بانک نورجان بلوچ کے جبری گمشدگی کا تناظر ۔ رامین بلوچ

588

بانک نورجان بلوچ کے جبری گمشدگی کا تناظر

تحریر: رامین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں جہاں جبری گمشدگیوں میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے، وہاں اب بلوچ خواتین کو بھی جبری طور پر حراست میں لئے جانے کے سلسلے میں بھی شدت دیکھنے میں آرہی ہے۔ گزشتہ دنوں بلوچستان کے علاقے ہوشاب سے بانک نور جان نامی ایک بلوچ خاتون کو رات گئے سی ٹی ڈی پولیس نے ان کے گھر پر دھاوا بول کر جبری طور پر لاپتہ کیا، جس کے بعد سے ہوشاب میں سی پیک روڈ پر اہل علاقہ اور بلوچ عوام نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بہیمانہ واقعے کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کرکے نام نہاد سی پیک روڈ کو ہر قسم کے ٹریفک کے لئے بند کرکے نور جہاں بلوچ کی بحفاطت بازیابی کے مطالبہ کے طور پر اپنی نوعیت کا تاریخی احتجاج کررہے ہیں جبکہ اس مظاہرہ میں نورجان کے دو کمسن بیٹے بھی اپنی ممتا کی بازیابی کے لئے مظاہرین کے ساتھ احتجاج میں شریک ہیں۔

مظاہرین گرمی کی آگ برسانے والی شدیدلہر میں مسلسل دھوپ کا سامنا کرتے ہوئے احتجاج کررہے ہیں، جن میں اکثریت کے طور پربلوچ خواتین بھی شامل ہیں۔ 45سینٹی گریڈ گرمی اورچلنے والے گرم ہواوں کے اس بہشت کے باسی ہیٹ سٹروک کا خطرہ مول کر سوا نیزے سورج کا پرواہ کئے بغیر غلامی اور جبر کے سوا نیزے کے خلاف منظم اور باوقارا نداز میں احتجاج کررہے ہیں جبکہ احتجاج اور ٹریفک کی بندش کو مدنظر رکھتے ہوئے ان مظاہرین نے تمام بلوچ کے دکھ، درد اور تکلیف کو یکسان سمجھ کر آنے والے مسافروں کو احتجاج کا حصہ بناکر آرام کے لئے کمبل خیمہ پانی اور لنگر کا انتظام کرچکے ہیں۔ یہ پہلی دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بلوچ قوم کے شعور میں جہاں ایک ابال ایک احتجاج اور ایک غصہ نظر آتاہے وہاں یہ ایک دوسرے کے دکھ کو سمجھ چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک کا دکھ سب کا دکھ ہے، تمام بلوچ قومی غلامی اور ریاستی جبر کا یکساں طور پر سامنا کررہے ہیں ریاستی جبر اور نوآبادیاتی استبداد سے کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ وہ جانتے ہیں کہ نوآبادیاتی جبر کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک مخصوص مرحلے کے لئے ہڑتال اور احتجاج کے طریقہ کار کو ایک ہتھیار کے طور پر لینا ہوتاہے وہ سمجھتے ہیں کہ جتنی زیادہ خاموشی ہوگی ریاست کی ظلم و جبر کی حوصلہ افزائی ہوگی وہ جانتے ہیں کہ نو آبادیاتی طاقتوروں کے درمیان رشتہ تعلقات دوستی اور یاریاں پیسے کے گردگھومتی ہیں، لیکن بلوچ قوم اقدار میں خونی رشتہ قومی رشتہ نظریاتی اور زمینی رشتوں میں ایک دوسرے کے احساسات جذبات قدر مشترک ہوتے ہیں ایک کا دکھ سب کی دکھوں کا اکائی اور مجموعہ ہوتاہے۔

بلوچ عوام کے اس جرائت مندانہ احتجاجی ردعمل کے دباؤ میں آکر اگرچہ سی ٹی ڈی نے بانک نورجان کو منظر عام پر لاکراپنی شکست خوردگی کا اعتراف کیاہے لیکن اپنی روایتی جھوٹ بیانی کا سہارا لے کر زیر حراست بانک نورجان پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرکے انہیں تربت میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرتے ہوئے دعویدارہے کہ نورجان بلوچ مبینہ طور ایک خود کش بمبار تھی۔ جسے خفیہ معلومات کے بنیاد پر تحویل میں لیا گیا جو سی پیک روڈ پر چینی اہلکاروں پر حملے کی منصوبہ بندی کررہا تھااس کے جسم پر خود کش جیکٹ بندھے ہوئے تھے اور اس سے مبینہ خود کش حملہ میں استعمال ہونے والے بارودی مواد اسلحہ اور دیگر آلات بر آمد کئے گئے۔

مزید الزامات کے ساتھ کہ ان کا تعلق بی ایل اے مجید برگیڈ سے ہے وغیرہ وغیرہ جبکہ دوسری جانب بانک نورجان بلوچ نے عدالت میں ریاستی فورسز کے جعلی اور دروغ گوئی پر مبنی بیان کو سرے سے جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کرنے کے ساتھ اپنے اوپر لگائے گئے تمام تر ریاستی الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اس سے صاف انکار کرچکی ہے بانک نورجان بلوچ کے اہل خانہ کی جانب سے سوشل میڈیا کو دیئے جانے والے موقف میں شروع ہی سے ریاست کے جنگی جرائم پر مبنی اس کاروائی کے خلاف اپیل کی گئی تھی کہ وہ ریاستی دہشت گردی کے خلاف ہماراساتھ دیں۔ آج ہماری باری ہے تو کل آپ کی بھی ہوسکتی ہے ان کا بیانیہ تھا کہ نورجان بلوچ ایک گھریلو خاتون ہے جو گھر یلو صنعت کے طور پر دستکاری اور کشیدہ کاری کا کام کرتاہے۔ جبکہ ان کا شوہر جو متحدہ عرب امارات میں محنت مزدوری کے پیشہ سے وابسطہ ہے نے ایک ویڈیو پیغام میں ریاستی فورسز کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ احتجاجی عمل میں ہمارا ساتھ دیں۔

بلوچ خواتین کا اس طرح جبری طور پر لاپتہ کرنے کے واقعات نہ تو پہلا نہ یہ آخری ہوگا بلوچستان ایک جنگ زدہ علاقہ اور مقبوضہ سرزمین ہے یہاں اس طرح کے واقعات کا سلسلہ شاید بلوچستان کی آزادی تک نہ رکے اور ہمارے بھائی بزرگوں کے ساتھ ہماری مائیں اور خواتین کا بھی اس نو آبادیاتی قبضہ کے پاداش میں ریاستی جبر سے ممکنہ طور پر بچنے کی امکانات مسدود ہوں کیونکہ اس غیر مہذب اور غیر جمہوری ریاست سے یہ امید ایک مفروضہ یا خام خیالی ہوگی کہ وہ بلوچ روایات یا چادر چار دیواری کا احترام کرے۔ یہ ہمارے جذبات اور اقدار ہیں کہ ہمارے سماجی اقدار میں عورت کا ایک بلند مقام ہے۔

بلوچستان میں ریاستی جبرو دہشت کسی خاص واقعہ کے ردعمل گرد نہیں گھومتا بلکہ اس کی بنیادی وجہ بدقسمتی سے بلوچستان کی مقبوضہ حیثیت ہے، دنیا میں جہاں بھی آزادی کی تحریکوں میں شدت آئی اور وہ اپنی منزل کی جانب تیزی کیساتھ سفر کرنے لگیں تو وہاں نو آبادیاتی طاقتوں نے بلا جنس مرد ہو یا عورت سب کو یکساں طور پر اپنے غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایااور یہی صورتحال بلوچ قوم کا ہے جس کے خواتین قبضے کے دن سے ہی ریاستی جبر کے نشانہ پر ہیں۔

بانک کریمہ بلوچ کی کینیڈا میں شہادت کا واقعہ ہو یا زرینہ مری اور حنیفہ بگٹی کی تاحال جبری گمشدگی کا سانحہ ہویا پھر بلوچ راہنما شہید اکبر خان بگٹی کی پوتی زامر بگٹی اور ان کی بیٹی کو شہیدکرنے کاعمل ہو یہ کرب و قیامت روز کا معمول ہے۔ جس میں بلوچ خواتین مسلسل ریاستی وحشیانہ پالسیوں کا سامنا کررہے ہیں۔ بلوچستان میں سینکڑوں فوجی آپریشنوں میں بلوچ خواتین شہید کئے گئے ہیں ایک معلوم اعداد و شمار کے مطابق ہزاروں بلوچ خواتین ان فوجی آپریشنوں میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بھیٹے ہیں حال ہی میں آواران سے چار بلوچ خواتین کو اغواء کیا گیا اگرچہ بعد ازاں انہیں رہا کیا گیا اس سے قبل کوئٹہ مری کیمپ میں ایک بوڑھی خاتون سد گنج کو شہید کردیا گیا کاہان چمالنگ جالڑی ڈیرہ بگٹی میں سینکڑوں خواتیں فضائی بمباریوں میں شہید کئے گئے بسیمہ میں بانک ریحانہ بلوچ کو شہید کیا گیاپسنی میں مھراب بلوچ کی والدہ کو تین گولیاں لگی تمپ میں بانک شہناز بلوچ کو شہید کردیا گیا یہ سلسلہ نہیں رکا۔

ریاست جنگی جرائم کے ایک میکنزم کے طور پر بلوچ خواتین کو اغواء یا شہید کرتاہے تاکہ جو لوگ بلوچ قوم تحریک سے وابسطہ ہیں، وہ جدوجہد آزادی سے دستبردار ہوجائیں یا بلوچ تحریک آزادی کے لئے وسیع پیمانے پر جو ہمدردیاں پیدا ہورہے ہیں وہ خوف و ہراس کے زریعہ کم کیا جاسکے یا بلوچ خواتین جو قومی آزادی کی جدوجہد میں اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ ہورہے ہیں انہیں ایک تھریٹ دیاجائے کہ اب ان پر بھی ہاتھ ڈالا جاسکتاہے قبضہ گیر ریاست جب اپنی تمام تر فوجی طاقت و وسائل استعمال کرنے کے باوجود جب تھک کر پسپائی اختیار کرتاہے تو وہ مقبوضہ سماج میں مسلسل ایک نفسیاتی خوف پیدا کرنے کی کوشش کرکے عوامی یکجہتی کو توڑنے اور تقسیم کرنے کی کوشش کرتاہے تاکہ عام لوگوں کو قومی تحریک سے الگ کیا جاسکے لیکن یہ ریاست کی صرف بھول ہے آج بلوچ قومی شعور جس مرحلہ کو عبور کررہی ہے وہاں ریاست کے یہ نفسیاتی ہتکھنڈے بھی مسلسل ناکام ہورہے ہیں جہاں سے بھی کسی کو لاپتہ یا شہید کیا جاتاہے وہاں بلوچ عوام احتجاج کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ریاستی جبر بلوچ قومی یکجہتی کو توڑنے کے بجائے منظم کررہی ہے کیونکہ جدوجہد آزادی ایکٹ کا کوئی ڈرامہ نہیں ہوتابلکہ دو قوتوں کے درمیان ایک پیکار ہوتی ہے۔

اس میں کوئی شک یا دورائے نہیں رہا کہ شاری بلوچ کے فدائیانہ عمل کے بعد قبضہ گیر ریاست اور ان کے بندوبستی حلقہ میں مجلس عزا کا ماحول دکھائی دے رہاہے۔ سب سے اول بلوچ تحریک آزادی کے بارے میں ان کے جھوٹے پروپیگنڈوں اور پھیلائی گئی ڈس انفارمیشن کو شدید دھچکا لگاہے کہ قابض جو بلوچ جدوجہد آزادی کے بارے میں ایک رائے عامہ بنانے کی تضحیک آمیز پروپیگنڈہ پھیلارہی تھی کہ بلوچ جہد کار دہشت گرد ہیں یا کسی ملک کی پراکسی وار کا حصہ ہیں یایہ چند جرائم پیشہ لوگ ہیں جو باہر کے پیسوں کے لڑرہے ہیں۔ شاری بلوچ کے فدائی عمل اور مجموعی طور بلوچ فدائیانہ جدوجہد سے ان کے گمراہ کن غلط بیانیاں بوسیدہ ہوکر رہ گئے ہیں اور دوسری جانب کنفیوشس انسٹیوٹ سمیت دیگر یونیورسٹیوں کے چینی اساتذہ واپس چلے گئے ہیں جس سے ریاست کی نوآبادیاتی اہداف اور بلوچ وطن پر تادیر قبضے کے خیال اور چین سے فنڈنگ کے زرائع کسی حدتک مسدود ہونے کے خدشات خارج از امکان نہیں۔

چینی سامراج کے توسیع پسندانہ مشینری کے پرزے کے طور پر بلوچستان میں تعینات اہلکاروں کو مسلسل بلوچ ردعمل کا سامنا ہونے کے بعد سی پیک جیسے ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ ناکام ہوچکاہے اور چین کی سرمایہ کاری ڈوب رہی ہے جو بلاخر چین کابلوچستان سے مکمل انخلاء یقینی ہے جس سے پنجابی کالونائزر چین کے سامنے اپنے اعتماد بحال کرنے اور دھوکہ دینے کی زہنیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہوشاب جعلی خود کش حملے کا ڈرامہ رچاکر چین کو تسلی دے رہے ہیں کہ وہ چینی سامراجی اہلکارروں کی حفاظت کے لئے برق رفتاری سے کام کرتے ہوئے بلوچ فدائی حکمت عملی کی مرکزیت کو توڑرہی ہے بانک نورجان بلوچ کا اغواء اس سلسلے کی کڑی ہوسکتی ہے تاکہ وہ چائنا پراپنا کھویا اعتماد بحال کریں۔

لیکن اس سارے پس منظر میں ایک سوال سامنے آتاہے کہ چینی جب کراچی اور گوادر کوئٹہ اوردوسرے بڑے شہروں میں محفوظ نہیں تو وہ ہوشاب جیسے علاقوں سے گزرنے کے لئے ہزار بار سوچیں گے وہ پے درپے واقعات کے بعد اتنے بے وقوف نہیں کہ ہوشاب جیسے علاقوں میں سفر کا سوچیں جہاں سٹریٹ اور ماسز تک پر بلوچ جہد آزادی کا اثر و رسوخ موجود ہے۔

دوسرا یہ کہ ریاست اپنی شکست خورد گی کو چھپانے کے لئے اتنی ظالمانہ ہوسکتی ہے کہ ایک بلوچ خاتون کے دستکاری میں استعمال ہونے والے آلات سوئی دھاگہ ناخنک کو ڈینونیٹر خودکش جیکٹ زندہ کارتوس اور اسلحہ دکھانے کی حدتک جاسکتے ہیں کراچی میں مریم نواز کے فلیٹ پر چھاپہ لگ جاتاہے تو پورا آسمان سرپہ اٹھایا لیا جاتاہے بلوچ قوم پرستی کے دعویداروں کو بھی چادر و چاردیواری کے تقدس و عزت کے دورے آتے ہیں لیکن بلوچستان میں ان کی
زہن اور سوچوں ریاست کی خوف لالچ مراعات کی طاقت سے اس قدر جکڑی ہوئی ہے کہ وہ اس بھنور سے نکلنے کو اپنی موت سمجھتے ہوئے محض علامتی مذمتی بیان سے آگے عملی طور پر کچھ کرنے سے یکسر بانجھ نظر آتے ہیں زبیدہ جلال بشری رند جیسے بکاؤمال جو ریاست کے لئے خام مال کا کردار ادا کرتے ہوئے تمام حدیں پار کرکے پنجابی ریاست کی چوکھٹ پراپنی وفاداریاں ڈھیر کرتے ہوئے اپنی وطن مٹی اور خون کے غدار بن کرچینی اساتذہ پر حملہ کے لئے تو ماتم کناں ہیں لیکن نورجان بلوچ ہزاروں بلوچ خواتین کے ساتھ ریاست کے ظالمانہ سلوک ان کے کانوں اور آنکھوں کو نہیں چھوتے۔

فرضیہ طور پر بانک نورجان پر لگائے گئے الزامات کو ایک لمحہ کے لیئے قبول بھی کیاجائے تو میرے خیال میں کوئی حرج نہیں کہ بلوچ لہو سے چلنے والی تحریک آج اس مقام پر پہنچ چکاہے کہ بلوچ خواتین بھی اپنی زمہ داریاں محسوس کرتے ہوئے جہد آزادی کا حصہ بن چکے ہیں۔

سوال پیداہوتاہے کہ وہ کیوں آزادی کی تحریک کا حصہ نہیں بن سکتے کردستان فلسطین الجزائر افریقہ ہندوستان کیوبا ویت نام سمیت مختلف مقبوضہ ممالک کی آزادی کی تحریکوں میں کردار ادا کرسکتے ہیں تو بلوچستان میں کیونکر ممکن نہیں اس ریاستی نظام کے اندرخواتین ملازمت کرسکتے ہیں یونیورسٹیوں میڈیکل کالجز میں پڑھ سکتے ہیں این جی اوز میں کام کرسکتے ہیں اسمبلیوں میں جاسکتے ہیں ووٹ دے سکتے ہیں تو پھر وہ کیاوجہ ہے کہ آزادی کی تحریک کا حصہ نہیں بن سکتے؟

یہ جدوجہد کسی جنس واحد کی جدوجہد نہیں بلکہ ایک قومی جنگ ہے جو بلوچ مرد و خواتین کا مشترکہ فریضہ ہے بلوچ خواتین صرف بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں اس کی مقدر میں صرف خانگی زندگی نہیں جسے مصنوعی شرم و حیاء کی بوسیدہ روایتوں کی بیڑیاں ڈال کر اس کے لے صرف ازدواجی زندگی اور شادی کو پیمانہ ٹہرایا جائے یہاں مسئلہ جنسی تفریق کا نہیں قومی آزادی کا ہے اس جنگ میں جب کسی کا بھائی اٹھایا جاتاہے تو بھائی کے ہاتھ میں راکھی باندھنے والی کیا بلوچ بہن متاثر نہیں ہوتااس کے سلگتے ارمان مجروح نہیں ہوتے کیا ایک عورت کے طورپر اس کی ماں متاثر نہیں ہوتی کیا کسی کے شوہر کو شہید کیاجاتاہے تو اس کی بیوی بیوہ گی کی زندگی نہیں گزارتاکسی کی شوہر لاپتہ ہوتو اس کی بیوی نیم بیوگی کے رحم و کرم پر نہیں ہوتا؟

جب ہم سب خونی رشتے ایک ہی طرح کے ظلم جبر اور وحشت کا سامناکررہے ہوتے ہیں تو ہم کیونکر جہد آزادی کے لئے مشترکہ جدوجہد نہیں کرسکتے یہ ایک قومی جنگ ہے ہر ایک کو اپنے اپنے طور پر اپنے حصہ کی زمہ داریاں ادا کرنی ہوگی تب ہم یک جان دو قالب ہو کر ریاستی قبضہ گیریت کے خیمے اپنی وطن سے اکھاڑنے میں کامیاب ہوں وہ دن دور نہیں کہ جب غلامی کی رات کا آخری پہر صرف اس کا آخری پہر ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں