جمعہ کے روز پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے رہنماؤں نے احتجاجی کیمپ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی اداروں کی جانب سے بلوچ طلباء کیلئے انتہائی غیر محفوظ حالات پیدا کیے جا رہے ہیں. آئے روز بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی، ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طابلعلموں کو ہراساں کرنا، یونیورسٹی کیمپسز کے اندر بلوچ طلباء کی نسلی پروفائلنگ، اور انہی جیسے دیگر ہتھکنڈے استعمال کرکے بلوچ طلباء کو ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا گیا ہے. بلوچستان کے غیر محفوظ حالات اور تعلیمی اداروں میں ہراسمنٹ، جبری گمشدگی جیسے مظالم سے تنگ آکر بلوچ طلباء نے یہ سمجھ کر تعلیمی سرگرمیوں کو مکمل کرنے کے غرض ملک بھر کے دوسرے شہروں کا رُخ کیا، کہ شاہد بلوچستان سے باہر وہ ایک پُرسکون ماحول میں تعلیم حاصل کرسکیں گے، لیکن بد قسمتی سے بلوچ طلباء کیلئے یہاں کے حالات بدتر ہیں. ہراسمنٹ اور جبری گمشدگی کے ساتھ ساتھ اب یہاں بھی بلوچ طلباء کو تعلیم سے دور رکھنے کی گہری سازشیں جاری ہیں اور انہیں ڈر اور خوف کی فضا میں جینے پر مجبور کیا گیا ہے-
انہوں نے کہا کہ اپ بخوبی واقف ہونگے کے پہلے بلوچ طلباء کو تعلیمی اداروں میں مسلسل ہراساں اور پروفائلنگ کے بعد جبراً لاپتہ کیا جاتا ہے. حال ہی میں ایک بلوچ طالبعلم بیبگر امداد بلوچ کو پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ہاسٹل نمبر 7 سے صبح 7:40 بجے ریاستی اداروں کی جانب سے جبراً لاپتہ کیا گیا جہاں پنجاب یونیورسٹی کے چیف سیکورٹی آفیسر بنامِ کرنل عبید اور یونیورسٹی انتظامیہ نے باقاعدہ بیبگر امداد بلوچ کی جبری گمشدگی میں اغواء کاروں کی مدد بھی کی. واضح رہے بیبگر امداد بلوچ نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں انگریزی ادب کے طالب علم ہیں اور وہ عید کی چھٹیاں منانے اپنے کزن کے ہاں پنجاب یونیورسٹی لاہور گئے تھے جہاں اُس کو بِنا ایف آئی آر اور بغیر کسی جرم کے جبراً لاپتہ کیا گیا۔ اور بعد ازاں بدنامِ زمانہ سی ٹی ڈی نے اُن پر جھوٹا اور بے بنیاد الزام عائد کیا جو کہ تشویشناک ہے۔ بیبگر امداد بلوچ کو پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے جبراً لاپتہ کرنا اور ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کو بار بار ہراساں کرنا اس امر کی گواہی ہے کہ بلوچ طلباء کو دانستہ طور پر تعلیم سے دور رکھنے کی تمام تر ریاستی کوششیں جاری ہیں.
انکا کہنا تھا کہ بلوچ طلباء کی ہراسمنٹ اور پروفائلنگ کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی بیبگر امداد بلوچ اس ہراسمنٹ کا پہلا ویکٹم ہے بلکہ یہ سلسلہ سالوں سے چلتا آ رہا ہے۔ جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ حفیظ بلوچ جو قائدِ اعظم یونیورسٹی میں ایم فل فزکس فائنل سمسٹر کے طالب علم تھے، جب وہ چھٹیوں میں اپنے آبائی علاقے ضلع خضدار گئے تھے، اُسے وہاں کی ایک نجی اکیڈمی سے سینکڑوں طلباء اور اساتذہ کے سامنے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور اُس پر بے بنیاد و منگھڑت الزامات لگائے گئے۔ جب طلباء نے ملک بھر میں شدید احتجاج ریکارڈ کراۓ اور متعدد دنوں کیمپ میں بیٹھے رہے تب جاکر اُن کو منظرعام پر لایا گیا مگر ان پر سنگین جرائم کے بے بنیاد مقدمات داغے گئے۔ آج بھی وہ بلا وجہ زندانوں میں اذیتیں کاٹ رہا ہے۔
انکا مذید کہنا تھا کہ بلوچ طلباء کے لئے حالات دن بہ دن مزید گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی بھی واقعے کے بعد اجتماعی سزا کے طور پر بلوچ طلباء کو مسلسل جبر کا نشانہ بنانے اور انہیں جبراً لاپتہ کرکے غیر انسانی سلوک سے بلوچ طلباء کے اندر ایک خوف جنم لے چُکا ہے۔ بلوچ طلباء ایسے حالات میں تعلیمی سرگرمیوں کو مکمّل طور پر خیر باد کہہ کر چھوڑنے پر مجبور ہیں. اس پہلے بھی لاہور میں دو بلوچ طلباء کو مسلسل ہراساں کیا گیا اور انہیں 2 بار لاپتہ کیا گیا، جہاں چند روز بعد انہیں جسمانی رہائی تو مل گئی مگر انہیں ذہنی کرب کا شکار بنانے کے لیے مختلف طریقوں سے ہراساں کیا گیا ۔جس کے بعد انہوں نے مجبوراً تعلیم سرگرمیوں کو مکمل طور پر خیر آباد کہہ کر اپنے آبائی گاؤں چلے گئے. حال ہی میں میں غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی میں بلوچ طلباء کے ساتھ ہراسمنٹ کا واقعہ رونما ہوا جہاں انکے اسٹڈی سرکل پر دھاوا بول کر انہیں مختلف زرائع سے ہراساں کرکے ڈرایا دھمکایا گیا اور بعد ازاں متعدد طلباء کو یونیورسٹی سے بشمول ایک پروفیسر برترف کیا گیا.
طلباء نے کہا کہ موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچ طلباء بیبگر امداد بلوچ اور حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی کو لیکر کافی فکر مند ہیں۔ اسی سلسلے میں گزشتہ تین مہینوں سے بلوچ طلباء سراپا احتجاج ہیں. حالیہ دنوں 3 مئی عید کے دن بلوچ طلباء کی جانب سے ایک بار پھر سہ روزہ احتجاجی کیمپ لگایا گیا اس امید سے کے شاید ہمارے مطالبات مان لیے جائیں. مگر ہمیشہ کی طرح بلوچ طلبا کو یکساں نظر انداز کیا جارہا. بلوچ طلباء نے پچھلے دو مہینوں سے انصاف کے تمام دروازوں کو دستک دی لیکن بدقسمتی سے بلوچ طلباء کی شنوائی نہیں ہوئی. ہم ایک بر پھر ریاستی اداروں سے اپیل کرتے ہیں بیبگر امداد بلوچ اور حفیظ بلوچ کو بحفاظت رہا کیا جائے اور بلوچ طلباء کی ہراسمنٹ و پروفائلنگ بندی کی جائے.
انہوں نے کہا کہ اج اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم اپنی سہ روزہ احتجاجی کیمپ کو اختتام کرتے ہیں. اور ساتھ ہی حکومت وقت اور متعلقہ اداروں کو 15 دنوں کا الٹی میٹم دیتے ہیں کہ جلد از جلد بیبگر امداد بلوچ کو رہا کیا جائے اور اور ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کی نسلی پروفائلنگ و ہراسمنٹ کے خلاف تسلی بخش اقدامات لیے جائیں. اگر متعلقہ حکام اور حکومتِ وقت کا یہی رویہ رہا اور بلوچ طلباء کی رہائی عمل میں نہیں لائی گئی تو ہم بلوچ طلباء مزید شدت کے ساتھ اپنا احتجاج شروع کریں گے جہاں ڈی چوک پر مکمّل دھرنا دیا جائے گا اور اسلام آباد و پنجاب کے جمعات کو مکمل بائیکاٹ کرکے انہیں بند کیا جائے گا، اور تا دمِ مرگ بھوک ہڑتال کی طرف جا سکتے ہیں. جس کے تمام تر ذمہ دار، ریاستی ادارے، یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومت وقت ہونگے.
ہم انسانی حقوق کے کارکنوں، تمام طلباء تنظیموں، اساتذہ کرام، زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد، اور ملک بھر کے انسان دوست افراد سے التماس کرتے ہیں کہ وہ اِن غیر قانونی اور غیر انسانی سلوک کے خلاف بلوچ طلباء کے ساتھ ہم آواز ہو کر ان مظالم کی روک تھام کیلئے ہمارا ساتھ دیں۔