برزکوہی کے نام خط
تحریر: آئی-کے بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
“وطن سے محبت، خود سے محبت کی ابتداء ہے”
میرے مہربان !
آج آپ کے نام خط لکھنے کی پہلی وجہ یہ ہے کہ آپکی تحریریں روز ہمارے گھر آکر، ہمیں بتانےکی کوشش کرتی ہیں “وطن سے محبت,خود سے محبت کی ابتداء ہے”۔ اور ہم روز ان تحریروں (جو ہمارے جسم میں خون بن کر دوڑ رہی ہیں) سے پوچھتے ہیں کہ وطن سے محبت، خود سے محبت کی ابتداء ہے ” سے کیا مُراد ہے؟ تو جواب ملتا ہے۔
“اک انسان جہاں وجود میں آتا ہے وہ وہاں کی مٹی سے بنتا ہے، اسی مٹی میں پروان چڑھتا ہے، پھر وہی انسان اسی مٹی کے دائرے میں موجود انسان و حیوان ،ساحل وسائل، مذہب و فرقہ، ننگ و نامُوس،وغیرہ وغیرہ کی حفاظت کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار رہتا ہے۔ آخر میں خود کو ہر طرح سے قربان کرکے اسی مٹی کا ہوجاتاہے۔ یوں ہی دونوں کے ملن سے محبت کی مورتی بن جاتی ہے اور جب کوئی انسان قربانی دینے سے گریز کرتا ہے یا وطن سے غداری کرتا ہے تو وہ بھی اسی مٹی میں مل جاتا ہے لیکن یہاں وہ محبت کی مورتی نہیں بلکہ کیچڑ بن جاتا ہے۔
میرے مہربان!
آج آپکے نام خط لکھنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم وطنِ عزیز سے دور ، پڑوس میں ہیں۔ ہمیں اس بات کا اچھے سے علم ہے کہ آپ ہم سے خفا ہیں، ہونا بھی چاہیے کیونکہ آپ کو لگ رہا ہوگا کہ وطن کے نوجوان ،وطن کے پاسبان، وطن سے دور ہوکر یا رہ کر وطن کے حالات سے بےخبر ہوکر نسبتاً اچھی زندگی گزار رہے ہونگے۔
نہیں روحِ من نہیں، ایسا نہیں کہ ہمیں معلوم نہیں یا ہم بے خبر ہیں. ہم سب خبر رکھتے ہیں اور ہمیں معلوم ہیں کہ کس طرح وطن کے نام نہاد سردار،میر، وڈیروں نے وطن کو لوٹا ہے،کس طرح وطن کے نام نہاد رکھوالے وطن کو بیچ رہے ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ وطن عزیز میں ہر شخص اذیت میں ہے، ہر شخص گھر سے بے گھر ہے، ہر شخص زندان میں قید ہے، ہر شخص روڑ پر انصاف کی بھیک مانگ رہا ہے۔ ہر شخص بوند بوند پانی کےلیے ترس رہا ہے۔ یہاں تک کہ وطن عزیز میں ہر لفظ درد میں ہے۔
لقمان حکیم نے کیا خوب کہا تھا کہ انسانی وجود میں موت سے زیادہ تلخ لمحہ وہ ہوتا ہے جب کوئی صاحبِ ظرف، کسی کٓم ظرف کا محتاج ہو جائے.
روح من، وطنِ عزیز سے دور ہونا یا رہنا ہماری خواہش نہیں __ مجبوری ہے۔اور ہماری مجبوری یا محتاجگى کو کمزوری نہ سمجھئے گا ، بلکہ ہمیشہ کی طرح ہمیں سمجھانے کی کوشش کی جیئگا کہ دنیا میں جو بھی چیز ہو اس کی خوبصورتی ایک خاص عمر تک ہوتی ہے مثلاً مرد، عورت،جانور ،چیزیں وغیرہ وغیرہ ان سب کی خوبصورتی اک مخصوص وقت تک ہوتی ہے اور پھر ایک ایسا وقت آتا ہے جب ان سب کی خوبصورتی سے دل بھرنے لگتا ہے پھر وہی خوبصورتی ،بدصورتی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔لیکن دنیا میں اک چیز ایسی بھی ہے جسکی خوبصورتی نا ختم ہونے والا طویل سفر ہے جسے ہم “آزادی” کہتے ہیں اور آزادی وہ واحد اک چیز ہے جس کی خوبصورتی وقت کے ساتھ ساتھ خوبصورت ترین ہوتی جاتی ہے۔
لیکن یہ اک تلخ حقیقت ہے کہ ان لوگوں کو آزادی کی خوبصورتی نظر نہیں آتی جن کو ہم غلام کہتے ہیں کیونکہ انکو آزادی کی خوبصورتی نہیں، بلکہ غلامی کی بدصورتی پسند ہے۔
سقراط نے کیا خوب کہا تھا،”اگر آسمان سے آزادی کی بارش ہو جائے تو غلام چھتریاں لیکر نکلیں گے۔ “
روح من!
آج آپ کے نام خط لکھنے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ آپ کی باتیں، آپ کی تحریریں ہمارے منہ پہ طمانچے ہیں لیکن وہ طمانچہ ہم کبھی نہیں بھول سکتے جب آپ نے کہا ،” میرے نوجوان جب لکھاری، شاعر و ادیب بنتے ہیں تو عورت کے اردگرد عورت کی تعریف و محبت پہ کتابیں لکھ دیتے ہیں اور خود کو والٹیئر و سارتر سے کم سمجھتے نہیں، لیکن جب ان سے کہو کہ عورت کے اردگرد سے نکل کر ذرا آس پاس میں جلتے ہوئے گھروں، زمین پر پڑی بدبودار لاشوں کو محسوس کرو تو جلدی سے قلم کا ڈھکن لگاکر کہتے ہیں کہ حالات خراب ہیں۔”
یقین مانیں میرے مہربان ،آپ کی تحریروں کی وجہ سے ہم اک عجیب کشمکش کے لپیٹ میں ہیں ایسا لگ رہا ہے کہ زندگی سے ساری دلچسپی ختم سی ہوگی ہے، نیلا آسمان، سیاہ لگنے لگا ہے سورج کی روشنی ، بے نور سی لگنے لگی ہے جبکہ ہم شاعر، لکھاری، ادیب ان سب میں سے کچھ بھی نہیں۔ لیکن آپکے طمانچے سے ہمیں احساس ہوا کہ اس طمانچے میں آواز بلوچستان کی ہے ،اس طمانچے میں درد بلوچستان کا ہے ،اس طمانچے میں پکار ہماری نسل کی ہے اس طمانچے میں جنگ ہماری بقاء کی ہے، اور اس طمانچے میں عزت ہماری ماؤں بہنوں کی ہے۔
وطنِ عزیز کے بہادر، باشعور بیٹے! اسی شعر کے ساتھ رخصت اف آوارن سنگت۔
“میری تکمیل میں شامل ہیں, کچھ تیرے حصے بھی
ہم اگر تجھ سے نہ ملتے ، تو ادھورے رہتے ۔”
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں