دو بوند پانی کا سوال؟ ۔ رامین بلوچ

580

دو بوند پانی کا سوال؟

تحریر: رامین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ڈیرہ بگٹی کے علاقے پیر کوہ میں جوہڑوں کا آلودہ پانی پینے کی وجہ سے اب تک کی اطلاعات کی مطابق چالیس سے زائد لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور تین سو سے زائد لوگ متاثر ہوچکے ہیں، جن کی حالت بھی تشویش ناک ہے۔ پیر کوہ میں گزشتہ کئی دنوں سے انسانی اموات رقص کرتے نظر آتے ہیں روزانہ کی بنیاد پر ہلاکتوں کی تعداد اور ہیضے کی وباء میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہورہاہے لوگوں کو اپنی لاشوں کو دفنانے اور ان کو غسل دینے کے لئے پانی دستیاب نہیں، وہاں کے لوگ گزشتہ ایک ہفتے سے سراپا احتجاج ہیں اور حالات کی سنگینی کا اظہار کررہے ہیں انسانی زندگی ازیت بن گئی ہے، لوگ درد، دکھ اور تکلیف سے کراہ رہے ہیں لیکن ریاست ہمدردی کے بجائے اپنی جابرانہ پالیسیوں کے ساتھ اس وحشت ناک قتل عام کا ڈھٹائی کے ساتھ نظارہ کرہاہے، جیسے وہاں موت کوئی کھیل ہواور پنجابی ریاست اس کا تماشائی بن کرلطف اندوز ہورہاہو۔

بد قسمت پیر کوہ جہاں سے گیس نکلتی ہے، جو ڈیرہ بگٹی میں چار بڑے گیس فیلڈز میں سے ایک ہے 1955 سے پنجابی ریاست اس علاقہ کے زیر زمین گیس کو بڑی بے رحمی کے ساتھ لوٹ رہاہے، ایک اندازے کے مطابق صرف سوئی گیس کی یومیہ پیداوارتقریبا چھ سو ساٹھ ملین کیوبک فٹ ہے۔ پیر کوہ اچ اور لوئی گیس فیلڈکا یومیہ پیداوار اس کے علاوہ ہے گیس پیداوار کا یہ سب سے بڑا ذخیرہ جو پنجابی ریاست کی معیشت کو پچھلے ساتھ دہائیوں سے مسلسل ایندھن فراہم کررہی ہے کروڑوں لوگوں کی گیس کی ضروریات یہاں سے پورا کی جارہی ہے اور اس کی آمدنی جو سالانہ کھربوں تک ہیں جسے پنجابی ریاست،اس کی فوجی اشرافیہ، ان کی بیورو کریٹس اور ان کی سیکورٹی ایجنسیز اپنی شاہانہ عیاشیوں کے مد میں خرچ کرتے ہیں ایک طرف وہاں لوگوں کو پانی میسر نہیں دوسری جانب اسی پیر کوہ اور سوئی کے علاقوں میں پی پی ایل اور ریاستی فورسز کو پانی بجلی اور گیس کی فراہمی بلا تعطل جاری ہے۔

وہاں پی پی ایل اور فوجی چھانیوں کے لئے گیس کی پائپ لائن الگ اور بلوچ آبادی کے لیئے مختلف ہے۔ جبکہ پی پی ایل وہاں ارد گرد باڑ لگاکر عام بگٹیوں کی داخلہ پر پابندی لگایا ہوا ہے۔ جس میں عام بگٹیوں کا آنا جاناایسا ہے جیسے برطانوی سامرج نے ہندوستان میں ایسے ایریاز میں سائن بورڈ نصب کر کے لکھاتھا کہ ”انڈین اور کتوں کا آنا منع ہے“

پنجابی ریاست جس نے بلوچستان میں برطانوی سامرج اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے لوٹ مار کو بھی پیچھے چھوڑ دیاہے، صورتحال یہ ہے کہ سوئی شہر کے اندر لوگ اپنے چولہے لکڑیوں سے جلانے پر مجبور ہیں، بگٹی کالونی کے اندر بھی گیس کا دباؤ اور چولہے ٹھنڈے پڑنے کا گلہ زبان زد عام ہے۔ انہیں روزانہ کی بنیاد پر گیس پانی اور بجلی کی شدید قلت کا سامنا ہوتاہے، جبکہ دوسری جانب اس گرمی میں بھی بجلی نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی صورتحال پورے بلوچستان کا ہے قبضہ گیر گوادر کو سی پیک کا جھومر بنانے کی منصوبہ بندی کرکے اسے سنگا پور اور دبئی سے تشبیہہ دینا چاہتاہے لیکن وہاں آبادی پینے کے صاف پانی کے لیئے ترستے ہیں۔ ہزاروں سال سے رہنے والے بلوچ مچھیرے جن کی زندگی کی سانسیں بحر بلوچ سے چلتی ہیں، وہ انہیں مختلف پیرا میٹرز کے زریعے بھوک سے مارکر نو آبادکاروں کو بساکران کی شاہ خرچیوں اور آرام و آسائش کا بندوبست کرتاہے وہاں توسیع پسندی کی نیت سے ریاست چینی سامراج کے ساتھ مل کر رئیل سٹیٹ سڑکیں فاؤسٹارز ہوٹل کی تعمیراتی مد میں کھربوں کی سرمایہ کار ی کرتی ہے لیکن روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں کی تعداد میں گائنی کے مریضوں کے لے ایک ماہر گانا کالوجسٹ نہیں رکھ سکتا۔ ہسپتال میں آپریشن تھیٹر تک موجود نہیں بعض خواتین یا تو زچگی سے مرجاتے ہیں یا پھر مجبورا اپنی سالوں کی جمع پونجی لے کر مہنگے اخراجات کی چکی میں پس کر کراچی جاتے ہیں۔

یہی حال سیندک اور ریکوڈک کاہے، جہاں کے لوگوں کو پانی اور صحت کی کوئی سہولت حاصل نہیں 27 ہزار کی آبادی کو ایک ڈاکٹر اپروچ کرتاہے بلوچستان میں ایسے علاقے ہیں جہاں لوگوں کو سر درد کی گولی نہیں ملتا، پہاڑوں اور دیہی آبادی میں بود و باش کرنے والے لوگوں کو جب آپ ایک پتہ پیناڈول دیتے ہو تو وہ آپ کا اتنا احسان مند ہوکرآپ کو اپنی مسیحا سمجھ کرخوشی سے پھولے نہیں سماتا۔

یہ بلوچستان میں کوئی اولین دفعہ نہیں ہورہاہے بلکہ ریاست بلوچستان پر اپنی جبری قبضہ کے بعد سے اب تک مختلف ہتھکنڈوں کی شکل میں بلوچ نسل کشی کے دائرہ کار ہ کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ پانی کا مسئلہ صرف پیر کوہ تک محدود نہیں پورے بلوچستان کے دیہی آبادی اسی تکلیف سے گزرکر جوہڑوں کا آلودہ اور گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ یہ اتنا گدلا اورآلودہ پانی ہوتاہے جو آبادکار کے علاقوں میں ان کے نالیوں میں بہتاہے جہاں ایک ہی گھاٹ سے حیوان اور انسان اکھٹے پانی پیتے ہیں لوگوں کے پاس اتنی مالیت نہیں کہ وہ وہاں اپنی مدد آپ کے تحت پانی کا انتظام کرسکیں کیونکہ وہاں ایک بورنگ کی تنصیب اور شمسی کے آلات وغیرہ کے اخراجات کی لاگت کئی لاکھوں تک ہے۔ ان کا پیداواری ذرائع مالی داری اور خشکابہ پر ہوتاہے جس سے وہ اپنی زندگی کی سانسوں کے لئے”روٹی“ صرف آکسیجن کے طور پر پیدا کرتے ہیں۔ بس یہ زندگی ان کا مقدر بنای گیاہے، موت جیسی ازیت ناک زندگی غلامی کی شکل میں ان پر جبراً مسلط کیا گیا ہے۔ ان میں نہ ان کا قسمت خراب ہے، نہ کوئی دیوتا ان سے ناراض ہے،نہ وہ کسی گناہ کا سزاکاٹ رہے ہیں اس بے آب و گیاہ چراگاہوں میں فطرت سے باہم بغل گیر ہو بھلا وہ کوئی گناہ کرسکتے ہیں وہ اتنی سادہ ہیں کہ ان کی معصومیت ان کے پیشانیوں کے لکیروں میں ان کی پاکیزگی کی علامت کے طور پرمجسم ہے۔

بلوچستان کے باسی اکیسویں صدی میں بھی آلودہ پانی پینے پر مجبور ڈائنوسار کے زمانے میں چلے گئے ہیں، بلامبالغہ پانی زندگی ہے لیکن بلوچستان میں پانی موت بن چکاہے پانی کا یہ بحران کس قدرتی آفات کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ پنجابی ریاست کی پیداکردہ منصوبے ہیں پنجابی کالونائزرساتھ دہائیوں سے جس خطے کا گیس بے دردی کی ساتھ لوٹ کر اپنی معیشت کو چلارہی ہے، اپنے معاشی پیٹ کی آگ بجھارہی ہے جہاں لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں وہاں گیس لوٹنے کے لئے ہزاروں میل پائپ لائن بچھا ئی جاسکتی ہے گیس صاف کرنے کے لئے پلانٹ لگائی جاسکتی ہے گیس زخائر کے لئے سینکڑوں کنویں کھدوائی جاسکتی ہے ریکوڈک اور سیندک کے لوٹ مار اور اس کے سستے داموں فروخت کے زریعے اپنی قرضے ادا کی جاسکتی ہیں، وہاں دو بوند پانی کے لئے ترسنے والے اور تڑپ تڑپ کر جان دینے والے ماہ نور بگٹی اور اسد جان سمیت اس دیس کے باسیوں کے لے پانی کا ایک پائپ لائن نہیں بچھاسکتی۔ ایک بورنگ نصب نہیں کیا جاسکتا لوٹ مار کرنے والے نوآبادیاتی اور مقامی اشرافیہ کے ٹیبلوں پر روزانہ لاکھوں روپے مالیت کے پانی منرل واٹر کی صورت میں موجود ہوتاہے۔ وہ شہروں میں نلکوں کی پانی کی موجودگی کے باوجود بھی منرل واٹرپیتے ہیں، تو دیہی علاقوں میں آلودہ پانی پینے والے باسیوں کے اموات سے لاتعلق ہوکر بڑی بے شرمی کے ساتھ کہا جاتاہے کہ وہاں پانی کا اتنا بڑا مسئلہ یا بحران نہیں جسے سوشل میڈ یا میں ا چھالاگیا ہے۔ قدوس بزنجو جیسے ریاست کے اہل کاروں سے وہ باسی سوال کرتے ہیں کہ گیس پائپ کی تنصیبات کے رکھوالی کے لئے ہزاروں کی تعداد میں سیکورٹی فورسز کو بھٹاکر ان کی تنخواہ کا بندوبست بلوچستان کی آمدنی سے کرسکتے ہو جگہ جگہ چیک پوسٹوں پرایف سی اہلکاروں کو پانی اور راشن مہیا کرسکتے ہو لیکن ڈیرہ بگٹی میں ڈائریا سے مرنے والوں کو صاف پانی فرائم نہیں کرسکتے؟ جو اس سرزمین کے مالک ہیں، جن کا گیس تیل زیر زمین وسائل سمندر سونا چاندی لوٹا جارہاہے اس کا حق نہیں بنتا کہ انہیں پانی مہیا کی جاسکے؟

دکھ اور تاسف کی بات ہے کہ ڈیرہ بگٹی میں اتنا بڑا انسانی بحران پیدا ہوجاتا ہے لیکن بلوچستان کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ بڑی بے شرمی کے ساتھ کہتاہے کہ پیر کوہ میں حالات کنٹرول میں ہیں سوشل میڈیا میں صورتحال بڑھا چڑھا کر دکھا یا جارہاہے لیکن دوسری طرف وہاں کے بی ایچ یوزکے عملے اور صحت کے منتظم باربار کہہ رہے ہیں کہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے اور روازانہ کی بنیادوں پر اموات میں اضافہ ہورہاہے جب کہ خدشہ ہے کہ ڈایریا اور ہیضہ کی وباء سے ہزاروں کی تعداد میں مزید لوگ موت کے منہ میں جاسکتے ہیں۔

جب کہ اس صورتحال سے انسانوں کے ساتھ ساتھ مویشی بھی متاثر ہورہے ہیں اور اس بحرانی صوتحال کو صاف و شفاف پانی کی فراہمی کے بغیر قابو نہیں کیا جاسکتا لیکن ریاست اور اس کے گماشتہ قوتوں کو کیا پروا وہ اس سے بے پرواہ ہے انہیں ہماری زندگیوں سے کوئی سروکار نہیں وہ جوہماری موت پر اپنی زندگی بسانا چاہتے ہیں انہیں ہماری دولت اور وسائل سے غرض ہے ہم سے کوئی دلچسپی نہیں ہم ڈائیریا سے مریں بھوک سے مریں پیاس سے مریں غربت سے مریں روڈ حادثات میں مریں،ریاست کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ کل پوری آبادی موت کے منہ میں چلا جائے یہ اس کا مسئلہ نہیں وہ صرف لوٹ مار کو جانتاہے ان کے نزدیک ہمیں زندہ رہنے کا حق حاصل نہیں تو وہ پھر کیوں کر ہمارے لئے افسوس کرے؟

پھرہم کیوں اس سے توقع رکھیں کہ وہ ہمیں بچائے گاہم اس کا احسان مند کیوں رہیں جبکہ وہ ہمیں بچانے کے بجائے مارنا چاہتی ہیں۔ نسل کشی صرف جسمانی تشدد تک محدود نہیں قبضہ گیر مارنے کے لئے صرف بندوق کا استعمال نہیں کرتے بلکہ ہر وہ زرائع استعما ل میں لاتی ہے جو اس کے قبضے کو تحفط دے سکیں، جو اس کے لوٹ مار کو جواز فراہم کرسکیں لیکن ہمیں سوچنا ہوگا کہ غلاظت اور گندگی پر مبنی اس نو آبادیاتی نظام کو کس طرح جڑ سے اکھاڑسکیں۔ اب ہمیں رونا نہیں ہے بھوک و پیاس اور روڈ حادثات میں مرنے کے بجائے اس سے ٹکرا کے اگر ہم شہید ہوجائیں تو روز کے اس مرنے سے زیادہ شاندار ہوگا۔ جو ہم بھوک میں جھیلتے جھلتے مرجاتے ہیں ہمارے بچے غذائی قلت اور بیماریوں سے تڑپ تڑپ کر جان دیتے ہیں اس سے کئی بہتر ہے کہ ہم ریاست کے خلاف وہ حالات پیدا کریں کہ جس کی ایوانوں میں لرزہ طاری ہوجس کی بنیادیں ہل جائیں، شراب کے ٹمریوں پر بکنے والے ان کے پارلیمانی جماعتوں کے بوسیدہ نظام کومفلوج کریں
ڈیرہ بگٹی کے دیس وادی تم نے آواز اٹھائی ریاست کو للکارابس اس آواز کو یکجاء کرکے ایک گونج میں تبدیل کرو اسے طاقت دو، اسے ایک نظریہ دو، اسے آزادی کے مقصد اور منزل سے منظم کرواس لوٹ مار اور استحصال کو روکنے کا ایک ہی راستہ اور مشن ہے وہ آزادی کی جدوجہد کا راستہ ہے جو شہداء کا میراث ہے وہ ہم سے تقاضہ کرتی ہے کہ نوآبادیاتی درندگی کے اس گھاؤکوانہیں ایک گہری چوٹ کے طور پر واپس کرنے کے لئے یہی واحدراستہ ہے جس میں سماج کے تمام چھوٹے چھوٹے راستوں (پگڈنڈیوں)کو تحلیل کرکے جہد آزادی کے شاہراہ سے وابسطہ کرنا ہوگا یہ جدوجہد جو آنے والے نسلوں کے لئے ہماری نسل پر قرض ہے ہم آنے والے نسلوں کو بھوک و پیاس سے اور غلامی کے ذلتوں میں مرنا نہیں دیکھنا چاہتے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں