تربت: جبری گمشدگیوں کے خلاف عیدالفطر کے روز طلباء سراپا احتجاج

418

بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں عیدالفطر کے روز جبری گمشدگیوں کے خلاف طلباء و طالبات نے احتجاج کرتے ہوئے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا –

تربت کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلباء اور طالبات نے ہاتھوں میں پلے کارڈز، لاپتہ افراد کی تصویریں اور بینرز اٹھا کر پریس کلب سے ہوتے ہوئے مختلف شاہراہوں پر مارچ کیا اور بعد ازاں شہید فدا چوک پر دھرنا دیا – جس میں سول سوسائٹی، آل پارٹیز، حق دو تحریک سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی –

اس مظاہرے میں جبری گمشدگیوں کے افراد کی لواحقین بھی شریک تھے – جنہوں نے اپنے پیاروں کی عید کی کپڑے اور جوتے ساتھ لائے، جو اب لاپتہ ہیں –

اس موقع پر طلباء رہنماؤں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سمیت ملک بھر کے تعلیمی اداروں سے طلباء کی جبری گمشدگیوں میں تیزی سے یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ مقتدرہ حلقے بلوچ کو مذید پسماندگی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں –

انہوں نے کہا کہ بیبگر امداد کو پنجاب یونیورسٹی سے سرعام جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا اور اسی طرح کئی طلباء کو رواں سال لاپتہ کیا گیا ہے –

انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ انکو کس جرم میں لاپتہ کیا جارہا ہے –

طلباء رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان میں نوجوانوں کو خوفزد کرنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے – انہوں نے کہا کہ آج مسلمان عیدالفطر کی خوشیاں منا رہے ہیں لیکن بلوچستان میں مائیں اپنے بچوں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں –

طلباء رہنماؤں نے کہا کہ حیات بلوچ سے لے کر بیبگر امداد تک سب کو بلوچ ہونے کی سزا دی جاری ہے جو بلوچ دشمنی تصور کیا جائے گا –

انہوں نے جبری گمشدگیوں کے شکار بلوچ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ طلباء کو پرامن ماحول پڑھنے کا حق دیا جائے جو دیگر طلباء کو حاصل ہے –