بلوچ عورت اور کلاسیکل روایات
تحریر:اسد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کلاسیکل بلوچی شاعری کا ایک وسیع زخیرہ عشق و رزمیہ داستانوں سے مزین ہے اور اس کا ماخذ عورت ہے۔ ھانی کی شے مرید کے ساتھ انمٹ عشق کو جدید بلوچی شاعری میں وطن سے محبت کے طور پر تشبیہ دی جاتی ہے جبکہ رزمیہ کلاسیکل شاعری میں اپنے کزن اور شوھر کے خلاف مھناز کی بغاوت سے لے کر دشمن کے خلاف بی بی بانڈی کی عملی مزاحمت تک عورتوں کی تقدیس اور تکریم کے ہزارہا واقعات پائے جاتے ہیں۔ سمی کی میار جلی میں دودا کی ماں کے پر شکوہ قلمات انہیں نوشادی شدہ بیوی سے جدا کرکے جنگ میں شھادت تک لیجاتے ہیں۔
سمی کی تکریم پر جان دینے والے دودا کی والدہ بین یا ماتم نہیں کرتی بلکہ شادی کا جوڑا پہن کر پورے گاؤں میں فخر سے گھومتی ہے۔
قدیم غیر تعلیم یافتہ دور سے جدید بلوچ سماجی ڈھانچے تک مگر اس تمام سفر میں عورت کی تقدیس اپنی جگہ برقرار رہی، بلوچ اپنے قبائلی اور خاندانی جنگوں کا فیصلہ قرآن کی حرمت سے زیادہ عورت کی لاج رکھ کر کرتے ہیں۔
اسی زمانے کی بات ہے ایک بڑے قبائلی نواب اکبر خان بگٹی نے ایک غیر بلوچ مہمان عورت شازیہ خالد کی عزت اتارنے والے ایک فوجی کیپٹن کو سزا دلانے کا سادہ سا مطالبہ کیا لیکن بلوچ روایات سے عاری ایک فوجی آمر نے بردباری اور سمجھ بوجھ سے کام لے کر اپنے ایک فوجی اہلکار کو سزا دلانے کے بجائے بوڑھے بلوچ سردار کو ہی للکارا اور ان کے ساتھ جنگ چھیڑ کر اسے وہاں سے ہٹ کرنے کی دہمکی دی جہاں ان کے بقول سوچا نہیں جاسکتا مگر کیا ہوا بوڑھا بلوچ سردار جدید بلوچی ادب میں ایک امر کردار اور سیاست میں مزاحمت کا استعارہ بن گیا۔
فوجی آمر کی ہٹ دھرمی، انا اور روایات سے عاری طریقہ کار کے سبب بلوچستان میں وہ شورش بپا ہوئی جو تھمنے کے بجائے بھڑکتا جارہا ہے۔ ایک فوجی کی آمرانہ زہنیت نے بلوچستان کو آتش کدہ بنایا جس کے انگاروں میں جل کر سینکڑوں بلوچ پیر و جوان تعلیم یافتہ و ان پڑھ خاک بسر ہوئے مگر نتیجہ کیا نکلنا تھا سو اب بھی دور دور تک کچھ نظر نہیں آرہا۔
پرویز مشرف کی بلوچستان کے معاملے میں فسطائی زہنیت کو بد قسمتی سے ریاستی بیانیہ بناکر آگے بڑھایا گیا، بلوچستان میں جلتی آگ کو بجھانے اور خون کے دھبوں کو دھلانے کے بجائے ان پر پٹرول چڑھکایا گیا مذید خون بہائے گئے۔ سو اس وقت کا بلوچستان ایک جنگ زدہ خطہ ہے، یہاں لاشیں ہیں یہاں نوحہ ہے لیکن آج بھی بلوچ مائیں جوان بیٹوں کی لاشوں پر گریہ نہیں کرتیں یہ محض دعوی نہیں نہ ہی افسانوی باتیں ہیں بلوچستان اور بلوچ مزاج کو سمجھنے والے ہی اسے سمجھتے ہیں سو بہتر ہے کہ سمجھنے پر دھیان دیا جائے۔
اگر اب بھی کوئی ایسا ہے جو معاملات سدھارنے کی خواہش رکھتا ہے تو جنگ زدہ بلوچستان کا انکار کرنے کے بجائے زیادتیوں کا اقرار کیجیے، اپنی غلطیوں کو تسلیم اور ان کا اعتراف کیجے، یہاں نوجوان اغوا ہوتے رہے، سیاسی کارکنان لاپتہ کردیے گئے، مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں میڈیا سے لے کر سیاسی جماعتوں تک سب نے سب کچھ دیکھا مگر کچھ نہ کہا ان کی خاموشی ایک طرح سے “ہاں” تھی۔
بلوچ نوجوانوں کے بعد عورتوں کی جبری گمشدگی کا خطرناک سلسلہ شروع کردیا گیا ہے جس کے نتائج اس سے بدتر ہوں گے جس کا پرویز مشرف اور ان کے ہمنواؤں نے سوچا نہیں ہے۔
جن کا خیال ہے کہ وہ عورتوں کی پکڑ دھکڑ اور جبری گمشدگی سے بلوچستان میں بیس سالہ شورش پر قابو پائیں گے ان کی غلط فہمی کا کوئی ازالہ نہیں کیا جاسکتا۔ بلوچ اپنی عورتوں کی تقدیس پر بہت حسّاس ہیں، بلوچستان میں قبائلی جنگیں عورت کی لاج رکھ کر بند ہوسکتی ہیں تو عورت کی تقدیس پر تیس سالوں تک جنگ ہی جنگ چلتی ہیں، بلوچ کٹتے ہیں مرتے ہیں لیکن عورت کی تقدیس کو انا سمجھ کر سمجھوتہ نہیں کرتے۔
اسے چاہے جہالت کہیں، فرسودہ نظام یا اجڑ پن جو آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے لیکن بلوچستان میں یہ حقائق ہیں وہ زمینی حقائق جن پر آج بھی پوری دیانت داری سے عمل کیا جاتا ہے۔
ریاست کی بلوچستان کے معاملات پر نکتہ نگاہ آج بھی وہی پرویز مشرف والا ہے جس میں معمولی تبدیلی تک نہیں لائی گئی البتہ اسے اور پر خطر بنانے کی کوششوں میں کوئی کمی نہیں لائی جارہی۔ وہ جو کل تک بلوچ روایات سے بے خبر تھے آج بھی انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ عورتوں کے معاملے میں بلوچ نفسیات کی ایک الگ پیرامیٹر ہے۔ دودا کی ماں نے طعنہ دے کر کہا تھا ” آمرد کہ میاراں جل انت نیم روچ ءَ نہ وپساں کل آں” کلاسیکل شاعری کی شعر کا یہ ٹکڑا ہر بلوچ سینے میں محفوظ ہے چاہے کوئی طالب علم یا تعلیم یافتہ شخص ہو کوئی ان پڑھ، گنوار یا چرواھا۔
مشورہ ہے کہ بلوچ کے ساتھ دشمنی ہی سہی لیکن کلاسیکل بلوچی شاعری کا ترجمہ کرکے کچھ سمجھنے کی کوشش کی جائے پھر جنگ لڑنا یا ساتھ ملانا دونوں آسان رہیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں