بلوچ مسنگ پرسنز اور بی این پی (مینگل)
امیر بلوچ ساجدی
اگر ہم بلوچ زمین بلوچستان کے نقشے کا جائزہ لیں تو ہمیں وہاں سیاسی ؤ مزاحمتی تاریخ کے باب ملتے ہیں جوکہ درد سے بھرے پڑے ہیں
2000 سے لیکر اس دن تک کم از کم 18 سے 20 ہزار بلوچ مارے اور لاپتہ کئے جاچکے ہیں، جن میں بلوچ اسٹوڈنٹس، بلوچ پولیٹیکل ایکٹوسٹ، ٹیچرز، ڈاکٹروں سمیت اور کئی شعبوں سے تعلق رکھنے والے لاپتہ ہوئے ہیں، اُن میں سے بہت لوگوں کے لاشیں بھی ملیں ہیں، جن میں کچھ شناخت ہوئے اور کچھ ناقابل شناخت تھے، جوکہ ریاست کےلئے ایک شرمناک عمل ہے.
اس طرح کے غیر انسانی پالیسیاں مزید(Systematically) جاری ہیں جو کہ ایک نہ رکنے والی پالیسی کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے اور یہاں بات آتی ہے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) BNP (M) کی جوکہ خود کو ایک قوم پرست اور بلوچ قوم کے ہر درد کا حصہ تصور کرتا ہے اور وہ یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ وہ سیاسی ہرفورم پر بلوچستان کے مسنگ پرسنز کےلئے آواز بلند کرتا ہے جوکہ بلوچ قوم کےلئے قابل قدر ہے اور جب سے BNP (M) نے وفاقی حکومت میں شمولیت کی ہے اور اس کے لوگوں نے نشستیں اٹھا لئے ہیں تو بلوچستان کے عوام کا بھروسہ اڑ چکاہے.
ظاہر سی بات ہے کہ جب نواز شریف برسراقتدار تھا تو اُس نے سردار اختر مینگل کو اپنے حکومت میں شمولیت کرنے کی دعوت دی تھی تو سردار اختر مینگل نے براہ راست انکار کیا تھا کہ وہ وفاق میں تب تک شمولیت نہیں کرینگے جب تک بلوچستان کے سارے مسنگ پرسنز بازیاب نہیں ہونگے، اور سردار اختر مینگل نے یہ بھی کہاتھا کہ “میں بھی لاپتہ لوگوں کے گھر والوں میں سے ایک ہوں کیونکہ میرا بھائی بھی اسی ریاستی تسلسل میں غائب ہوا جو آج تک کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کو ماردیا گیا ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ابھی تک زندہ اور ریاستی ٹارچر سیلوں میں ازیت سہہ رہے ہیں”.
نواز شریف حکومت نے سردار اختر مینگل کی اس غصہ کو دیکھ کر تو وہ یہ پورے طور پر سمجھ گیا کہ سردار اختر مینگل کی پارٹی وفاق میں شمولیت نہیں کرینگے.
خیر اسی طرح وہ وقت تو گزر گیا جب نواز شریف کے بعد عمران خان برسراقتدار آیا تو اُس نے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) پہ غور نہیں کی تو ظاہر ہے کہ سرادر مینگل کی دل میں بھی دکھ پیدا ہوا کہ اُسے عمران حکومت نے موڈ نہیں دیا اور سردار اختر مینگل پی ٹی آئی کی مخالف بنی.
جب پاکستان مسلم لیگ(ن) کے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک چل رہی تھی تو سردار اختر مینگل نے اپنا وہی بدلا چکانے کےلئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ دیا تاکہ وہ متفقہ طور پر عمران خان کو ہرائیں.
11 اپریل 2022 کو جب میاں شہباز شریف اقتدار میں آیا تو سردار اختر مینگل نے سیدھا جاکر اسلام آباد میں میاں صاحب کو مبارک باد دی اور بات چیت کرکے وفاقی حکومت میں شمولیت اختیار کیا اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے لوگوں نے وفاقی نشستوں کو سنبھالنا شروع کردیا.
یہ سب دیکھ کر ظاہر ہے کہ بلوچ قوم کے دل میں ایک آگ بھڑک اٹھی پہلے تو بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) یہ دعویٰ کررہا تھا کہ وہ اُس وقت تک وفاق میں شمولیت نہیں کرینگے جب تک بلوچستان کے تمام لوگ بازیاب نہیں ہونگے، کیا بلوچستان کے لوگ باز یاب ہوگئے جو سردار اختر مینگل کے پارٹی نے وفاق میں شمولیت کی، اس طرح کے بہت سے سوالوں نے جنم لیا.
خیر جو ہوا سو ہوا، بعد میں سمی دین، ماما قدیر نصراللہ بلوچ، فریدہ بلوچ اور کچھ لوگوں نے یہ اُمید رکھنا شروع کردیا کہ اب اپنے قوم پرست پارٹی بی این پی (مینگل) کے لوگوں نے وفاق میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں وہ سب سے پہلے بلوچستان کے مسنگ پرسنز کے معاملے کو سامنے لائیں گے اور بہت جلد اس مسئلے کے حل کو ڈھونڈنے کی کوشش کرینگے.
مگر کچھ نہیں بدلا حالانکہ CTD کی جانب سے پنجاپ کے یونیورسٹیوں میں بلوچ اسٹوڈنٹس کو لاپتہ کرنے کا ایک اور منظم طریقہ شروع ہوا اور بلوچستان میں فوجی آپریشنز مزید شروع ہوئیں اور لوگوں کا لاپتہ ہونے کا ایک سلسلہ شروع ہوا، اسی طرح لاشیں گرنے میں نظر آنے لگیں اور مزید بلوچستان کے حالات خراب ہونے لگے.
یہ دیکھ کر بھی بلوچستان نیشنل پارٹی( مینگل) کے لوگ وہ جو وفاق کے نشستوں کو سنبھال رہے ہیں وہ کیوں خاموش ہیں وہ کوشش کریں کہ اس مسئلے کو سیاسی بنیاد پر پارلیمنٹ میں لائیں اور وفاقی حکومت سے اس مسئلے کا نوٹس لیں تاکہ بلوچستان میں لاپتہ ہونے والا سلسلہ بند ہوجائے اگر وفاق اس مسئلے کو سیرئس نہیں لینگے تو وہ استعفی دیں تاکہ وفاق کے لوگ جانیں کہ وہ بلکل ناراض ہیں کونکہ اُن کے لوگ لاپتہ ہے اگر وہ یہ نہیں کرینگے تو مستقبل میں BNP (Mengal) کےلئے بلوچ قوم اور بلوچستان کے لوگوں کے دل میں کوئی جگہ نہیں ہوگا.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں