بلوچستان کے صنعتی شہر حب، تربت، اور سندھ کے شہر کراچی سے پاکستانی فورسز نے تین افراد کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق حب چوکی چیزل آباد زامرانی محلہ سے پاکستانی فورسز نے ایک طالب علم کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے جسکی کی شناخت ظہور بلوچ کے نام سے ہوئی ہے-
ذرائع کے مطابق لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اینڈ میرین سائنسز کے طالب علم ظہور بلوچ کو 7 مئی کی رات 2 بجے فورسز کی بھری نفری نے گھر سے اٹھا کر لاپتہ کردیا –
ساتھی طالب علموں کے مطابق ظہور بلوچ لمز یونیورسٹی اوتھل میں پہلے سمسٹر کا طالب علم ہے اور انکی عمر اکیس سال ہے۔ ظہور بلوچ کی کسی بھی سیاسی سرگرمی سے وابستگی نہیں رہی ہے –
لواحقین نے ریاستی اداروں سے ظہور بلوچ کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ رات کو چوروں کی طرح گھر میں داخل ہوکر نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کی آئین میں اجازت نہیں ہے – اگر وہ کسی بھی جرم میں ملوث ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے سزا دی جائے –
دوسری جانب ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے اطلاعات ہیں کہ تربت یونیورسٹی میں ایم اے بلوچی لٹریچر کے اسٹوڈنٹ کلیم شریف کو عید سے پانچ دن قبل تربت آبسر سے سیکورٹی فورسز نے جبراً حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے.
جبکہ کراچی سے اطلاعات ہیں کہ گذشتہ دنوں چھ مئی گوادر کے رہائشی دانش ولد بشیر کو فورسز نے کراچی سے حراست میں لے کر لاپتہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ شخص گوادر پورٹ میں ملازم ہے جو اس وقت کراچی اپنے نجی کام کے سلسلے میں گیا ہوا تھا جسے فورسز نے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا ہے۔
خیال رہے کہ رواں سال کی فروری سے بلوچستان سمیت کراچی اور پنجاب سے بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے – روزانہ کی بنیاد پر بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں کے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں –
سیاسی جماعتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں طلباء کی مارواء عدالت گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں-