ہوشاپ سے بی بی نورجان اور کراچی سے بی بی حبیبہ کی اغواء نما گرفتاری، ان پر جھوٹے مقدمات دائر کرنے اور چادر و چاردیواری کی پامالی کے خلاف بلیدہ زامران کے سیاسی و سماجی کارکنان کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی جوکہ کوچگ سے الندور اور میناز سے ہوتا ہوا سلو میں قافلے کی صورت میں یکجا ہو کر سوراپ لیویز تھانہ پہنچنے پر جلسہ کی شکل اختیار گیا، جہاں مظاہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
مظاہرین نے خواتین کی جبری گمشدگیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے قومی غیرت پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ بلوچ قومی اقدار ننگ و ناموس کی پِلرز پر کھڑی ہے جس پر قوم کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ ریاستی اداروں نے ایسا قدم اٹھا کر ریاست اور عوام کے درمیان دوری اور نفرت کی بیج بو دی ہے جس کے خطرناک نتائج نکلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ بنگال میں آزمودہ ناکام پالیسی کو بلوچستان میں دہرانے سے وہی پرانے نتائج برآمد ہونگے جس کا خمیازہ ریاست نے اٹھا لیا تھا۔ ریاست کے پالیسی سازوں کو اپنی جابرانہ روش ترک کرنا پڑے گی اور بلوچ قوم کی منفرد شناخت کو تسلیم کرتے ہوئے قومی اقدار و آبرو کو عزت و تکریم سے دیکھنا پڑے گا وگرنہ ظلم کے خلاف اٹھنے والی آوازیں قہر بن کر ظالموں پر ٹوٹے گی۔
مظاہرین نے ہوشاپ اور نظرآباد کے متاثرین کے لواحقین کیساتھ اظہار یکجہتی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے کسی بھی کونے پر اگر زیادتی ہوگی تو پورے بلوچ وطن میں اس درد کو برابر محسوس کیا جائیگا اور اسکے خلاف مزاحمت کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ظلم و جبر کے تسلسل سے بلوچ قوم کو اس قدر پیچھے دھکیلا گیا ہے کہ یا تو اسے خاموش موت تسلیم کر لینا ہوگا یا پھر مزاحمت کرکہ باعزت زندگی کے حصول کی جدوجہد کرنی پڑے گی۔ اور اسی اثناء میں بلوچ نے مزاحمت کو آخری آپشن مان کر جدوجہد کا الم بلند کیا ہے جسے روکنا کسی طاقت کے بس کی بات نہیں ہے۔
مظاہرین نے پُرزور مطالبہ کیا کہ جبری گمشدہ خواتین اور لاپتہ افراد کو فوری رہا کیا جائے اور قوم کو اذیتوں سے نجات دیا جائے۔
آخر میں متفقہ طور پر ہوشاپ اور ڈی بلوچ کے مظاہرین کیساتھ اظہار یکجہتی کیلئے کل بروز اتوار بلیدہ زامران سے ریلی کی صورت میں شرکت کرنے اعلان کیا گیا۔