بیبگر امداد بلوچ کو گرفتار نہیں بلکہ جبری لاپتہ کیا گیا ہے – بلوچ کونسل پنجاب یونیورسٹی

468

بلوچ کونسل پنجاب یونیورسٹی کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ طالب علم بیبگر امداد کو پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یونیورسٹی انتظامیہ کے ہمراہ اغوا کرکے لاپتہ کیا۔ بیبگر امداد، نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں انگریزی ادب کے ساتویں سمسٹر کے طالب علم ہیں، جو عید کی چھٹیاں گزارنے لاہور اپنے کزن کے پاس آیا تھا، جب 27 اپریل کی صبح 7:30 بجے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے یونیورسٹی انتظامیہ کے ہمراہ آکر پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر 7 سے اُنہیں اغواء کرکے لاپتہ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ویڈیو فوٹیج میں صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ جبری گمشدگی کے وقت بیبگر امداد پہ تشدد کرکے انہیں گھسیٹ کر لے جایا جاتا ہے۔ اس غیر قانونی عمل کو جواز فراہم کرنے کے لئے مبینہ طور پر کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (CTD) بیبگر امداد کو کراچی میں پیش آنے والے ایک واقعے سے جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس بات کا اب تک نہ کوئی ثبوت سامنے لایا گیا ہے اور نہ ہی سی ٹی ڈی کی جانب سے کوئی ایف آئی آر یا وارنٹ پیش کی گئی ہے۔ جس کے سبب ہم اس عمل کو گرفتاری نہیں بلکہ جبری گمشدگی قرار دیتے ہیں۔ ملکی میڈیا پر سی ٹی ڈی کے نام پہ چلنے والی خبروں کی بھی ابھی تک کسی آفیشل ذرائع سے تصدیق نہیں کی گئی، جو بلوچ طلباء کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرتی ہے اور جس کے سبب بیبگر کی حفاظت کے حوالے سے ہم انتہائی پریشان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی وہی ادارہ ہے جو 8 فروری 2022 کو خضدار کے ایک نجی اکیڈمی سے دوران کلاس سینکڑوں طلباء اور اساتذہ کے سامنے جبری گمشدگی کے غیر آئینی عمل کا شکار بننے والے ایم-فل سکالر حفیظ بلوچ کو دو مہینے بعد 30 مارچ کو ایک جھوٹی اور من گھڑت ایف آئی آر کے ساتھ ضلع نصیر آباد سے منظرعام پہ لاتا ہے۔ ہمیں تشویش ہے کہ اس طرح کا ایک جھوٹا کیس اب بیبگر امداد کے خلاف تشکیل دیا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ حفیظ بلوچ اور بیبگر امداد کی جبری گمشدگی اسلام آباد اور پنجاب کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بلوچ طلباء کی ہراسمنٹ اور پروفائلنگ کا نتیجہ ہے۔ بلوچ طالبعلموں کی جبری گمشدگی کے بڑھتے واقعات نے ہمیں انتہائی عدم تحفظ کا شکار بنایا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک خوف و ہراس کا ماحول بناکر بلوچوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی ایک دانستہ کوشش کی جا رہی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ ہم بیبگر امداد کی جبری گمشدگی کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ اگر بیبگر امداد کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کے مکمل ذمہ دار قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور انتظامیہ ہوگی۔ بیبگر امداد کی غیر قانونی جبری گمشدگی کے بعد 27 اپریل کی صبح سے ہم وی سی آفس کے سامنے احتجاج پہ بیٹھے ہیں، جہاں ہمیں مختلف حربوں سے تھریٹ کیا جا رہا ہے کہ ہم اپنا پُرامن احتجاج ختم کردیں۔ آج سے تین دن پہلے یونیورسٹی کے اندر ایک پیس واک کا اہتمام کرنے کے بعد جب ہم وی سی آفس کے سامنے پہنچے تو انتظامیہ کی طرف سے ہم پر تشدد کیا گیا، جس کے سبب ہمارا ایک ساتھی بے ہوش ہوگیا۔ ہم یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم پر جتنا بھی تشدد کیا جائے یا دھمکانے کی کوشش کی جائے، ہم بیبگر امداد کی با حفاظت رہائی تک اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے۔

طلباء رہنماؤں نے کہا کہ آپ کے توسط سے ہم حکامِ اعلیٰ تک اپنی آواز پہنچانا چاہتے ہیں کہ وہ بلوچ قوم و بلوچ طالبعلموں کے خلاف اپنے اجتماعی زیادتی کی پالیسی ختم کریں، جو بلوچ طلباء کو مسلسل تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش ہے۔ ہمارے احتجاج کا سادہ سا مطالبہ ہے کہ بیبگر امداد کو جلد از جلد با حفاظت رہا کیا جائے۔ پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ کے درخواست اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے ملاقات کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف ہمیں یقین دہانی کی گئی کہ نو مئی تک بیبگر امداد کو قانونی طریقے سےمنظرِ عام پر لایا جائے گا، یا اُسے رہا کیا جائےگا ۔ مگر جن نقاط پر ہماری انتظامیہ سے بات ہوئی تھی، یونیورسٹی انتظامیہ اُن پر عملدرآمد نہیں کر رہا ، جس کے سبب ہم وی سی آفس کے سامنے اپنا احتجاجی دھرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔اور ہمارا یہ احتجاجی سلسلہ بیبگر امداد کی رہائی تک جاری رہے گا۔ہم یونیورسٹی انتظامیہ کو یہ واضح کرنا چاہتے ہیں، کہ اگر بیبگر امداد کو رہا نہیں کیا گیا تو ہم اس سے سخت اقدامات لینے اور یونیورسٹی کو مکمل طور پر بند کرنے پہ مجبور ہوں گے۔ جس کی ذمہ دار یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومتِ وقت ہوگی۔