا ہے۔ اور یہ علمی دنیا کا سب سے بڑا راز ہے میرے ہاں۔
علم حاصل کرنا ممکن ہے کہیں سے بھی حاصل ہوسکتی ہے چاہے کتابوں کے اندر تنکرز کی ایڈیاز ہوں یا انسانوں کے براہ راست تجربات ہوں وغیرہ وغیرہ۔ علم پر تو ساری عبور کسی کو حاصل نہیں ہوتی اس زندگی میں مگر ضرور انسان ایک ایسے نہج پر پہنچ جاتا ہے اس کم مدت میں کہ وہ کچھ نہ جانتے ہوئے بھی بہت کچھ جانتا ہے بشرطیکہ وہ علم کو جذب کرنا جانتا ہو۔ کھبی کھبی ایسا لگتا ہے جیسے کائنات عیاں سی دکھائی دیتی ہے اور دنیا اپنی ماہیت کو سمیٹنے کی دعوت دیتی ہے اور انسان کی ہونٹوں کی نیچے سے دبی ہوئی باتیں اور ان کے چہرے بغیر اس کے کہے دکھائی اور سمجھی جاتی ہیں۔ اور یہی وقت ہوتا ہے دنیا اور اپنے آپ کو برداشت کرنے کی اور بہت سے لوگ اس نہج پر پہنچ کر پاگل ہو جاتے یا اپنا شعور بذاتِ خود الٹر کر دیتے کیونکہ انہیں زندگی کے اندر دنیا برداشت نہیں ہوتی یا ان میں وہ ہمّت باقی نہیں رہ جاتی کہ وہ زندگی کی تلخیوں کا سامنا کرسکیں ۔ یہی وقت ہوتا ہے زندگی کو برداشت کرنے کی اور زندگی کے رنگوں کو پرکھنے کی چاہے لاکھ کوشش کی جائے دنیا کے قائدے اور اپنے سماج اور روایات کو پرے دھکیلنے کی کیونکہ زندگی کے اندر طرح طرح کی زندگیاں زندگی کر رہی ہوتی ہیں یا زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔
بہت آسان ہے چیزوں کو ریجکٹ کرنا اور بہت سخت ہے ان چیزوں کے بغیر زندگی جینا، مطلب ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں کچھ چیزیں لے کر چلنی ہے۔ صرف دو طرح کے لوگ میرے ہاں ان چیزوں کے بغیر جی لیتے ہیں۔ ایک وہ جو منٹلی ٹرین ہے یاعلم کا دریا ہو اور وہ جانتا ہو کیسے زندہ رہنا ہے اور اسے پتہ ہوتا ہے محض سانس لینا زندگی نہیں ہوتی بلکیں وہ زندگی کے انکھوں میں آنکھیں ملا کر زندگی کا کایا پلٹ دیتی ہے یا قوت رکھتا ہے یا رکھتی ہے۔ اور دوسرا وہ جو پوری طرح سے پاگل ہو کیونکہ اسے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کیونکہ وہ اس دنیا میں رہ کر بھی اپنی ایک اور دنیا جی رہی ہوتی ہے۔ اور اگر آپ یہ پڑھ رہے ہو یا رہی ہو ہمیں پتہ ہے ہم ان دونوں میں سے ایک نہیں ۔تو ہماری زندگی کو علمی دائرے سے سمجھنے کی شروعات یہی سے ہوتی ہے جہاں زندگی آپ کو نہیں جیتی بلکہ آپ زندگی کو جی لیتے ہو اور جینے کے عمل میں کون صحیح یا غلط زندگی گزار رہا ہوتا ہے یہ فیصلہ کون کرے گا؟ یہاں ایک نئی اخلاقیات جنم لیتی ہے جو ایک لمبی ڈیبیٹ ہے۔ زندگی ہمہ وقت اپنے ساتھ بہت کچھ لے کر چلتی ہے اور ان سب چیزوں یا رنگوں کے اندر اپنے آپ کو تلاش کرنا ہوسکتا ہے دشوار ہو مگرممکن ہے۔
جاری۔۔۔۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں