بلوچستان آگ و خون کا منظر پیش کر رہا ہے – بی ایس او

374

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن خضدار زون کا جنرل باڈی اجلاس زیرِ صدارت مرکزی کمیٹی کے رکن وحید انجمؔ منعقد ہوا۔

اجلاس کے ایجنڈوں میں تعارفی نشست، عالمی و علاقائی صورتِ حال، تنظيمی امور، تنقيدی نشست، اور زونل جنرل باڈی کی تشکیل شامل تھیں۔

بین الاقوامی تناظر پہ بات کرتے ہوئے بی ایس او کے رہنماؤں نے کہا کہ آج محکوم دنیا پر براہ راست اور اِن ڈائرکٹ کالونیلزم کی پالیسیاں بری طرح سے مسلط ہیں، جنوبی ایشیائی خطے میں آج سری لنکن معیشت کو بھی عالمی قوتوں نے قرض، لیز اور دوسرے معاہدات کے ذریعہ جکڑ لیا ہے، ایسی معاشی کمزوری پر کرونا وائرس، اندرونی فرقہ وارانہ چپقلشیں، شعبہ سیاحت کا دہشت گردی کا شکار ہونا اور سری لنکن خاندانی حکومت نے کاری ضرب لگائی جس کے نتیجے میں نہ صرف سری لنکا شدید معاشی و سیاسی بحرانات کا شکار ہوا بلکہ بنیادی انسانی ضرورتیں بھی عالمی معاشی نظام اور سامراجی کنٹرولڈ اکنامک پالیسی کے ہاتھوں ناپید ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ یورپی دنیا میں بھی یہی استعماری ٹکراؤ روس یوکرین تصادم کی صورت میں نظر آرہا ہے جہاں روس یوکرین کے اندر جی سیون اور نیٹو کی مداخلت کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتے ہوئے عسکری کارروائیاں کر رہا ہے جس میں بےگناہ یوکرینی شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جس کی ہیبت ناک صورت ہمیں “بوچا قتلِ عام” سے ملتی ہے، تو دوسری طرف امریکہ سمیت استعماری طاقتیں اس جنگ کو ہوا دے کر اپنے جنگی معیشت کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور مسلسل پیسے بٹور رہے ہیں۔ اسی جنگی کاروباری حواس کے تحت یوکرین کو اب تک اربوں ڈالر کے ہتھیار بیچے جا چکے ہیں۔ یہ جنگی جنونیت تمام طاقتور اور استحصالی قوتوں کی ضرورت ہے جس کے تحت وہ جنگیں بیچتے ہیں اور مال و دولت لوٹتے ہیں دوسری جانب مظلوم و محکوم قیمتیں ادا کر رہی ہوتی ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ یہی صورتِ حال مادرِ وطن بلوچستان کی بھی ہے جس کو عالمی و نوآبادیاتی قوتیں سیندک، ریکوڈک اور سی پیک کے بڑے استحصالی منصوبوں کے ذریعے ہر طرح سے لوٹنا چاہتی ہیں اور دعوے ترقی یافتہ بلوچستان کے کر رہے ہیں۔ حقیقت میں بلوچستان ہر طرف سے آگ و خون و غلامی کا منظر پیش کر رہا ہے جس کی دردناک مثالیں ڈیرہ بگٹی میں پانی کی عدم دستیابی اور جوہڑوں کے پانی پینے اور حیاتیاتی امراض سے اموات کی شکل میں ملتی ہیں۔ حالانکہ ڈیرہ بگٹی وہ بلوچ علاقہ ہے جس سے حاکم ستر سالوں سے قدرتی گیس لوٹ رہی ہے۔ بلوچ قوم اپنی سرزمین پر محکومی کی زندگی گزار رہی ہے جس کے ثبوت چاغی میں بلوچ ڈرائیوروں پر تشدد و ان کی شہادت، گوادر میں عوام کےلیے نوآبادیاتی بندشیں اور سمندری وسائل کی لوٹ کھسوٹ ہیں اور دوسری جانب بلوچ خواتین کو گرفتار کرکے سامراج چین کا ٹوٹا اعتماد بحال کرنے کےلیے انہیں دہشتگرد ثابت کرنے کی کوشش کرنا اور پرامن اور جمہوری احتجاج کرنے والے بلوچوں پر تشدد کرنا بھی نوآبادیاتی نفسیات کا کھلا اظہار ہے۔ آج جو عناصر جس طرح نام نہاد الیکشن اور ترقی کے الفاظ استعمال کرکے بلوچوں کو ذہنی طور پر آلودہ کرنا چاہتے وہی عناصر کوہِ سلیمان میں ہزاروں ایکڑ پر پھیلے چلغوزے کے جنگلات کے آگ لگنے پر کئی دنوں سے تماشائی بنے ہوئے ہیں جس سے بلوچستان میں آب و ہوا میں تبدیلی و ماحولیاتی آلودگی سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا جوکہ بلوچستان میں ہر قسم کی زندگی کےلیے تشویشناک عمل ہے۔

تنظیمی امور و تنقیدی نشست میں سابقہ کارکردگی رپورٹ پیش کی گئی جس میں حاصلات کو مزید مؤثر بنانے پر بحث کی گئی اور کمزوریوں کا تنقیدی جائزہ
جائزہ لیا گیا ۔

جنرل باڈی کے نئے کابینہ کےلیے تمام کارکنان کے چناؤ سے کابینہ تشکیل دیا گیا جس کے لیے زونل صدر آصف بلوچ ، سینئر وائس صدر صابر بلوچ، جونیئر وائس صدر شاہجہان بلوچ ، جنرل سیکریٹری ریاض عالم بلوچ، سینئر جوائنٹ سیکریٹری گُل حسن بلوچ ، جونيئر جوائنٹ سیکریٹری مہراللہ بلوچ، اور انفارميشن سیکریٹری محمد جان درویشؔ منتخب ہوئے۔