دہشت، عشق اور آزادی – برزکوہی

1987

دہشت، عشق اور آزادی

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

زندگی میں جو کہانیاں ہمارے سامنے سے گذرتی ہیں، انکی پرچھائیاں ہمیشہ ہمارے وجود میں گھر کرجاتی ہیں، تم کسی کہانی کا عنوان، ابتدا و اختتام سب فراموش کرسکتے ہو، لیکن اسکے تاثیر سے نہیں نکل سکتے۔ کسی کہانی کو جھٹلانا کردار کا وصف اور اپنانا ایک نئے اختتام کا موقع بن جاتا ہے۔ اپنی کہانی خود ایسے لکھو، جیسا تم اسے لکھا دیکھنا چاہتے ہو، کیونکہ آخر میں ہم کچھ نہیں سوائے کہانیوں کے۔ ہم ایک ایسی زمین و زماں میں جی رہے ہیں، جہاں ہر آشفتہ سر برقند از آگ بنے، خود کو تختی بنایا ہوا ہے، اور تپش سے اپنی کہانی خود لکھ رہا ہے۔ اب مجھ میں قصہ گوئی کی حجت باقی نہیں رہی، میں محض ایک گواہ ہوں۔

تم جانتی تھی، جس کسی کے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ آخرکار نہیں رہتا۔ زندگی محض مقروض ہڈیوں پر چڑھا ادھار ہے۔ تم نے جسم سے باہر زندگی کی آرزو کی، خواہش رکھی کہ آزاد ہوجاو، تم نے موت کی ہڈیوں میں دانت گاڑھ کر اپنی طرف متوجہ کیا اور غیب میں زندگی کو ترتیب نو بخشی۔ اب تم ہر اس جگہ ہو، جہاں تمہارا ہونا تک مقدور نا تھا، نا ہونے نے یہ ممکن بنایا کہ تم ہوسکو۔ کہتے ہیں کہ تم پاگل تھی؟ وہ غلط بھی تو نہیں، حقیقی آزادی ہوتی ہی اتنی وحشتناک ہے کہ اس سے نظریں صرف خدا یا پھر کوئی پاگل ہی ملاسکتا ہے۔ اور تم جیسے پاگل ہی تو وقت کی آرائش اور تاریخ کا رفتار ہیں۔

حسبِ معمول صبح نیند سے بیدار ہوکر وہ بولتی ہے کہ ” میں ایک دلہن کی طرح سنور کر اس دنیا سے جانا چاہتی ہوں، تاکہ لوگ دیکھ سکیں کہ میں خوشی خوشی دشمن کو نیست کرکے ابد کی جانب عازم سفر ہوں۔” وہ تسلی کیساتھ ہونٹوں پر لالی مَلتی ہے، آنکھوں میں کاجل اتارتی ہے اور ناخنوں پر رنگ چڑھا کر نئے کپڑے اور جوتوں کا نیا جوڑا زیب تن کرکے، پرفیوم چھڑک کر، کندھے پر بیگ لٹکانے کے بعد اپنی دوست سے مسکراتے ہوئے مخاطب ہوتی ہے کہ ” میری ایک خواہش ہے کہ دشمن کے ہاتھوں میرے جسم کا ایک حصہ بھی نا لگے اور میں ہواوں میں تحلیل ہوکر، انکے دوش پر وطن کے فضاوں میں رہوں۔”

پھر وہ اپنے سونے کی چوڑیاں، انگوٹھی اور ہار پہن کر ایک خوبصورت ہنسی کے ساتھ اپنے دوست سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتی ہے “آج میں ہیبو (ڈاکٹر ہیبتان ) کی محبوبہ بن کر تیار نہیں ہورہی، بلکہ اپنے محبوب وطن کی محبوبہ بن کر، بارود و آگ کی ڈولی میں خود کو وطن کو سونپ رہی ہوں۔” وہ رکشے میں سوار ہوکر اپنا آخری یک سطری پیغام لکھتی ہے “رخصت اف اوارون سنگت۔”

چھبیس اپریل کو دوپہر دوبجے شاری کا فون بند ہوجاتا ہے، اس وقت تک وہ گواڑخ کے ایک نازک پھول کی طرح وطن کی ہواؤں میں تحلیل ہوچکی تھی۔

اسکے بعد قیاسات، تاویلات اور تجزیات کا ایک دور شروع ہوجاتا ہے، دشمن ہو یا دوست، سب یہ جاننے اور سمجھنے کی کوششوں میں لگ گئیں کہ ایک پڑھی لکھی، دو بچوں کی ماں خود کو سرِ راہ ایک سوچ کی خاطر کیوں فدا کریگی۔ اسکے وجوہات انسان کے تمام انتہائی جذبات غصہ، بدلا، مایوسی وغیرہ میں ڈھونڈے گئے، لیکن جواب جواب عشق تھا، اپنی سرزمین سے عشق، اور اس فکر سے عشق جس میں سرزمین کی نجات ہے۔

کسی فدائی کے سوچ و عمل کو سمجھنا ہو تو یہ جاننا پڑے گا کہ ہمارے روبرو اشیا محض کسی ایک جوہر کی تجسیم کی صورت میں ہی موجود نہیں، اعمال محض واقعات میں کردار نہیں بلکہ وہ اپنے وجود کے تاثر سے ہماری فطرت کو متاثر کرتی ہیں۔ یہ وجودی تجربے کسی فرد کی باطنی روحانی زندگی ہوتی ہیں۔ یہ تجربات اپنے جوہر کے اعتبار سے غیر معقول ہوتے ہیں اور ایسے بھیدوں سے معمور ہوتے ہیں، جن میں فرد شریک ہوتا ہے اور یقین کا معروض بن جاتا ہے۔ صداقت کی جستجو کیلئے یہ ناگزیر ہے کہ فرد اپنی ذات کو نظرانداز کردے۔ جس انتہا تک وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگا، حصولِ صداقت بھی اسی قدر ممکن ہوگا۔ یہ جو وطن کے احساس میں جلتے شاری ہیں، یہ صداقت کے متلاشی، وہ حساس لوگ ہیں، جو عشق میں سچ اور عشق سے سچ پالیتے ہیں۔

جو فدائی کی موت کو غصہ، بدلا یا مایوسی سمجھتے ہیں، جو اس پر ماتم کرتے ہیں، جو زندگی کو آزادی پر ترجیح دیتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ موت زندگی کے دائرے کا ایک امکان ہے، موت تو سراسر ایک بے معنی خارجی صورتحال ہے، جو زندگی کی بیرونی حد ہے، جو آزادی کی تکذیب نہیں بلکہ تصدیق کرتی ہے۔

آزادی کا شعور انسان کیلئے ہمیشہ سے ہی دہشت کا باعث رہا ہے، یہ دہشت اس لاشیت کا نتیجہ ہے، جو فرد کے جوہر اور اسکے انتخاب کے مابین حائل ہے۔ دہشت میں ہی آزادی کا احساس ہے۔

سارتر خوف و دہشت کے مابین فرق کرتے ہوئے کہتا ہے کہ “خوف، طوفان کی موجودگی میں اسکا خوف ہے، جبکہ دہشت طوفان میں گھِر جانے کے امکان کا خوف ہے۔ اس لیئے دہشت آزادی کا شعور ہے اور انسان پابند آزادی ہے۔” لیکن انسان پھر بھی آزادی سے فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ آزادی، انتخاب کی اذیت ہمراہ لاتی ہے۔

یہ جو فدائی ہیں، یہ انتخاب کرنے والے ہیں، یہ مجبوریوں کے سائے میں نہیں پَلے، یہ آزاد انسان ہیں۔ یہ انتخاب کے دہشت کے مارے، عشق سے نا آشنا لوگ، شاری کی مجبوریاں ڈھونڈ کر تشفی چاہتی ہیں۔

اذیتِ انتخاب سے نجات چاہنے والے لوگ بے شمار بہانے تراشتے ہیں، بات تعقل کی ہو تو کہتے ہیں کہ کائنات میکانکی ہے اور ہم حقیرپرزے، ہماری کوئی حجت نہیں، بات یقین کی ہو تو کہتے ہیں کہ تمام حوادث خدا کے ارادے اور ہم مجبور محض، بات قومی و سماجی آزادی کی ہو تو کہتے ہیں کہ پہاڑ سے کون سر ٹکرائے، ہماری بساط ہی کیا؟ یہ معذرتیں یہ مجبوریوں کی بہانے ہم روز سنتے ہیں، جس کا مقصد اپنی جمعی آزادی ہو یا فردی اس سے دستبردار اور خوف کا شکار ہو کرخود کو ماحول اور حالات کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔ یہ آزادی اور انتخاب سے فرار ہیں جبکہ شاری آزادی اور انتخاب ہے۔

آخر ہماری زندگی کیا ہے؟ ایک طے شدہ میکانکی عمل۔۔۔ کھانا، پینا، سونا، کام کرنا، بچے پیدا کرنا اور مرجانا۔ لیکن کبھی کبھار ہماری گہرائیوں سے ایک آواز ابھرتی ہے اور ہم سے اس بے روح میکانکی عمل کا جواز طلب کرتی ہے، اور یہی لمحہ ہی انقلاب ہے اور یہ انتخاب کہ اس سوال کا جواب دینا ہے، آزادی ہے اور جواب دینے سے قاصر رہنا لغویت ہے۔ اسی لیئے تو یان لوک کہتا ہے کہ ” وہ جو خَلا (وائیڈ) میں کودتے ہیں، وہ انکو جوابدہ نہیں، جو محض پاس کھڑے دیکھتے ہیں۔”

یہ جو “چرب زبان” و “پاگل غلام” حسن مجتبیٰ جیسے ریاستی لکھاری ہیں، انکو معلوم نہیں شاری کردار کو تماشائی نہیں بلکہ فنکار سمجھ سکتے ہیں۔ ایک دانشور کو سمجھنے کیلئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ آیا اسکے تجزیہ کیئے گئے مسائل اسکے ذات سے جنم لیتے ہیں یا نہیں؟ اگر ایسا نہیں تو پھر سوچ غیرحقیقی، معروضی اور محض اکیڈمک ہے۔

شاری کو جو جانتے تک نہیں تھے، شاری کو جنہوں نے دیکھا تک نہیں تھا، شاری کو جو سمجھے تک نہیں تھے، جو شاری کی شعور، شاری کی فکری پختگی، شاری کی بہادری، شاری کی علم و بصیرت، شاری کی صبرواستقامت، شاری کی لامحدود صلاحیتوں اور شاری کی مہرو محبت سے واقف تک نہیں تھے، آج وہ بھی ایک امید و حوصلے کے ساتھ ساتھ، ایک غم اور ایک درد میں گھِرے ہیں۔ پھر جو شاری کے ہمسفر تھے، جو سنگت تھے اور جو شاری کو بطور شاری جانتے و سمجھتے تھے، آج ان کے درد و تکلیف کی سطح کہاں تک ہوگی؟ لیکن رفیقِ راہ انہیں بسمل گاہ سرکرتے ہیں اور تماش بین احساسِ زیاں پر گریہ وزاری کیسے؟ اسی بیچ دہشت، عشق اور آزادی کا افتراق ہے اور اسی تفاوت کو سمجھ کر ہی کوئی اس امر سے واقف ہوسکتا ہے کہ دو بچوں کی ماں، کیسے اپنی اجل بنتی ہے۔

ابھی تک ہم “ہرزہ سر اتنا” نہیں ہوئے، ابھی تک تو “خموشی اے جرس بہتر”، ابھی تک ہم نے کچھ تک نہیں کیا، جو ناکافی کچھ ہورہا ہے، وہ ابتداء ہے، جسے پختہ ہونا ہے، جسے مزید شدت پانا ہے، تخم ریزی ہوئی ہے لیکن آبیاری باقی ہے۔ جس طرح دوست بولا کہ رخصت ہونے سے قبل شاری مجھ سے مخاطب ہوکر بولا “اب میں اپنے مقصد کی طرف جارہی ہوں۔” دوست بولا “شارو تو مارا گریوا نے۔”( شارو تم ہمیں رلاو گے) شاری نے جواب دیا “نہ سنگت شمارا گریوگی نہ انت، شمارا دشمن گریوانگی انت۔ ما تننگا اچ نہ کرتگ، تننگا مارا باز کنگی انت، من قربان باھگا ھوں، اے ہم یک کسانیں بار اے، کل نا اے۔”( نہیں دوست، تمہیں رونا نہیں بلکہ دشمن کو رلانا ہے، ہم نے اب تک کچھ نہیں کیا، اب تک بہت کچھ کرنا ہے، میرا قربان ہوجانا ایک چھوٹا سا بار کندھوں سے اتارنا ہے۔”

شاری کی کہانی کیا ہے؟ سورج کچھ روشنی خریدتی ہے
کیوں؟ دوام کیلئے
کس سے؟ ظلمتوں سے،
غلامی سے، بھوک سے، مایوسی سے، تنہائی سے۔
درد بولی لگاتا ہے ” ایک روح، کچھ روشنی کیلئے” عشق قیمت ادا کرتا ہے، اور مستقبل قبول کرتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں